اسلام کی کرنیں برصغیر میں سندھ کے خطّے سے داخل ہوئیں
صدیوں سے جورو جبر کی چکی میں پسے انسانوں نے اسلام کا عادلانہ نظام دیکھا
جب اسلام سیل رواں کی صورت میں دنیا کو اپنی آغوش میں لے رہا تھا
ایسی آغوش جو ایک ماں کی شفقت کی طرح رحمدلی سے عبارت ھے
جب ایک نوجوان سپہ سالار ان کا رہنمابنا تو بت پرستی کے پرچم سرنگوں ہوئے
اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ اسلام کے نورورنگ سے منور ہوگیا
محبت و سلامتی ہر سو پھیل گئی اور ظلمت و اندھیروں کو شکست فاش ہوئی
یہ تنہا نوجوان مرد مجاہد محمد بن قاسم کی شجاعت او دلیری تھی
جس نے کفار کے سب ناپاک عزائم کو ناصرف خاک میں ملایا
محمد بن قاسم کی ثابت قدمی نے بڑی سے بڑی بادشاہت کو نیست و نابود کیا
اور بتادیا کہ ایمان کی طاقت اس جہان فانی کی ہر شے سے بالاتر ہے
فاتح سندھ محمد بن قاسم بنو امیہ کے مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجے تھے
ان کے والد بصرہ کے گورنر تھے اس لیے ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی
پانچ سال کی عمر میں ان کے سر سے والد کا سایہ چھن گیا
غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہ کرسکے اور فوج میں بھرتی ہو گئے
انتہائی کم عمری میں قابلیت اور صلاحیت سے اعلیٰ عہدہ حاصل کرلیا
بحری جہاز کو سندھ کی حدود میں ڈاکوؤں نے نہایت قیمتی تحائف کے همراه لوٹ لیا
عورتوں اوربچوں کو بھی یرغمال بنا کر لے گئے
واقعہ کا علم حجاج بن یوسف کو ہوا تو انہوں نے راجہ داہر سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا
راجہ داہر نے نہایت حقارت اور لاپروائی کا اظہار کیا
حجاج نے ڈاکوؤں کو ازخود سبق سکھانے کا ارادہ کیا اورخلیفہ سے اجازت لى
اس مہم کی ذمہ داری 17ساله نوجوان سپہ سالار عماد الدین محمد بن قاسم کو سونپی
محمد بن قاسم سپاہیوں کے ساتھ جرأت مندی سے دبیل پر حملہ آور ہوئے اوراسے فتح کیا
اس کے بعد کئی علاقے ان کے نصیب میں آئے اور فتح ہوئے
بالآخرمیدان جنگ میں ان کا سامنا راجہ داہر سے ہوا
سخت لڑائی کے بعد حق کی جیت ہوئی اور داہر مارا گیا،اور قیدیوں کو آزادی ملی
تین سال کے عرصہ میں روهڑى، سکھر،برہمن آباداورشورکوٹ فتح ہوئے
چار سال کے مختصر عرصہ میں سلطنت کے اعلی انتظام و حکومت کی بنیاد ڈالی
اقلیتوں سے رواداری و فیاضی کا ایسا رویہ برتا که رهتى دنیا تک مثال بن گیا
ہندوستان کی سب سے پہلی مسجد اروڑ کا بھی انہی کے کارناموں میں شمار ہوتاہے
محمد بن قاسم پہلے مسلمان تھے جنہوں نے سندھ میں قدم رکھا
سندھ فتح کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں اسلام متعارف کروایا
ان کا کردار آج بھی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے