بدلتی دنیا اور دور جدید کے تقاضے

رپورٹ:قمرالرحمٰن

ایک دور تھا جب انسان غاروں میں رہتا تھا، اس کا طرزِ زندگی بالکل بھی ایسا نہ تھا جیسا کہ آج ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرتا گیا، اس نے اپنی سہولت اور آسانی کے لئے کیا کچھ ایجاد نہیں کیااورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق آج سےبیس سال کے بعدموجوہ مہارتی معیار مکمل طور پر تبدیل ہوجائےگا ۔ 80 فیصد جابز مکمل طور پربدل چکی ہوں گی …نئے نئے اقسام کی نوکریاں دریافت ہوں  گی……… آج جو کچھ اسکولوں میں پڑھایا جارہا ہے  وہ آج سے تیس سال کے بعد کسی کام کا نہیں ہوگا۔

 ٹو ڈی اسکینر جس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ عام پرنٹر جن کی مدد سے ہم اپنے ڈاکومنٹس پرنٹ کرتے ہیں ۔ لیکن تھری ڈی اسکینراور پرنٹر تہلکہ مچانے دنیا میں آچکے ہیں ۔

ٹو ڈی یعنی ٹو ڈائمینشن جیسے ہمارے ڈاکومینٹس تصاویر اور دیگر پیپر ز…تھری ڈی سے مراد تھری ڈائمینشن جیسے کوئی بال وغیرہ جسے  ہم اوپر نیچے دائیں بائیں کہیں سے بھی چھو سکتے ہیں۔

 مختلف اشیاء کو پرنٹ کرنے کے لئے تھری ڈی پرنٹر مارکیٹ میں آچکے ہیں جن کے درمیان میں خلا ہوتا جس میں کسی بھی شئے کو اسکین کرکے اس کا پرنٹ لیا جاسکتا ہے۔… ہے ناں حیرانی کی بات…

اسےایڈیٹو مینوفیکچرنگ کا نام دیا گیا ہے اور اس ٹیکنالوجی نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ بڑی سے بڑی اورچھوٹی سےچھوٹی چیز تک پرنٹ ہورہی ہے۔ حتیٰ کہ انسانی مصنوعی اعضا تک پرنٹ ہوچکے ہیں ۔ اور آپ کو یہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ ان کی پیوند کاری کو بھی ممکن بنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ اگر کہا جائےکہ انسان اپنا پرنٹ تک نکال سکتا ہے  جو ہوبہو اس جیسا ہی دکھتا ہوتو یہ ناممکن نہیں۔ ہاں! مگر وہ سانس نہیں لیتا ہوگا۔

ہیلتھ کیئر مینوفیکچرنگ،آٹو موٹیو، ایئرواسپیس، کنسٹرکشن کے شعبوں میں تھری ڈی پرنٹر سےمدد لی جارہی ہے۔ چائنہ کی ایک کمپنی دن دس بلڈنگز مکمل تھری ڈی پرنٹ کرکے اس ٹیکنالوجی سےتہلکہ مچاچکی ہے۔ یہی نہیں دبئی میں ایک کارپوریٹ آفس تھری ڈی پرنٹ کی مدد سے تیار کیا گیا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ 2030تک دبئی کی 25فیصد عمارتیں تھری پرنٹ کی مدد سے تیار کی جائیں گی۔ اس ٹیکنالوجی سے جہاں پیسہ بچے گا وہیں وقت بھی… جس عمارت کو تعمیر ہونے میں کئی سال لگ سکتے تھے اب وہ گھنٹوں میں تعمیر ہوسکتی ہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں پوری دنیا میں کنسٹرکشن انڈسٹری پوری طرح بدل جائے گی۔تعمیرات کے حوالے سے تو کمپٹیبل میٹریل کے ساتھ پرنٹر تیار ہوچکے ہیں جو آپ کی خواہش کے مطابق میٹریل کے ساتھ اشیاء پرنٹ کرسکتا ہے۔

فی الحال تھری ڈی پرنٹر اتنے سستے نہیں تاہم ہر بدلتے دن کے ساتھ اِس کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے۔آٹو موبائل انڈسٹری میں اس حوالےسے کافی پہلے تبدیلی آچکی ہے بلکہ گاڑیاں تک پرنٹ ہوچکی ہیں ۔ ہیلتھ کےشعبہ میں بھی اس جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی جدت آچکی ہے۔

پوری دنیا میں جس تیزی سے بدلاؤ آرہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اب انسان کے ساتھ ساتھ دنیا پر ایک اور مخلوق جنم لے رہی ہے جسے روبوٹس کہتے ہیں جو ہر جگہ انسا ن کی کمی کو پورا کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کی ضروریات بھی انسان کے مقابلے میں انتہائی کم اور طاقت کئی گنا زیادہ ہوگی۔ کاشتکار اب صرف کاشتکار نہیں رہے گا بلکہ فارمنگ کے شعبہ میں جدید روبوٹس کام کریں گے اور وہ مینجر ہوگا۔

اس تیزی سے آتے بدلاؤ کے باعث دنیا کی کئی کمپنیوں کو محض اپنی ہی جیسی مصنوعات بنانے والی کمپنیوں سے بطور کمپیٹیٹر خطرات لاحق نہیں ہوں گے بلکہ دنیا کی مشہور و معروف کمپنی آڈی کو گوگل بھی ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسےممکن ہے…گوگل تو گاڑیاں نہیں بناتا؟؟…… یہی ہے دورِ جدید کی حیران کن حقیقت… گوگل نے کئی سال قبل بغیر ڈرائیور ڈرائیو ہونے والی گاڑی تیار کی جس کا کئی بار کامیاب تجربہ بھی کیا گیا ۔ کیلیفورنیا کی سڑکوں پر ڈرائیور لیس گاڑیوں کی ٹیسٹ ڈرائیوگوگل کرچکا ہے۔  ایسی گاڑیوں کی بدولت امید کی جارہی ہے کہ حادثات کا چانس زیرو ہونے والا ہے۔

ایک طرف روایتی کار بنانے والی کمپنیاں جو ایویلیوشن اپروچ پر کام کررہی ہیں۔ یعنی “کار آن وہیل” وہیں ایڈوانس ٹیکنالوجی کی حامل ٹیسلا،  گوگل، ایپل ریویلیوشن اپروچ پر کام کررہی ہیں۔ یعنی “کمپیوٹر آن وہیل”

روایتی کار بنانے والی کمپنیاں محض کار میں جدت لارہے ہیں جبکہ ایپل ،گوگل اور ٹیسلا ٹیکنالوجی کی مدد سے سب کچھ بدلنے والے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں ڈرائیونگ لائسنس کو بھی نہ پہچانیں کیونکہ ڈرائیور لیس گاڑیاں تیار ہورہی ہیں جو موبائل ایپ کے ذریعے کنٹرول ہوں گی۔ آج تو محض ہم موبائل کے ذریعے ڈرائیور سمیت گاڑی منگوا کر مطلوبہ منزل کی جانب چل نکلتے ہیں ۔لیکن سوچیئے! جب یہ گاڑیاں آئیں گی تو موبائل ایپ سے ،مگر ڈرائیور کے بغیر آپ کو منزل مقصود پر پہنچائیں گی۔

جس ترتیب سے کمپیوٹر اسمارٹ ہورہا ہے اس سے دنیا میں اور بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ فیس بک نے آل ریڈی  پیٹرن ریکوگنیشن سافٹ ویئر بنالیا ہے۔ انسانی آنکھ کسی کو پہچاننے میں غلطی کرسکتی ہے مگر کمپیوٹر نہیں ۔دھیرے دھیرے ہر قسم کی تعلیم بھی آن لائن ہوتی جارہی ہےجس کی بدولت دنیا کے دُور دراز اور پسماندہ علاقوں کے لوگ جن کے پاس کوئی ذرائع نہیں تھے آن لائن پڑھ پائیں گے اور دنیا میں مزید جدت لائیں گے۔2030میں کمپیوٹر کسی عام انسان کے دماغ کے مقابلے میں بہت زیادہ اسمارٹ ہوجائے گا ۔