یہ انتفادہ کیا ہے؟

358

ا13138بارات میں کام کرنے والے ہمارے کچھ صحافی بھائی اشاریے اور عشاریے میں فرق ملحوظ نہیں رکھتے۔ گزشتہ دنوں ایک اخبار میں اشاریے کی جگہ عشاریہ دیکھا، اور یہ کام جسارت میں بھی ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اشاریے کا تعلق اشارے سے ہے جس کو انگریزی میں انڈیکیٹر کہتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال اقتصادی اور تجارتی خبروں میں ہوتا ہے۔ جب کہ عشاریے کا تعلق عُشر سے ہے، یعنی دسواں حصہ۔ اخبارات میں ’’ایما‘‘ مسلسل مونث لکھا جارہا ہے اور ٹی وی چینلز پر بولا جارہا ہے۔ لغت دیکھنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ مثلاً گزشتہ منگل کے ایک اخبار کی سرخی ہے۔۔۔ را کی ایما پر بم دھماکوں کا اعتراف۔ ایما عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ الف بالکسر ہے یعنی ’’ای۔ ما‘‘۔ شاید قلق کے اس شعر سے بات واضح ہوجائے:
کچھ بھی ایما جو آپ کا پائیں
سیکڑوں روز نسبتیں آئیں
مومن کا شعر ہے:
گر کرے ایما ذرا وہ مستِ ناز
طائف میخانہ ہوں اہلِ حجاز
شعر تو اور بھی ہیں لیکن ایما کو مذکر بنانے کے لیے یہ کافی ہیں۔
ایک ٹی وی چینل پر مزے کا جملہ سنا ’’مزار قائد پر فاتحہ خوانی پڑھیں گے‘‘۔ ریٹائرڈ جسٹس صلاح الدین مرزا، سابق محتسب سندھ کبھی کبھی کرم فرماتے رہے ہیں۔ اب کئی دن سے کوئی خیر خبر ہے نہ خبرلی۔ بہت پہلے انہوں نے ٹی وی چینلز پر خبریں پڑھنے والوں، والیوں اور اناؤنسرز کو تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی، لیکن کچھ اثر نظر نہیں آیا۔ اس لیے ہم ایک بار پھر ان کے مشورے نہ صرف ٹی وی چینلز بلکہ عام لوگوں تک بھی پہنچا دیتے ہیں کہ تلفظ تو ہم سب کا بگڑا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جن الفاظ میں درمیانی حرف ساکن ہوتا ہے اسے بھی متحرک کردیا جاتا ہے۔ مثلاً ’’عزم، قتل، قبل، شکل، شغل، اخذ، لفظ، مثل۔ ان الفاظ کو درمیان کا لفظ متحرک کرکے پڑھا جارہا ہے۔ مثلاً QATL کے بجائے QATAL، QABAL وغیرہ۔ جسٹس صاحب نے شُغْل کے تلفظ میں شین پر پیش اور غین پر جزم دیا ہے یعنی SHUGHL۔ یہی صحیح ہے لیکن عام بول چال میں شین بالفتح یعنی شین پر زیر پڑھتے ہیں۔ جسٹس صاحب نے ایک خبرنامے کے حوالے سے لکھا کہ اس میں درج ذیل الفاظ غلط پڑھے گئے: نثر، نشر کو NASAR اور NASHAR یعنی درمیان کے لفظ پر زبر لگا کر۔ اسی طرح ’امور‘ کو اَمور پڑھا گیا۔ انہوں نے ایک مشورہ دیا ہے کہ ٹی وی چینلوں کے نیوز ریڈرز اور اناؤنسرز کو تلفظ درست کرنے کی ہدایت کے ساتھ ان کے لیے کسی جامعہ سے Crash Course کرایا جائے اور معقول استادوں سے اس کی تعلیم دلوائی جائے۔ تعلیم کی بات تو درست ہے لیکن ٹی وی چینلوں کے متعلقہ افراد کا تلفظ درست کرنے کی ہدایت کون کرے گا؟ پہلے ان کا تلفظ تو ٹھیک ہو۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر اس کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر اب شاید یہ فضول خرچ بچا لیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں کشمیر کے حوالے سے حکومتِ پاکستان نے اخبارات کو آدھے آدھے صفحے کے اشتہارات دیے تاکہ اس طرح مظلوم کشمیریوں کو معلوم ہوجائے کہ حکومتِ پاکستان ان کے لیے کتنا خرچ کررہی ہے۔ لیکن ان اشتہاروں میں کشمیریوں کی تحریک کو ’’انتفادہ‘‘ قرار دیا گیا۔ وفاقی وزیراطلاعات جناب پرویز رشید بتائیں کہ ’’انتفادہ‘‘ کا مطلب کیا ہے اور یہ کس زبان کا لفظ ہے؟ فلسطینیوں کی نقل میں کشمیریوں کی تحریک کو انتفادہ کشمیر تو قرار دے دیا مگر وزارتِ اطلاعات میں بیٹھے ہوئے افراد، جو تنخواہ بھی اچھے لیتے ہوں گے، کیا ان میں سے کوئی پڑھا لکھا نہیں ہے؟ اگر نہیں تو کسی اچھے کاپی رائٹر کی خدمات حاصل کرلی ہوتیں۔ یہ لفظ ’’انتقاضہ‘‘ ہے جو اخبارات میں چھپتا رہتا ہے۔ عرب ’ض‘ کا تلفظ ’دواد‘ کی طرح کرتے ہیں جیسے سورہ فاتحہ میں ضالین کا تلفظ دوالین بھی کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے DH سے ظاہر کیا جاتا ہے، اور پھر یہ ہمارے پڑھے لکھے افراد انتقاضہ کو انتفادہ کردیتے ہیں۔ اشتہارات بناتے ہوئے کسی سے پوچھ ہی لیا ہوتا کہ یہ کیا ہے۔
کمال ابدالی صاحب نے دبئی سے محبت نامہ بھیجا ہے، جو عبدالمتین منیری کے توسط سے ملا ہے۔ عبدالمتین www.bhatkallys.com چلا رہے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’اطہر ہاشمی صاحب انگریزی لفظ ’’لا‘‘ کے بعد ہمزہ لگائے جانے کے شاکی ہیں۔ مگر جیسا کہ خودگزرگاہِ خیال میں کئی دفعہ ذکر ہوچکا ہے، نو عربیّت کی تحریک کے تحت اب اردو میں الف پر ختم ہونے والے اکثر الفاظ کے بعد ہمزہ لگایا جانے لگا ہے۔ غالباً ’’لاء‘‘ پر اعتراض یہ ہے کہ وہ انگریزی کا لفظ ہے عربی کا نہیں، اس لیے اس میں ہمزہ صحیح نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو میں الف پر ختم ہونے والے عربی کے الفاظ میں بھی چند سال پہلے تک ہمزہ بالعموم نہیں لگایا جاتا تھا۔ میں ذیل میں گزرگاہ پر ہی پیش کیے ہوئے اپنے ایک پرانے مراسلے سے مواد نقل کررہا ہوں:
چند سال پہلے تک دعا، فضا، شفا، ضیا، استثنا، ابتدا، انتہا، انشا، شعرا، حکما، وغیرہ بغیر ہمزہ کے لکھے جاتے تھے، اور ہمزہ صرف خاص ترکیبوں میں مثلاً اضافت کے مضاف میں بڑھایا جاتا تھا، جیسے عطاء الحق، حکمائے یونان، انشائے سرور (تصنیف مرزا رجب علی بیگ سرور)، وغیرہ۔ مگر ’’انشا پرداز‘‘ اور ’’انشا نگار‘‘ بغیر ہمزہ کے لکھے جاتے تھے کیونکہ یہ اضافت کی ترکیبیں نہیں ہیں۔ عربی الفاظ کا غیر ترکیبی ہمزہ اردو میں تلفظ میں نہیں آتا، اور اس کو لکھنے سے عبارت کی طوالت اور گرانی کے سوا کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔ دیوان کے دیوان چھان لیجیے ان میں الف پر ختم ہونے والے عربی، فارسی، اور ہندی الفاظ قافیے میں استعمال ہوئے ہیں اور عربی الفاظ ہمزہ کے بغیر آئے ہیں۔ انشاء اللہ خان انشا (نہ کہ انشاء) فرماتے ہیں:
غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکہ انشا
کہ ہوا نے خود بخود آ ورقِ کتاب الٹا
اقبال کی نظم ’’شمع و پروانہ‘‘ کا شعر ہے:
غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتۂ دل کا نقشِ تمنا ہرا نہ ہو
اقبال ہی کی ’’عقل و دل‘‘ میں دو مختلف شعروں کے آخری مصرعے یہ ہیں:
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں
اس کے علاوہ رہنما، رسا، دیکھتا، وغیرہ قافیے میں استعمال ہوئے ہیں۔
اگر ہمزہ بڑھانے کی رسم صرف عربی الاصل الفاظ تک محدود رہتی تو ہم سمجھتے کہ اس رسم کی بے ضرورت مخالفت کی وجہ ہمارا اپنا جہل اور تعصب ہے۔ مگر اب فارسی، ہندی اور انگریزی اصل تک کے الفاظ ہمزہ کے لاحقے سے مزین کیے جارہے ہیں۔ مثلاً فارسی الاصل لفظ ’’سراپا‘‘ اردو اخباروں میں (ہمزہ کے اضافے کے ساتھ) ’’سراپاء احتجاج‘‘ مظاہرین کی خبریں شائع کرنے کے لیے بہت مقبول ہوگیا ہے۔ یا ہندی الاصل لفظ ’’سہرا‘‘ کو لیجیے۔‘‘
ہمزہ کے متعدی مرض سے انگریزی الفاظ بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اطہر ہاشمی صاحب نے ’’لا‘‘ کی نشان دہی کی ہے۔ مگر ایسی مثالیں عام ہیں۔ مجھے ایک اردو خبرنامے میں کسی خاتون کا نام ’’اینجلاء‘‘ لکھا ہوا نظر آیا ہے۔ غضب یہ ہے کہ علم سکھانے والی کتاب اردو وکی پیڈیا میں جون ایلیا پر جو مضمون ہے اس میں ان کا نام ’’جون ایلیاء‘‘ بتایا گیا ہے‘‘۔

حصہ