اوریا مقبول جان

360

جنگ عظیم دوم کے بعد مغرب میں جس معاشرے نے جنم لیا، جس سیاسی اور اقتصادی نظام نے جڑیں پکڑیں اس نے اپنے لیے ایک بنیادی کلیہ طے کرلیا کہ اب ہم آپس میں نہیں لڑیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ گزشتہ دو سو سال سے جو آپ نے اسلحہ کے کارخانے لگائے ہیں، جنگ و جدل کی ٹیکنالوجی کو وسعت دی ہے، انسانوں کو دنیا سے ملیامیٹ کرنے کے لیے ہتھیار بنائے ہیں، ان سب کا کیا ہوگا۔ عالمی بینکاروں نے تو یورپ کو تباہ کرنے کے بعد انھیں مقروض کرکے اپنی تجوریاں بھرنے کا مستقل بندوبست کرلیا تھا، لیکن اسلحہ کی صنعت بھی تو انھی کے دیے ہوئے سرمائے سے چلتی تھی۔ اگر اس کی کھپت کم ہوگئی تو یہ ان عالمی سودی بینکاروں کے لیے موت تھی۔ اسی لیے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ جنگ تو ہوگی، لوگ تو مارے جائیں گے، گولیاں چلیں گی، بم برسیں گے لیکن اب یہ تماشا کسی اور علاقے میں ہوگا۔ یورپ میں امن قائم رکھا جائے گا۔ بتایا جائے گا کہ لوگ کیسے سکون سے رہتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ان سود خور بینکاروں کے سرمائے سے قائم کارپوریٹ سسٹم اور اس میں موجود اسلحہ کے کارخانے ایک نئے میدانِ جنگ کی تلاش میں تھے جس کی وسعت عالمی سطح کی ہو۔ لیکن یہ میدانِ جنگ بہت پہلے سے تیار کرلیا گیا تھا۔ کمیونزم کے خلاف جنگ۔۔۔ یہ جنگ سوویت یونین اور اس کے زیراثر یورپی ممالک کے ساتھ تھی۔
پوری دنیا کا میڈیا کمیونزم کو ایک خوفناک خواب بناکر پیش کررہا تھا۔ ایسا خوفناک جس میں جائدادیں، کاروبار سب چھین لیا جائے گا۔ آدمی ڈبل روٹی اور انڈوں کے لیے ریاست کا محتاج ہوگا۔ سب کچھ اجتماعی ہوجائے گا، یہاں تک کہ بیویاں بھی اجتماعی ہوں گی۔ ہالی ووڈ نے جیمز بانڈ کی فلموں کی ایک سیریز کا آغاز کیا جو آئن فلیمنگ کے پروپیگنڈے پر مبنی تیرہ ناولوں پر بنائی گئیں۔
یہ سب فلمیں سوویت یونین اور اس کے کمیونزم کے خلاف سودخور جمہوری نظام کی جنگ پر مبنی تھیں۔ لیکن کمالِ ہوشیاری سے ان فلموں میں بھی اور حقیقی طور پر بھی جنگ کو یورپ سے دور رکھا گیا۔ جنگ کے میدان ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا بنادیے گئے۔ ویت نام، انگولا، چلی، برازیل، لاؤس، کمبوڈیا وغیرہ۔ کمیونزم کی جڑ تو سوویت روس تھا۔ ان تمام ممالک کو اسلحہ بیچتا تھا۔ انھیں فنی امداد دیتا تھا۔ لیکن کسی نے سوویت یونین یعنی لڑائی کی جڑ کو ختم کرنے کے لیے جنگ نہ کی، اس لیے کہ وہ یورپ کا حصہ تھا۔۔۔ بلکہ پوری دنیا میں محاذ کھول دیے گئے اور وہاں پر اسلحہ بیچ کر جو سرمایہ حاصل ہوا اس سے یورپ کے بازار رنگین ہونے لگے۔ امریکا کی معاشی خوشحالی کا باب تحریر ہونے لگا۔ جس سوویت یونین کے خلاف ان سود خور جمہوری معاشی نظام کے عَلم برداروں نے پوری دنیا میں انسانوں کی لاشیں گرائی تھیں، کروڑوں لوگ جنگ کا ایندھن بنے تھے، اس سوویت یونین نے آدھے جرمنی پر دوسری جنگ عظیم کے بعد معاہدے کے تحت قبضہ کررکھا تھا۔ برلن شہر آدھا آدھا تقسیم کردیا گیا اور بیچ میں ایک دیوارِ برلن بنادی گئی۔ اس پچاس سالہ جنگ جسے سرد جنگ کہتے ہیں، کے دوران کسی ایک یورپی ملک یا امریکا نے مشرقی جرمنی کو آزاد کروانے یا برلن کی دیوار گرانے کے لیے ایک فائر تک نہ کیا۔ اس لیے کہ یہ ’’مقدس‘‘ یورپ تھا اور یہاں اب انسان کا خون بہانا سوویت کمیونسٹوں اور سود خور جمہوری معاشی نظام کے عَلم برداروں کے نزدیک حرام تھا۔میدانِ جنگ کیوبا ہوسکتا ہے لیکن امریکا نہیں۔ میدانِ جنگ افغانستان ہوسکتا ہے لیکن روس نہیں۔ یورپ میں جو چہل پہل، خوشیاں، رنگارنگی اور خوبصورت زندگی نظر آتی ہے، وہ اصل میں اس لیے نہیں کہ یورپ کے لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے اور انھوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب ان بکھیڑوں سے دور رہیں گے۔ ان عوام کی کیا مجال اور کیا حیثیت! آج تک جنگ کے فیصلے کبھی عوام نے کیے ہیں؟
یہ فیصلے تو جمہوری طور پر منتخب حکمران بھی نہیں کرتے۔ اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی جمہوری جدوجہد پر اربوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کی صورت سرمایہ جن سود خور بینکاروں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں نے لگایا ہے وہ کان سے پکڑ کر جنگ کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ پورا یورپ عراق کے خلاف جنگ کو رکوانے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا تھا، کیا عراق جنگ رک گئی؟ ہرگز نہیں۔ ٹونی بلیئر معافی مانگے یا یہ کہتا پھرے کہ خفیہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
یورپ کو اب سکون اور اطمینان ایک حکمت عملی کے تحت بخشا گیا ہے۔ اسی طرح چین اور بھارت کی معیشت کو زبردست معاشی ترقی کے لیے تاکہ وہ جنگ کے میدانوں سے نفرت کریں،کھلا میدان دیا گیا۔ روس کو سودخور جمہوری معاشی نظام میں واپس لانے کے بعد اس کی بدحال معیشت کو اس حد تک سنبھلنے دیا گیا کہ وہ دوبارہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھنے لگے۔یہ سب کے سب اب معاشی طور پر مضبوط ہیں۔ جس سرمایہ دار کے پاس پیسہ ہوگا اگر اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہو جائے تو وہی گارڈ رکھ سکتا ہے، بندوقیں خرید سکتا ہے، گھر اور فیکٹری کے باہر سیکورٹی سسٹم لگا سکتا ہے۔ کسی بھی بڑی جنگ سے پہلے خوف بیچا جاتا ہے۔ ہر اس ملک کو خوفزدہ کیا جاتا ہے، ہر اس معاشرے کو ڈرایا جاتا ہے جس کے پاس جنگ کا خرچہ اٹھانے کی طاقت ہو۔
گزشتہ بیس سال سے پوری دنیا میں خوف بیچا جارہا ہے۔ یہ خوف سب سے زیادہ مغرب میں بیچا جارہا ہے اور اس کا آغاز11/9 کے بعد ہوا۔ وہ لوگ جو مغرب کی رنگارنگی میں اس قدر خوش و خرم تھے کہ انھوں نے اپنے اردگرد ایک پٹاخے کی آواز بھی نہیں سنی تھی اب چیخیں مارتے ہوئے گلیوں میں بھاگ رہے تھے۔ پوری دنیا عمارت سے چھلانگ لگاتے، ملبے میں دفن ہوتے اور آگ کے شعلوں میں جلتے انسانوں کو ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھ رہی تھی۔ خوف کا ردعمل خوفناک تھا۔
افغانستان، عراق اور اب شام۔۔۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں جہاں یورپ اور امریکا کے عوام کو خوفزدہ رکھا گیا وہاں اس قدر طویل جنگ نے ان تینوں ملکوں کے لوگوں کو جنگ کے خوف سے آزاد کردیا۔ ان کے نزدیک اب موت کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ بے گھر ہونا کوئی نیا تجربہ نہیں۔ خون سے اب انھیں وحشت نہیں ہوتی۔ اب ان کا ہدف بدل چکا ہے۔ ان کا ہدف مغرب ہے اور مغرب خوفزدہ ہے۔ اس قدر خوفزدہ کہ پیرس شہر میں فوج کا گشت دیکھ کر لوگ گھروں میں گھس جاتے ہیں۔
یورپ کو اس طرح خوف میں مبتلا کرنے کا مقصد کیا ہے! وہی مقصد جو بلی کو خوفزدہ کرکے لیا جاتا ہے۔۔۔ جنگ میں جھونکنا۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے آہستہ آہستہ خوف کے انجکشن لگائے گئے اور اب مغرب بالکل تیار ہے۔ اسے اپنی ٹیکنالوجی پر بھروسا ہے۔ اسے اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ اب وہ خود جنگ میں نہ کودا تو اس کے ہنستے بستے شہر دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہوجائیں گے۔
لیکن اس دفعہ جنگ فیصلہ کن ہونے والی ہے۔ گزشتہ ستّر سال سے یہودی اپنے عالیشان گھر اور بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر اسرائیل کے بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہورہے ہیں۔ یہ خود اس سودخور بینکاری معاشی نظام کے مالک ہیں۔ یہ اسرائیل امن کے لیے نہیں بلکہ جنگ کے لیے آئے ہیں۔ کوئی بلاوجہ یورپ اور امریکا کی پُرسکون زندگی نہیں چھوڑتا۔ اس وقت جب جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی ہی غالب آچکے ہوں، یہ جوق در جوق ارض مقدس میں جاکر آباد ہوتے رہے۔ انھوں نے وہاں کوئی صنعتی مرکز نہیں بنانا، صرف جنگ کرنا ہے جس کے بعد ان کے نزدیک ان کا مسیحا آکر عالمی حکومت قائم کرے گا۔ لیکن اس جنگ کا ایندھن یورپ بھی ہوگا اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان امت۔ اس کا آغاز سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہوگا، پھر وہ اس پر قتال کریں گے، پس سو میں ننانوے آدمی قتل کردیے جائیں گے۔‘‘(مسلم)
یہ سونے کا پہاڑ کیا ہے؟ جنگ عظیم دوم کے بعد جب برٹن ووڈ معاہدہ ہوا تو دنیا نے کاغذ کے نوٹ جاری کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن کہا کہ اس کے بدلے میں سونا حکومت کے پاس موجود ہونا چاہیے۔ 1971ء میں فرانس نے امریکا کے صدر نکسن سے اپنا سونا طلب کیا تو اس نے کہا کہ یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سونا نہیں بلکہ ملک کی حیثیت (Good Will) کو معیار بنایا گیا۔ اور اِس وقت دنیا میں یہ Good Will یعنی ڈالر کی قیمت کا اتار چڑھاؤ تیل سے وابستہ ہے اور کون نہیں جانتا کہ یہ تیل فرات کے آس پاس کس کس کو خون میں نہلا رہا ہے۔
عراقی حکومت، داعش، ایرانی ملیشیا، القاعدہ، امریکا اور یورپ۔۔۔ ہر کوئی اس سونے کے پہاڑ پر ٹوٹ پڑا ہے اور فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پس جو اُس وقت موجود ہو وہ اس سونے کے پہاڑ میں سے کچھ بھی نہ لے‘‘ (متفق علیہ)۔ جو اس سونے کے پہاڑ میں حصہ بٹا رہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے، اور جو اللہ کے بھروسے پر جنگ لڑتے ہیں ان کی فتح و نصرت کی بشارت۔

حصہ