انجمن ترقئ اردو پاکستانی اپنے کراچی کے دفتر میں ’’تقریب ملاقات‘‘ کے عنوان سے تقریب کا اہتمام کرتی رہتی ہے یہ سلسلہ تواتر سے جاری ہے اس مرتبہ ڈاکٹر نجیبہ عارف تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ اس موقع پر پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کی کاوشیں ہمارے سامنے ہیں‘ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے تخلیق ادب کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید میں نئے شعبے متعارف کرائے ہیں۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ شاعری میری پہلی محبت ہے لیکن میں نے سیکنڈری ایجوکیشن کے دوران ایک افسانہ ’’حور‘‘ لکھا اور دو سو روپے انعام میں حاصل کیے۔ البتہ میں تنقید کی طرف اتفاقاً نکل آئی ہوں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جدید ادب فلسفیانہ نقطۂ نظر کا مظہر ہے۔ وہ منطقی اور استدلالی سوچ کو نمایاں کرتا ہے ادب کو دیگر شعبوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زبان کی تدریس ہنگامی بنیادوں پر کرنی ہوگی کیوں کہ زبان سمجھے بغیر ہم ادب نہیں سمجھ سکتے۔ ہم ادب پڑھ کر خیالی تصاویر ذہن میں بنا لیا کرتے تھے اب زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ہم اب اسکرین پر بہت کچھ دیکھ لیتے ہیں۔ میں نئی نسل سے مایوس نہیں ہوں‘ ہمارے زمانے کی نئی نسل بہت ایڈوانس ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنا کلام سنا کر خوب داد حاصل کی۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے صاحبِ اعزاز کے بارے میں کہا کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے تحقیق میں بہت کام کیا ہے جس کے باعث یہ اپنے ہم عصر نقادوں میں بہت نمایاں ہیں۔ انہوں نے سفر نامے لکھ کر بھی بہت نام کمایا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ڈاکٹر نجیبہ عارف کی شخصیت اور فن پر سیرِ حاصل گفتگو کی۔ ذوالقرنین جمیل نے کلماتِ تشکر پیش کیے۔
۔۔۔*۔۔۔
ادب زندگی کا ترجمان ہے‘ ادیب و شعرا معاشرتی ضرورت ہیں کیونکہ یہ طبقہ ہماری زندگی کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شاداب احسانی نے کراچی براڈ کاسٹر لائنز کلب کے زیر اہتمام یونین کوآپریٹو کلب کے تعاون سے منعقدہ مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری دلوں کو گرماتی ہے‘ خوب صورت اشعار حالتِ سفر میں رہتے ہیں‘ بہت سے اشعار ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ مشاعرے میں کوئٹہ کی معروف شاعرہ جہاں آراء تبسم مہمان خصوصی تھیں‘ آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے جب کہ عقیلہ حق‘ نزہت شاہ‘ صبیح احمد قاضی اور سلطان مسعود نے بھی اظہار خیال کیا۔ صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ نسیم نازش‘ ریحان روحی‘ سلمان صدیقی‘ ضیا شاہد‘ سیما غزل‘ غزل انصاری وقار زیدی‘ انیس جعفری‘ حامد علی سید‘ کشور عدیل جعفری‘ توقیر تقی‘ صفدر علی انشاء‘ دلاور علی آذر‘ افتخار حیدر‘ افروز رضوی‘ الحاج نجمی‘ ندیم قیس‘ فرح عزیز‘ عاشق حسین شوکی‘ علی کوثر‘ فرحت جمال اور خالد رانا نے اپنا کلام پیش کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
اسالیب ادبی فورم نے ادکامی ادبیات پاکستان کے تعاون سے عطا الحق قاسمی کی صدارت میں عمان سے آئے ہوئے معروف شاعر قمر ریاض کے اعزاز میں محفل مشاعرہ سجائی‘ میزبان مشاعرہ‘ عنبرین حسیب عنبر تھیں جب کہ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس محفل میں اے جی سندھ کراچی کرامت بخاری بھی شریک ہوئے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ ناظم مشاعرہ اور میزبانِ مشاعرہ کے علاوہ سحر انصاری‘ انور شعور‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ عباس رضوی‘ کرامت بخاری‘ غزالہ کامرانی‘ خالد معین‘ ریحانہ روحی‘ عقیل عباس جعفری شاہینہ فلک‘ عمران شمشاد‘ نعیم سمیر اور قادر بخش سومرو نے کلام پیش کیا۔
عنبرین حسیب عنبر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسالیب ادبی فورم اپنی بساط بھر کوششوں سے اردو ادب کے فروغ میں مصروف ہے‘ ہم نے ادبی مذاکرے کرائے‘ مشاعرہ کرائے اور ہماری کوشش ہے کہ ادبی مکالمے زندہ رہیں اس سلسلے میں ہم اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ قمر ریاض ممتاز و معروف ادبی شخصیت ہے اور عمان سے تشریف لائے ہیں‘عطا الحق قاسمی بھی کراچی آئے ہوئے ہیں ہماری تنظیم نے ان دونوں اہم شخصیات کے لیے یہ محفل سجائی ہے۔ جب سے عطا الحق قاسمی پی ٹی وی کے چیئرمین بنے ہیں اس ادارے میں ادبی سرگرمیاں بہتر ہورہی ہیں۔ انہوں نے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ اچھی روایات قائم کی ہیں۔ اسالیب ادبی فورم کے سرپرست پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ عطا الحق قاسمی بہت سی خوبیوں کے آئینہ دار ہیں وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کی شاعری میں تجرباتِ زمانہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے اس معاشرے میں جو کچھ دیکھا وہ شاعری میں بیان کردیا۔ ان کے یہاں بناوٹ و تصنع نہیں ہے‘ ان کی سیاسی خدمات بھی قابلِ تحسین ہیں۔ یہ جہاں جہاں گئے پاکستان کا نام روشن کیا۔ یہ صحافت کے میدان میں بھی بلند پایہ صحافی ہیں اور اپنی ذات میں ایک دبستان ہیں‘ ہمیں ان کی شخصیت پر فخر ہے ہمیں خوشی ہے کہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اس موقع پر عطا الحق قاسمی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اہلِ کراچی نے میرے لیے ہمیشہ محبتوں کا اظہار کیا ہے۔ میں عنبرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے اتنی اچھی تقریب کا اہتمام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی وی پر مشاعرے اور دیگر ادبی پروگرام منعقد کرانا ہماری ترجیحات میں شامل ہیں ہم نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ قمر ریاض کے بارے میں عطا الحق قاسمی نے کہا کہ وہ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ محبتوں کے انسان ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
اکادمی ادبیات پاکستان‘ سندھ کے زیر اہتمام معروف شاعر ’’تاجل بیوس‘‘ کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد ہوا ممتاز شاعر سائل آزاد نے صدارت کی۔ نصیر سومرو مہمان خصوصی تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ بھی پیش کیا اس موقع پر انہوں نے کہا کہ تاجل بیوس سندھی ادب کے بڑے شاعر تھے‘ ان کی شاعری کو عام کرنے سے نوجوان نسل میں ادبی شعور کی ترویج و اشاعت میں مدد ملے گی۔ تاجل بیوس نے اپنی شاعری میں زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں کو برتا ہے انہوں نے ظالم سماج کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ ان کی شاعری ہر دور میں پڑھی جائے گی۔ صاحبِ صدر نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی زبان و ادب کی ترقی کے لیے بھی مصروف ہے۔ اس ادارے کے تحت سندھی اور اردو بولنے والے قریب آئے ہیں۔ سندھی ادب ہمارے صوبے کا گراں قدر سرِمایہ ہے‘ سندھی کے اہم ترین شعرا کی فہرست میں تاجل بیوس بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے سندھی ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ ان کا کلام کلاسیکل بھی ہے اور مزاحمتی بھی۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ تاجل بیوس کی شاعری کلاسیکی ہونے کی وجہ سے مقبول ہوئی۔ ان کی شاعری میں عوامی استعارے اور علمیحات کا استعمال بہ کثرت ملتا ہے ان کے یہاں ’’ماں‘‘ کا لفظ بار بار استعمال ہوا ہے‘ انہیں اپنی اماں سے بہت پیار تھا انہوں نے ماں کے زیر سایہ پرورش پائی کیوں کہ یہ بچپن میں اپنے والد کی محبت سے محروم ہوگئے تھے۔ تاجل ایک کامیاب شخص تھے‘ انہوں نے ٹیچنگ پروفیشن سے اپنی زندگی کا آغاز کیا اور اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ترقی پائی۔ اس طرح انہوں نے اپنی قوم سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے ساری عمر علم و فن کی دولت اپنے شاگردوں اور ہم وطنوں میں تقسیم کی۔ ان کی شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہے ان کے شعری مجموعے کا نام ’’اندازِ بیاں اور‘‘ ہے جو کہ ادبی حلقوں میں مشہور و معروف ہے۔ تقریب کے دوسرے دور میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ علی عرفان عابدی‘ سیف الرحمن سیفی‘ سیما عباسی‘ ضیا شہزاد‘ شہناز رضوی‘ عشرت حبیب‘ ستار بھٹی‘ شبیر کھوکھر‘ تنویرسخن‘ غفران احمد‘ بونیر بابا‘ تاجیر خاں تاجیر‘ جاوید صدیقی‘ الطاف احمد‘ محمد قدیر خان تاج علی رانا‘ غازی بھوپالی‘ جمیل ادیب سید ندیم تاج‘ الحاج نجمی‘ سلیم حامد سلیم سرفراز سخن‘ شہباز احمد‘ ڈاکٹر ایس ایم خالد‘ محمد کمال نظیر‘ علی زاہد‘ حیدر بخش بکڑو اور عمر برناوی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
۔۔۔*۔۔۔
سحر تاب رومانی جواں فکر شاعر ہیں ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’زندگی کے چاک پر‘‘ کی تعارفی تقریب کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی۔ معروف شاعر اور محقق خواجہ رضی حیدر نے صدارت کی۔ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ دیگر مقررین میں خالد معین‘ اوج کمال‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ رفیع اللہ میاں اور مصدق لاکھانی شامل تھے۔
اس موقع پر خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ سحر تاب رومانی کی غزلوں کے دو مجموعے پہلے شائع ہوچکے ہیں زندگی کے چاک پر ان کا تیسرا مجموعہ کلام ہے اس مجموعے میں جو شاعری ہے وہ پچھلے دنوں مجموعوں سے بہتر ہے۔ ان کی شاعری میں تازہ کاری نمایاں ہے ان کا لب و لہجہ قارئین و سامعین کے دل میں اتر جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں بھاری بھاری استعارے اور تراکیب استعمال نہیں کی ہیں بلکہ سہل ممتنع میں اپنی بات کہی ہے۔ ان کے یہاں زندگی کے تجربات و مشاہدات بھی ملتے ہیں اور حالتِ حاضرہ کے مسائل کا تذکرہ بھی ہے۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ناقدانِ سخن کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ خالد معین نے کہا کہ سحر تاب رومانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں حالانکہ انہوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں ان کی نظم و غزل دونوں قابل ستائش ہیں۔ اوجِ کمال نے کہا کہ سحر تاب رومانی کی شاعری میں رومانس بھی ہے اور معاشرتی زندگی کے عروج و زوال بھی شامل ہیں۔ ان کی شعری صلاحیتوں کا سفر جاری ہے اور مستقبل قریب میں سحر تاب رومانی ادب میں ایک بڑا نام ہوگا۔ خالد معین نے کہا کہ سحر تاب روما نی کی زبان جدید لہجے سے آراستہ ہے ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کی وضع داری اور رجھاؤ پایا جاتا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام اردوب ادب میں جگہ پائے گا۔ انہوں نے اپنی شناخت کو مستحکم کیا ہے ان کی ترقی کا سلسلہ جاری ہے۔ اختر سعیدی نے سحر تاب رومانی کے بارے میں کہا کہ انہوں نے چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بڑے بڑے مضامین بند کیے ہیں یہ ان کے فن کی پختگی کا ثبوت ہے وہ طویل عرصے سے شعروادب کی دنیا میں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں غزل کے مضامین کو بھرپور انداز میں بیان کیا ہے ان کے یہاں بہت سے اشعار حیرت انگیز اشعار نظر آتے ہیں جو کہ ان کے وسیع مطالعے کے عکاس ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ سحر تاب رومانی کی شاعری میضں ایک خاص لذت موجود ہے ان کی شاعری میں گیرائی اور گہرائی پائی جاتی ہے یہ بہت خوب صورت اشعار کہتے ہیں۔ ان کا کلام انسانی حقیقتوں کا آئینہ دار ہے انہوں نے سماجی رویوں کو مستحکم کیا ہے ان کے یہاں امیجری اور وجدانی کیفیت پائی جاتی ہے ان کے اشعار غنائیت سے بھرپور ہوتے ہیں انہوں نے مروجہ بحروں میں بہت اچھے اشعار نکالے ہیں۔ رفیع اللہ میاں نے سحر تاب رومانی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سحر تاب رومانی کے تین شعری مجموعے گفتگو ہونی کے بعد ممکن اور زندگی کے چاک پر شائع ہوچکے ہیں یہ ان کے شعری سفر کے تین پڑاؤ ہیں جن میں وہ اچھے شاعر کی طرح ارتقائی منازل سے گزر کر منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہیں۔ انہوں نے۔ پرانی زمینوں پر طبع آزمائی کرنے کے بجائے نئے استعارے اور مضامین تلاش کیے ہیں مجھے امید ہے کہ ان کی یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ مصدق لاکھانی نے کہا کہ سحر تاب رومانی جدید لب و لہجے کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے روایات سے ناتا نہیں توڑا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی رویوں کی نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے زندگی کے تجربات رقم کیے ہیں اور وصل و ہجر کی دلچسپ داستان بھی بیان کی ہے۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے کہا کہ ہم فاضل جمیلی اور علاء الدین خانزادہ کی سرپرستی میں ادیبوں اور شاعروں کی خدمت کر رہے ہیں کیونکہ اربابِ اہل قلم ایک معتبر طبقہ ہے۔ یہ لوگ معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل پر لکھتے ہیں‘ معاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی کرتے ہیں اس طرح اصلاحِ معاشرہ میں مدد ملتی ہے انہوں نے سحر تاب رومانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ نوجوان شعرا میں بہت اچھا کہنے والوں کی صف میں شریک ہیں ہم کراچی پریس کلب کی جانب سے اس شان دار تقریب پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر صاحب اعجاز سحر تاب رومانی نے کہا کہ وہ ان تمام دوستوں کے شکر گزار ہیں کہ جن کی کاوشوں سے یہ تقریب منعقد ہوئی ان میں اختر سعیدی کا بہت کنٹری بیوشن ہے۔ کراچی پریس کلب نے بھی میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے عزت بخشی میں ان کا بھی ممنون و مشکور ہوں۔ تقریب میں سحر تاب رومانی نے اپنا کلام سنا کر سامعین سے داد وصول کی۔
nn