بچوں کو لاڈ پیار ضرور کریں مگر ایک حد تک…تاکہ ان کی تربیت متاثر نہ ہو۔
اپنے بچوں کو سرپرائز پارٹیز، ڈیزائنر کیک اور دیگر تحائف دے کر ہم دراصل بچوں کو“ریسیونگ موڈ” میں لے جاتے ہیں ۔
اس کا نقصان یہ ہے کہ جیسے ہی بچے کی برتھ ڈے آتی ہے وہ یہ سوچنا شروع کردیتا ہے کہ اس برتھ ڈے پر مجھے کیا ملنے والا ہے؟
مجھے کون سا گفٹ ملے گاہ ؟ ساتھ میں وہ “ایکسپیکٹ” کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اور یہ “ریسیونگ موڈ” کا پہلا نقصان ہے۔
پہلے سال پر اگر بچے کوپانچ ہزار کی پارٹی دی، پانچ سال پر 25ہزار کی 10سال پر پچاس ہزار کی تو لازماًبچہ 15سال پر ایک لاکھ کی پارٹی کا تقاضا کرے گا۔ یہی معاملہ کھلونوں اور دیگر چیزوں کا ہوسکتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ہم اس بچے کی توقعات میں اضافہ کررہے ہیں۔
دوسرا نقصان اس لاڈ کا یہ ہوگا کہ وہ غصہ کرنا شروع کردے گا، ضد کرنا شروع کردے گا۔یا پریشان رہنا شروع کردےگا جب چیزیں اس کی توقعات کے مطابق نہیں ہوں گی۔
وہ ڈیمانڈنگ ہوگا …تقاضا کرنے لگے گا کہ مجھے تو باربی ڈال ہی چاہیے، مجھے ہوٹ وہیلز ہی چاہیے، فلاں سائیکل چاہیے وغیرہ وغیرہ
یا وہ ڈیپینڈنٹ ہوگا …انحصار کرنے لگے گا اپنی خوشی کے لئے دوسروں پر۔ جس دن زیادہ Wishesنہیں آتے یا زیادہ Giftsنہیں آتے ۔
وہ اداس رہنا شروع کردیتا ہے۔
یہاں پر بچے کا ایک سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ Selfishبننا شروع کردیتا ہے۔ کہ مجھے کیا ملے گا؟
اس کا تمام تر دھیان اپنی ذات پر رہنے لگتا ہے جس کا نقصان آگے کی زندگی میں یہ ہے کہ معاشرے کی سب سے بڑی برائی “تیرا میرا” کا کانسیپٹ جنم لیتا ہے۔ بھائیوں کے درمیان جائیداد اور دیگر باتوں پر جھگڑے شاید اسی کی پیداوار ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ایسا نہ کرے اور ہمیشہ اچھا برتاؤ کرے تو آپ کو چند باتوں کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔
سب سے پہلی غلطی ہم بچے کی برتھ ڈے پر کرتے ہیں ۔ یہ دن اس کی زندگی کا اہم ترین دن ہوتا ہے اس دن ہونے والی کوئی بات اس کی لونگ ٹرم میموری میں فٹ ہوجاتی ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے اور اس کی عادت بن جاتی ہے۔
اگر بچوں کو اچھی عادت دینی ہیں تو اس کے برتھ ڈے کے دن کوئی ایسا کام کروائیں جس سے دوسروں کی مدد ہو۔ بچے کو ایسی جگہ لے جائیں جہاں دوسرے ایسے بچے جہنیں دنیا کی کوئی آسائش میسر نہیں۔ ذہنی اور جسمانی معذور بچے ۔یتیم خانے، محتاج خانے وغیرہ
بچوں کے ہاتھ ان بچوں میں تحفے تحائف بانٹیں جوکھانا، پینسل کتابیں، ٹافیاں، کپڑے جوتے،کچھ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ہوسکتا ہے۔
یہ عمل کرنے سے آپ کے بچے میں سب سے پہلی چیز جو آئے گی وہ Gratitudeہے۔ یعنی وہ شکر گزار بنے گا۔
اسے اس بات کا احساس شروع ہوجاتا ہے کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے۔ جب وہ کسی بچے کو پینسل باکس دیتا ہے کہ تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا بھی ہے جس کے پاس ایک پینسل تک نہیں ہے۔اور میرے پاس تو دنیا کی کتنی آسائشیں ہیں چیزیں جنہیں میں استعمال کرسکتا ہوں۔ اس طرح اس میں خوش قسمتی کا احساس جاگتا ہے۔وہ خدا کا شکر ادا کرے گا، آپ کا شکر یہ ادا کرےگا۔یا کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ وہ کمپلین کرنا بند کردے گا۔اس میں یہ احساس بیدار ہوگا کہ ان بچوں کے پاس تو مناسب کپڑے تک نہیں ہیں، چپل تک نہیں ہے۔
اپنے بچوں کو دینے والا بنائیں۔
یاد رکھیں! جو کچھ ہم معاشرے کو دیتے ہیں بہر حال معاشرہ وہی ہمیں لوٹاتا ہے۔ وہ خوشیاں ہوں،دُکھ ہو ،تعلیم ہو، ہنرہو یا اچھے لوگ…