کراچی پاکستان کا گنجان ترین شہر……جو تقریباً دو کروڑکی آبادی پر مشتمل ہے پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے ۔ یہ پاکستان کا معاشی حب بھی ہے اور اقتصادی سرگرمیوں کے لئے بھی پانی انتہائی اہم ہے ۔ شہر یوں کی ضروریات زندگی اور اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے پانی کی طلب میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جبکہ دستیاب پانی کی مقدار میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ اور اس بات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دوسرے شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی نہیں مل پارہا۔دوسرا بڑا اور اہم مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا ہے ۔
پانی کے مسائل اوردستیاب وسائل
کراچی کی آبادی 2018 کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے۔جس میں 19سالہ کے ریکارڈ کے مطابق سالانہ اوسطاً 2.4فیصد اضافہ ہورہا ہے جبکہ شہر کو پانی کی فراہمی میں 13سال سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جس کے باعث اب صورتحال انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے اورشہر کو ضرورت سے 56فیصد کم پانی فراہم کیا جارہا ہے۔جس کا اعتراف متعلقہ محکمہ بھی کرتا ہے۔
شہری پانی پیسے کے عوض خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ دستیاب پانی انسانی صحت کے حوالے سے طبی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں عمارتوں میں پائپ لائنز کے ذریعے پانی کی فراہمی عرصہ دراز سے بند ہے۔شہری پانی کے حصول کے لئے سکون، وقت اور پیسہ صرف کررہے ہیں تاہم یہ بنیادی سہولت کی ان کی دسترس سے پھر بھی دور ہے۔
کراچی کو دریائے سندھ اور حب ڈیم سے پانی فراہم کیا جاتا ہے اور یہ دونوں تقریباً 150کلومیٹر کے فاصلے سےپر ہیں ۔
کراچی کو اس وقت دو مختلف ذرائع سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک دریائے سندھ اور دوسرا حب ڈیم سے۔ اوریہ دونوں ہی شہر سے کم و بیش 150 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔
دریائے سندھ سے پانی نہروں کے ذریعے دھابیجی پہنچایا جاتا ہے جہاں سے پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے کراچی پہنچتا ہے۔ 60سالہ قدیم اس پمپنگ اسٹیشن کے کئی پمپ ناکارہ ہوچکے ہیں اور جبکہ باقی ماندہ درست کام نہیں کررہے جس سے پانی کی فراہمی متاثر رہتی ہے۔آئے روز ان میں خرابی کے باعث کئی کئی روز شہر کو پانی سپلائی معطل رہتی ہے ۔ دوسرا ذریعہ حب ڈیم ہے جس کا دار و مدار بارشوں پر ہے۔
شہر کی ضرورت کا تخمینہ 918ملین یومیہ ہے جبکہ کراچی کو صرف580ملین گیلن یومیہ کے لگ بھگ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ اتنی قلت و ناکارہ و بوسیدہ نظام اورجگہ جگہ لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث کے 174ملین گیلن پانی یومیہ ضائع ہوجاتا ہےاور کراچی کو بمشکل 406ملین گیلن پانی ہی میسر آتا ہے جو کل ضرورت کا 44فیصد ہے۔
کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور2001 تا 2005 میں سوملین گیلن اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ“ کے تھری ”مکمل ہوا۔جبکہ 2004 میں“کے فور”منصوبہ شروع کیا گیا اس منصوبے کو 2008 سے2011تک تین سال کی مدت میں مکمل کیا جانا تھا، جس کے تحت شہر کو مجموعی طور پر 650ملین گیلن پانی کی فراہمی متوقع تھی لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 11سال سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے جبکہ اس پر تخمینی لاگت 15ارب روپے سے بڑھ کر اب 75ارب روپے تک پہنچ چکی ہے اور اب تک شہریوں کو اضافی پانی کی فراہمی بس اک خواب لگتا ہے۔
زیر زمین پانی کے ذخائر
کراچی کے باسیوں کی اکثریت اپنی ضروریات کے لیے زیر زمین پانی پر انحصار کررہے ہیں اور اس مقصد کے لئے بڑے پیمانے پر بورنگ کی جارہی ہے تاہم اس پانی کو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ قرار دیا جاچکا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار کے مطابق 500ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزالوسالڈ) تک کا پانی انسانی استعمال کے قابل ہے جبکہ کراچی کے زیر زمین پانی میں اس کی مقدار 3سے ساڑھے 3ہزار ٹی ڈی ایس کے درمیان ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے تاہم دیگر ضروریات اس پوری کی جاسکتی ہیں۔
ٹینکر مافیا اورپانی کی چوری
یوں تو شہر میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے 8 قانونی ہائیڈرنٹس قائم ہیں لیکن غیر قانونی کنکشنز کے ذریعے پانی کی چوری معمول کی بات ہے۔ شہر میں پانی کے شدید ترین فقدان کے باوجود غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے مہنگے داموں پانی کی فراہمی انتظامیہ و دیگر متعلقہ محکموں پر سوالیہ نشان ہے ۔ چوری چھپے یہ کام جاری ہے جبکہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں مبینہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں یہ کاروبار عروج پر ہے۔ ایک اور مسئلہ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا بھی ہے۔ کچھ علاقوں میں 24 گھنٹے پانی میسر ہے جبک اکثر علاقے ایسے بھی ہیں جہاں مہینوں نہیں برسوں سے پانی نہیں پہنچا اور یہاں کے باسی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔
پانی کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟
کراچی میں پانی کی کمی کوپورا کرنے کے لئے اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی جنگی بنیادوں پر تکمیل کی ضرورت ہے ۔ جہاں بوسیدہ اور پرانے نظام میں بہتری لانے اور شہریوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم کےلئے مربوط منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ وہیں شہریوں میں پانی کے استعمال میں اعتدال کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔