بھارت میں نریندر سنگھ مودی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی پڑوسی ملک پاکستان کے بارے میں ایک جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی جلسوں میں انہوں نے پاکستان کو ہدف بنایا، وہ اپنے معاندانہ ریمارکس کے ذریعے بھارتی ووٹروں میں پائے جانے والے پاکستان مخالف عنصر کو اپیل کرتے تھے۔ کشمیر کے حوالے سے بھی وہ ایک سخت گیر مؤقف رکھتے تھے اور پاکستان پر کشمیر میں مداخلت کا الزام لگاکر پاکستانی زیر قبضہ کشمیر یعنی آزاد کشمیر کو آزاد کرانے کی بات کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ ماہ اڑی کیمپ پر کشمیری مجاہدین کے حملے میں 19فوجی ہلاک ہوئے تو انہوں نے ایک دم سخت ترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی اور اپنی فوجوں کو حملے کی تیاری کا حکم دے دیا۔ طبلِ جنگ تو بج گیا لیکن بھارتی فوج کے جرنیل جو زمینی حقائق سے زیادہ بہتر واقفیت رکھتے تھے غالباً اس حکمت عملی سے متفق نہ تھے، اس لیے انہوں نے کمتر جنگی کارروائی پر اکتفا کرتے ہوئے سرجیکل اسٹرائیک کا نسخہ استعمال کیا۔ پھر یہ اسٹرائیکس بھی متنازع بن گئیں اور صرف سوشل میڈیا میں اس کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں۔ بھارتی عسکری حلقوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے کمانڈو ایکشن کے ذریعے آزاد کشمیر میں تین جگہوں پر مجاہدین کے تربیتی کیمپوں پر حملے کیے ہیں جن میں موجود 35 افراد کو ہلاک کیا گیا اور وہاں موجود اسلحہ کو تباہ کردیا گیا ہے۔ یہ بھی خبر آئی کہ ایک بھارتی فوجی کو پاکستانی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے جس کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جہاں ایک طرف پاکستانی عسکری قیادت نے بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کی سختی سے تردید کی وہاں چند دنوں بعد خود بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ موودی نے اس سے انکار کردیا جس کی وجہ غالباً بین الاقوامی دباؤ بھی ہوسکتا ہے، یا پھر بعد میں ان کو خود سرجیکل اسٹرائیکس کی حقیقت کا پتا چل گیا ہوگا۔ خود پاکستانی عوامی حلقوں اور میڈیا نے بھی ان اسٹرائیکس کے بارے میں کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ مجاہدین کی تنظیموں کی قیادت نے بھی کسی قسم کے حملے اور جانی نقصان کی تردید کی ہے۔ بڑی عسکری طاقت رکھنے والے ملک بھارت کی جانب سے اس طرح کے کمزور دعوے بہت عجیب ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں بڑی فوجی اور ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کی جنگ خطرناک مضمرات کی حامل ہے۔ دونوں پڑوسی ملک کئی دفعہ آپس میں جنگ کرچکے ہیں۔ 1947-48ء میں کشمیر میں ایک غیر اعلانیہ جنگ لڑی گئی جس میں ڈوگرہ مہاراجا کی جانب سے کشمیر کے بھارت سے الحاق کا اعلان ہونے کے باوجود ایک بڑے حصے کو آزاد کروالیا گیا۔ 1965ء میں ایک بار پھر کشمیر ہی کے مسئلے پر 17روزہ جنگ لڑی گئی جس میں پاکستان نے اپنا کامیاب دفاع کرکے بھارتی حملے کو پسپا کیا۔ پھر 1971ء میں مشرقی پاکستان کی بنیاد پر ایک جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی جس میں پاکستان کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور مشرقی بازو کھونے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود پوری پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہمارے 90ہزار فوجی جنرل نیازی کی قیادت میں لڑنے کے بجائے ہندوستانی کیمپوں میں اسیر ہوگئے۔ 1971ء کے بعد بھی کئی مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان چھوٹی سطح پر جنگیں ہوئی ہیں جن میں دنیا کا بلند ترین محاذ سیاچن گلیشیئر اور کشمیر کا حساس ترین علاقہ کارگل شامل ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے کا الزام بھی پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ پر لگا اور اس موقع پر بھارت نے پاکستانی سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کرنا شروع کردیں۔ پاکستان نے بھی جوابی دفاعی تیاریاں شروع کردیں، لیکن بہرصورت جنگ کی نوبت نہ آئی۔
گزشتہ 6 سال سے بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ کے محاذ پر بارہا پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کی ہے جس سے آبادیوں کو نقصان پہنچا ہے اور پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ میں شکایات درج کی ہیں۔ جارحانہ اقدامات کا یہ سلسلہ صرف جغرافیائی سرحدوں پر نہیں ہوا بلکہ بھارت کے اندر بھی پاکستان کے خلاف حکومتی اور عوامی سطح پر اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ چاہے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی بحالی کا معاملہ ہو یا پاکستانی فنکاروں کے ساتھ رویہ، یا بھارتی میڈیا کا کردار۔۔۔ ہر طرح سے یکطرفہ اینٹی پاکستان مہم جاری ہے۔ کشمیری نوجوان ہیرو برہان مظفر و انی کی شہادت کے بعد کشمیری عوام نے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا ہے، قربانیوں کا جو بے مثال مظاہرہ کیا ہے اس کے ردعمل میں بھارت حواس باختہ ہوکر پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اور بھارت کی عسکری صلاحیت کا ایک تقابلی جائزہ مفید رہے گا۔
بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے شعبے میں پاکستان اگر بھارت سے بہتر نہ بھی ہو تو کمتر ہرگز نہیں۔ وہ بھارتی علاقوں میں دور تک مار کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے تیار کردہ میزائل روایتی اور جوہری دو طرح کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 1990ء میں ریگستانی علاقوں میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سینٹرل کور آف ریزروز بنائی گئی تھی۔ یہ کور مکمل طور پر میکینائزڈ ہے۔ ایک طرف تو دشمن کو روکنا ہے اور دوسری طرف آگے بھی بڑھنا ہے۔ نئی تشکیل پانے والی اسٹرے ٹیجک کور سمیت پاکستان کی دس کورز ہیں۔ پاکستانی فوج کی26 ڈویژن ہیں جو بھارت سے محض 8 کم ہیں۔ مزید 2 ڈویژن قائم کی جارہی ہیں۔ پاکستانی فوج کے پاس 2 آرمرڈ ڈویژن اور 10خودمختار آرمرڈ بریگیڈ ہیں۔ اِس وقت پاک افغان سرحد سے ملحق علاقے میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے ایک لاکھ پاکستانی فوجی تعینات ہیں۔
دی اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) 2 ایئر بورن بریگیڈ (2 بٹالین) پر مشتمل ہے۔ پاکستانی فوج کے پاس 360 ہیلی کاپٹر، دو ہزار سے زائد ہیوی گنز اور3 ہزار آرمرڈ گاڑیاں ہیں۔ اس کے اہم اینٹی ٹینک ہتھیاروں میں ٹو، ٹومیک ٹو، بکتر شکن اور ایف جی ایم 148 اے ٹی جی ایم شامل ہیں۔ دی آرمی ایئر ڈیفنس کمانڈ کے پاس ایس اے سیون گریل، جنرل ڈائنامکس ایف آئی ایم نائنٹی ٹو اسٹنگر، جی ڈی ایف آئی ایم ریڈ آئی اور کئی طرح کے سرفیس ٹو ایئر میزائل ہیں۔ راڈار سے کنٹرول کیا جانے والا اورلیکون بھی ہے جو اسٹینڈرڈ اے سی کے اے سی کے ویپن سسٹم ہے۔
پاکستان کے پاس بیلسٹک میزائل انوینٹری بھی اچھی خاصی تعداد میں ہے۔ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے غوری سوم اور شاہین سوم کے علاوہ غوری اول، دوم، شاہین دوم، اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے حتف، ابدالی، غزنوی، نصر، شاہین اول اور ایم ون ون نمایاں ہیں۔ پاکستان کے پاس موجود تمام بیلسٹک میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض میزائل کئی طرح کے ہتھیار لے جاسکتے ہیں۔ جوہری اور روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا بابر بیلسٹک میزائل پاکستان کی اسٹرے ٹیجک ویپن انوینٹری میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ اس میزائل میں راڈار کو دھوکا دینے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ میزائل دکھائی دیے بغیر بھارتی علاقوں میں بہت دور تک مار کرسکتا ہے۔ بیلسٹک میزائلوں اور ہتھیاروں کے معاملے میں پاکستان اور بھارت برابر ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر ڈیٹرنٹ موجود اور برقرار ہے۔پاکستان نے اپنی میزائل انوینٹری میں حال ہی میں ایسے ٹیکٹیکل میزائل کا اضافہ کیا ہے جو چھوٹے جوہری ہتھیار لے جانے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے۔ یہ بیٹل فیلڈ ویپن ہے جو کسی بھی مقام پر دشمن کی افواج کے اجتماع کو تہس نہس کرسکتا ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے پاس900 ایئرکرافٹ ہیں، جبکہ بھارت کے پاس 1800ایئر کرافٹ ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کی برتری دگنی ہے۔ فضائی قوت کے موازنے میں بھارت کی اصل برتری ٹرانسپورٹ طیاروں کے شعبے میں ہے۔ پاکستان کے پاس 230، جبکہ بھارت کے پاس 700 ٹرانسپورٹ طیارے ہیں۔ پاکستان کے پاس 9 ایئر بورن راڈار ہیں جبکہ بھارت کے پاس ایسے3 راڈار ہیں۔ پاکستان کے پاس 48 اٹیک ہیلی کاپٹر ہیں جبکہ بھارت کے پاس 20 اٹیک ہیلی کاپٹر ہیں۔
پاکستانی فضائیہ کے پاس 100اپ گریڈڈ ایف سولہ طیارے اور200 ری بلٹ میراج طیارے ہیں جو رات کے وقت بھی دیکھنے والے نظام سے لیس ہیں۔ یہ طیارے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان تمام طیاروں کو نئے ویپن سسٹمز، راڈار اور ایویانکس سے آراستہ کیا گیا ہے۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس، کامرہ میں جدید ترین طیارے بنانے کا عمل جاری ہے۔ جے ایف 17 فورتھ جنریشن فائٹر ایئر کرافٹ ہے۔ ایسے 8 طیارے فضائیہ میں شامل کیے جاچکے ہیں۔ چین کو 36 جے ایف ٹین طیاروں کا آرڈر دیا جاچکا ہے۔ یہ طیارہ بھارتی فضائیہ میں شامل سخوئی تھرٹی طیاروں کا ہم پلہ ہے۔
بھارتی فضائیہ کو عددی برتری ضرور حاصل رہی ہے مگر پاکستانی فضائیہ نے اپنی بہتر کارکردگی ہر جنگ میں ثابت کی ہے، اور پاکستانی فائٹر پائلٹس کا شمار دنیا کے بہترین تربیت یافتہ فائٹر پائلٹس میں ہوتا ہے۔بحری قوت کے معاملے میں بھارت کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہے۔ بھارت کے پاس مختلف اقسام کے184، جبکہ پاکستان کے پاس 84 جہاز ہیں۔ بھارتی بحریہ کے پاس 28 ، جبکہ پاکستان کے پاس 11 جنگی جہاز ہیں۔ بھارتی بحریہ کے پاس 17، جبکہ پاکستان کے پاس 10 آبدوزیں ہیں۔ اس عدم مساوات کے باوجود پاکستانی بحریہ بھارتی پانیوں میں داخل ہونے اور دور تک نشانہ لگانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
اصل سوال یہ کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرکے کیا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اگر وہ پاکستان کو شکست دینا چاہتا ہے تو کس طرح دے گا؟ اس کو لازماً کچھ اہداف متعین کرنے ہوں گے۔ ماضئ قریب میں سیاچن اور کارگل کی مثالیں موجود ہیں، جہاں دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا لیکن فتح یا شکست کی نوبت نہ آئی۔ سیاچن کے بلند ترین محاذ پر اب بھی دونوں فوجیں انتہائی ناخوشگوار ماحول میں آمنے سامنے موجود ہیں۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن اصل نقصان برفانی موسم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سامانِ خورونوش کی فراہمی اور اسلحہ کی سپلائی لائن برقرار رکھنا ایک مسئلہ ہے جس میں پاکستان کو بھارت کی نسبت آسانی حاصل ہے۔ جنگ کے ذریعے بھارت آزاد کشمیر پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ پنجاب اور سندھ کے محاذ پر اگر اس کے لیے کوئی نرم محاذ ہوسکتے ہیں تو اسے اس کے لیے بھی کوئی ٹھوس جواز ڈھونڈنا ہوگا۔ دوسری طرف پاکستان کو آسانی یہ ہے کہ وہ اپنا کامیاب دفاع کرکے ہی فتح کے شادیانے بجا سکتا ہے۔ اس کو کامیابی کے لیے کسی بھارتی خطے پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں (باقی صفحہ 17 پر )