چھپکلی لاکھوں روپے کمانے کا ذریعہ

چھپکلیاں جنہیں دیکھ کرخواتین کی ڈر سے چیخیں نکل جاتی ہیں اور بعض کمزور دل حضرات بھی انہیں دیکھ کر گھبرااٹھتے ہیں ۔ تاہم آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چھپکلیوں کو جلد کی الرجی اور خارش کی کئی  ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے اور اب توان چھپکلیوں کو کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ بظاہرمعمولی  نظر آنے والی چھپکلی کئی لوگوں کے لئے اچھا خاصا پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔
ایک چھوٹی سی انڈونیشین چھپکلی جکارتہ کے غریب دیہاتیوں کیلئےکاروبار کا بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ گیکو ‘ جوایک نرم جلد کی چھپکلی ہےاور انڈونیشیا میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ چائنیز اور کورینز کا ماننا ہے کہ اس سے کینسر کے ساتھ ساتھ جلد اور سانس کی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔

وائس آف انڈونیشیا کے مطابق انڈونیشیا کے ایک گاؤں کیپتاکان کے باسی رات کے اندھیرے میں ٹارچ لے کر چھپکلیاں پکڑنے نکلتے ہیں۔

دواؤں میں چھپکلیوں کے استعمال کاکوئی سائنسی ثبوت نہیں ملتا لیکن چھپکلی کے اجزا کوکاسمیٹکس کی تیاری میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

چھپکلیوں کے شکاری انہیں جمع کر کے آپریشن کے سربراہ تک پہنچاتے ہیں جو شکاریوں کو اس کے عوض اچھی خاصی رقم دیتا ہے۔

ایک 32 سالہ کسان جو لوگوں کے جانوروں کی رکھوالی کرکے روزانہ صرف 1 ڈالر کماتا تھا۔ لیکن اب وہ مقامی جنگلات سے گیکوس کا شکار کرکے ماہانہ تقریباً 110 ڈالر کمارہا ہے۔

اس انڈسٹری کا آغا چند برس قبل گاؤں ایک شخص عبدالرحمٰن کے کیا تھا۔لیکن اب سینکڑوں لوگوں اس کاروبار سے وابستہ ہیں جو اپنے گھروں پر گیکوس کو خشک کرکے ایکسپورٹرز کو سیل کررہے ہیں۔

چھپکلیاں جمع کرنے کے بعد انہیں پانی سے دھویا جاتا ہے اور پھر اُن پر سرف میں پانی ملا کر تیار کیا جانے والا آمیزہ لگایا جاتا ہے۔ چھپکلیوں کو بھوننے کے بعد دھوپ میں سکھا کر مارکیٹ میں فروخت کے لیے تیارکیا جاتا ہے۔

زیادہ تر گھریلو خواتین  گیکوس کو خشک کرکے پیکنگ کا کام سرانجام دیتی ہیں۔جس سےوہ مقامی کرنسی کے مطابق روزانہ تقریباً 20 ہزار کماتی ہیں۔

ایک کسان کی بیوی کا کہنا ہے کہ“ میرا کام صرف گیکوس کو اسٹریچ کرنا ہے جس کے عوض مجھے ماہانہ 525,000 ملتے ہیں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہماری روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہیں”۔

انڈونیشیا میں برسات کے سیزن میں گیکوس کا شکار بڑھ جاتا ہے جوکہ دسمبر سے فروری تک جاری رہتا ہے۔

عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ وہ یہ تو نہیں بتا سکتا کہ اس کی آمدن کتنی ہے لیکن وہ اس سے بہت خوش ہے۔اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ہر تین دن میں 5 ہزار سے 10 ہزار گیکوس کا شکار کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 1600 گیکوس تیار کرلیتے ہیں۔

اس گاؤں میں چھپکلیوں کے علاوہ مینڈک اور سانپوں کو بیچنے کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ پیسا چھپکلیوں سے کمایا جاتا ہے، جس کی قیمت ڈھائی لاکھ انڈویشین روپیہ فی کلو بتائی جاتی ہے۔اس کاروبار سے جڑے ایک شخص کے مطابق چھپکلی کی بنی مصنوعات کی  سب سے زیادہ خرید و فروخت  چین اور امریکا میں ہوتی ہے۔

گیکوس کے شکار پر ماحولیاتی تحفظ کے اداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ان کےایک نمائندے کا کہنا ہے کہ وہ جانور جو خطرناک نہیں ہیں یعنی جن سے انسانی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں وہ ہمارے ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسی لئے ان کا جنگل میں رہنا ضروری ہے۔اس کا مزید کہنا تھا کہ گیکوس جیسی جنگلی حیات کی تجارت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انڈونیشیا میں ان کی تحفظ کا کوئی قانون نہیں۔