ایک تیتر بیچنے والا بازار میں تیتر بیچ رہا تھا ۔
اس کے پاس ایک پنجرہ میں ایک تیتر ، اور دوسرے پنجرے میں بہت سارے تیتر تھے ۔
کسی نے اس سے تیتر کی قیمت پوچھی ، جس پنجرے میں بہت سارے تیتر تھے بیوپاری سے اس کی طرف اشارہ کرکے بتلایا کہ ایک تیتر کی قیمت چالیس روپے ہے۔
گاہک نے دوسرے پنجرے کی طرف اشارہ کرکے پوچھا : وہ جو تنہا تیتر ہے اس کی کیا قیمت ہے ؟
بیوپاری نے کہا : وہ تو میں بیچنا ہی نہیں چاہتا ، اگر آپ لینے کے خواہش مند ہیں تو اس کے آپ کو پانچ سو روپے دینے ہوں گے ۔
وجہ پوچھنے پر اس بیوپاری نے بتلایا : اصل میں یہ تیتر میراپالتو ہے اور یہ دوسرے تیتروں کو جال میں پھانسنے کا کام کرتا ہے ۔
یہ چیخ وپکار کرکے اپنے دیگر ساتھیوں کو بلاتا ہے ، اور وہ اس کی پکار پر بغیر سوچے سمجھے جمع ہوجاتے ہیں ، اور جال میں پھنس جاتے ہیں ۔
اس کے بعد میں اس پھنسانے والے تیتر کو اس کی من پسند خوراک دیکر خوش کردیتا ہوں ۔ بس اسی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہے ۔
ایک دانا آدمی اس مجمع میں موجود تھا اور اس نے پانچ سو روپے میں اُس دھوکے باز تیتر کو خرید کر ذبح کردیا۔
کسی نے پوچھا : آپ نے ایسا کیوں کیا ؟
اس دانا شخص نے کہا : ایسے ضمیر فروش کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں … جو اپنے مفاد کی خاطر قوم وملت کو دھوکا دیکر پھنسانے کا کام کرتا ہو۔