جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں، سلطان سلیمان قانونی کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشا نے دانستہ مخفی رکھی تھی اور فتح کے بعد اعلان کیا تاکہ فوج میں کسی قسم کی بددلی نہ پھیلے۔ یہاں تک کہ اس فتح کو بھی سلطان سلیمان کے نام سے ہی موسوم کیا گیا۔ سلطان کی تدفین قسطنطنیہ لاکر سلطان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں کی گئی۔
سلطان کے انتقال کے وقت سلطان سلیمان قانونی کا بیٹا غازی سلیم ثانی شہر کوتاہیہ میں تھا (یہ شہر موجودہ استنبول سے189 کلومیٹر کی مسافت پر ہے)، وہ فوراً بلغراد پہنچا اور سلطان کے جنازے کو شہر اسکودار سے قسطنطنیہ پہنچانے کا انتظام کیا۔
10مئی 1566ء کو سلطنت کے گیارہویں اور بطور امیرالمومنین تیسرے خلیفہ سلطان سلیم خان غازی (سلیم ثانی) کی خلافت کا اعلان کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ اعلان سلطنت کی تباہی و بربادی کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا۔ مرحوم سلطان سلیمان قانونی کی تمام عمر کی مساعی و جدوجہد جو یورپ کو فتح کرنے کے سلسلے میں تھی، ضائع ہونے جارہی تھی۔ سلیم ثانی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سلطنت تیزی کے ساتھ زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اگر اس موقع پر وزیراعظم صوقوللی پاشا موجود نہ ہوتا تو سلطنت عثمانیہ ریت کی دیوار کی مانند ڈھے چکی ہوتی۔
سلطان سلیم ثانی کی ماں کا تعلق روس سے تھا اور وہ روکسان کی شہزادی تھی۔ سلیم ثانی اوائل عمر میں ہی شراب و حرم سرا کا رسیا ہوچکا تھا اور اُن صلاحیتوں سے بھی محروم تھا جن کا بادشاہ میں ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اس بدبخت نے تختِ سلطنت پر بیٹھتے ہی سلطنت میں شراب پر سے پابندی اٹھانے کا فرمان جاری کیا، اور عثمانی سلطنت میں شراب کی تیاری اور خرید و فروخت جو عرصہ پہلے بند کی جاچکی تھی اس کی دوبارہ اجازت دے دی۔ پرلے درجے کا نکما اور کاہل سلطان جس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر مرنے تک ایک دن بھی اپنا قدم شاہی محل سے باہر نہیں نکالا، ہر وقت شراب کے نشے میں مست اور کنیزوں کے درمیان رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام نے اسے شرابی سلطان کے لقب سے نوازا۔
جیسا کہ میں نے صوقوللی پاشا کی بابت تحریر کیا ہے کہ اگر یہ دانا وزیر اس کی سلطنت میں نہ ہوتا تو سلطنت کا نقشہ بہت پہلے ہی بگڑ چکا ہوتا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس وزیر باتدبیر نے کن حکمتوں اور نزاکتوں کے ساتھ عثمانی سلطنت کا وقار بلند رکھا۔
محمد صوقوللی کا تعلق بوسنیا کے ایک قصبے صوقول سے تھا۔ یہاں کے رہنے والے صوقولوچ کہلاتے تھے۔ عثمانی حکمران مفتوحہ علاقوں کے ذہین بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے اپنی نگرانی میں لے لیتے تھے، پھر ان کو دینی، اخلاقی اور حربی تربیت کے مراحل سے گزار کر صلاحیتوں کی بنیاد پر انتظامی عہدہ دیتے یا پھر ینگ چری فوج کا حصہ بنا لیتے۔ محمد صوقوللی بھی اسی طرح عثمانی خلیفہ کی تربیت میں آکر شاہی خاندان کے قریب آتا چلا گیا۔ عثمانی سلطنت میں اپنی قابلیت اور بہادری کے سبب وہ ’’پاشا‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اور جلد ہی شاہی محل میں مختلف نوعیت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد صدر اعظم یعنی وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ گیا۔ شاہی محل میں بااعتماد فرد ہونے کی بناء پر سلیم ثانی کی بیٹی سے نکاح ہوا اور اس طرح محمد صوقوللی پاشا شاہی خاندان کا فرد بن گیا۔
ظاہری اعتبار سے سلیم ثانی کا اقتدار تو قائم رہا مگر عملاً عثمانی سلطنت کے تمام معاملات صوقوللی پاشا ہی چلا رہا تھا۔ اس نے اپنی ذہانت سے تمام امورِ مملکت نہایت خوش اسلوبی سے چلائے اور فوج کو مزید فتوحات کی جانب گامزن رکھنے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھیں۔ مگر بدقسمتی سے فتوحات کے باب میں سلیم ثانی کا ہی بطور خلیفہ ذکر کیا جاتا رہا۔ سلیم ثانی کے انتقال کے بعد بھی محمد صوقوللی پاشا اپنے عہدے پر برقرار رہا اور سلیم ثانی کے بیٹے مراد ثالث کے ابتدائی دور تک حکومتی معاملات اسی کے ہاتھ میں تھے، لیکن کچھ عرصے بعد مراد ثالث نے محلاتی سازشوں کے ذریعے اس کو قتل کروا دیا۔
سلیم ثانی کے آٹھ سالہ دور میں بھی کچھ اہم معرکے ہوئے اور ان میں کچھ اہم کامیابیاں بھی ملیں جوسب اس وزیرِ باتدبیر کی مرہونِ منت تھیں۔ یمن کے قبائلیوں سے جنگ کی گئی اور وہاں مختلف نوعیت کے مذہبی فتنوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹا گیا۔
غازی سلیم خان ثانی کے دور میں عثمانیوں کا پہلی مرتبہ روس کے ساتھ ٹکراؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ معاملہ یہ ہوا کہ جب صوقوللی پاشا نے دو تجاویز پیش کیں کہ خاکنائے سوئز میں ایک نہر نکالی جائے تاکہ بحیرۂ قلزم اور بحیرۂ روم اور دریائے ڈون اور دریائے وولگا آپس میں مل جائیں، اس طرح سے تجارتی راستہ کم سے کم ہوسکتا ہے اور بحری بیڑے کی بدولت علاقے پر نگرانی بھی آسان ہوجائے گی۔
مگر وولگا اور ڈون شہر کو باہم ملانے کے اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ روس تھا۔ کیونکہ استر خان شہر جہاں سے یہ نہر گزرتی تھی، روس کے قبضے میں تھا۔ 1568ء میں اس شہر کو قابو کرنے کا پلان بنایا گیا اور 25000 آزمودہ کار ینگ چری فوجی شہر ازوف کی جانب روانہ کیے گئے۔ شہر پر قبضے کی جنگ شروع ہوئی اور ترک فوج مصروفِ جنگ تو رہی مگر اس کو کسی بھی قسم کی کامیابی نہ مل سکی۔ لامحالہ واپسی کا فیصلہ ہوا اور عثمانی فوج کو واپس آنے کا پیغا م دیا گیا۔ موسم کی خرابی اور بحیرہ اسود میں طغیانی نے عثمانی بحری بیڑے کو خوب زچ کیا۔ بیشتر کشتیاں سمندر میں ڈوب گئیں۔ بمشکل تمام عثمانی بیڑہ ناکام واپس آگیا۔ اس کے بعد روس اور عثمانیوں کے درمیان صلح کا ایک معاہدہ ہوا جس پر ایک سو سال تک دونوں مملکتیں عمل پیرا رہیں۔
2 اگست 1571ء کو جزیرہ قبرص کو فتح کیا اور وینس والوں سے ایک معاہدہ عمل میں آیا جس میں قبرص پر عثمانی قبضے کو قانونی حیثیت دی گئی۔
قبرص پر عثمانیوں کے قبضے اور وینس سے معاہدے کی خبر نے عیسائی اور رومن حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ فوری طور پر عیسائی ریاستوں نے بڑے پیمانے پر اپنی افواج کو عثمانیوں کے مقابلے پر مجتمع کرنا شروع کردیا اور مذہبی نائٹس اور کلیسا کی جانب وفود بھیجے کہ صلیبی پکار ماری جائے۔ نتیجتاً کلیسا ان کی پشت پر آگیا اور صلیبی جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ کسی طرح عثمانیوں کی بحری طاقت کو توڑا جائے۔ لہٰذا آسٹریا کے سالارِ اعظم ڈان جان کو اس مشن کی کمانڈ سونپی گئی اور اس کی قیادت میں صلیبی لشکر تیار ہوا۔
1571ء میں صلیبی فوج اپنے بحری بیڑے کے ساتھ مسینا کے مقام پر لنگرانداز ہوئی۔ اس کے مقابلے کے لیے عثمانی بحری بیڑہ پہلے سے ہی تیار تھا جو لی پانٹو کے ساحل پر لنگرانداز تھا۔ عثمانی بحری بیڑے کی قیادت امیرالبحر علی پاشا کے ہاتھ میں تھی۔ لی پانٹو کے ساحل پر دونوں بیڑے آمنے سامنے آئے اور ایک خونریز جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس معرکے کو جنگِ لی پانٹو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا اختتام عثمانیوں کے لیے اچھا نہ تھا۔ چند گھنٹوں کی اس جنگ میں امیرالبحر علی پاشا مارے گئے اور ترکوں کا شدید جانی نقصان ہوا، اور بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ کوئی تیس ہزار ترک سپاہی اور ملاح مارے گئے، جبکہ کئی جہاز سمندر میں غرق ہوگئے، جو بچے وہ عیسائیوں کے قبضے میں جا چکے تھے۔
اس بدترین شکست اور عظیم نقصان کے باوجود صوقوللی پاشا کی اولوالعزمی کی بدولت جلد ہی عثمانی دوبارہ ایک بہت شاندار بحری بیڑہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اور چند ماہ کے اندر اندر امیرالبحر سنان پاشا نے 1572 عیسوی میں عیسائی بحریہ پر جوابی حملہ کرکے خاصی حد تک اس شکست کی تلافی بھی کردی۔
غازی سلیم خان ثانی نے آٹھ سال صرف نام کی حکومت کی اور 1574 عیسوی میں اپنے پیچھے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑ کر انتقال کیا۔ سلطان غازی سلیم خان ثانی کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا سلطان غازی مراد خان خلافتِ عثمانیہ پر مسند آراء ہوا۔
(جاری ہے)