ایک شخص را ستے سے گزر رہا تھا کہ اُس کو ایک چراغ نظر آیا اُس نے چراغ اُٹھا لیا اور سو چنے لگا کہ کہیں اس چراغ میں بھی جن نہ ہو پھر خیال آیا کہ جدید دور میں چراغوں میں جن کہاں اسی سوچ میں وہ چراغ کو رگڑنے لگتا ہے کہ اچانک چراغ میں سے جن نکل آتا ہے اور کہتا ہے ’’تم نے مجھے آزاد کیا اس لیے اپنی کو ئی تین خواہشیں بتاؤ۔‘‘
وہ شخص گھبرا کر جن سے پوچھتا ہے ’’کیا واقعی تم جن ہو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں تم اپنی پہلی خواہش بتاؤ۔۔۔‘‘
وہ شخص کہتا ہے ’’اچھا تو تم پاکستان سے امریکا تک سڑک بنا دو‘‘ جن کچھ دیر کے لیے غائب ہو جاتا ہے اور پھر آکر کہتا ہے ’’یہ ناممکن ہے اپنی دوسری خواہش بتاؤ۔‘‘
وہ شخص کہتا ہے ’’اچھا تو تم میری بیوی کو میرا تابع کردو۔‘‘ جن پھر غائب ہو جاتا ہے اور آکر کہتا ہے ’’اپنی تیسری خواہش بتاؤ۔‘‘
وہ شخص کہتا ہے ’’اچھا تو تم میڈیا کو اسلام کی خدمت پر مامور کردو۔‘‘ جن ایک بار پھر غائب ہو جاتا ہے اور آکر کہتا ہے ’’میرے بھائی یہ بتاؤ سڑک ایک رویا بنانی ہے یا دو رویا۔ ‘‘
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے۔۔۔‘‘ ایسی ہی ایک خواہش امام کعبہ نے بھی کی ہے۔ آپ نے اس سال اپنے خطبۂ حج میں جہاں کئی باتیں امت مسلمہ کی مشکلات اور اُن کے حل کے حوالے سے کی ہیں وہیں میڈیا کی طاقت کا اندازہ کرکے مسلم ممالک کے میڈیا اور صحافیوں سے اپنے دل کی بات کہی کہ وہ اس پُر خطر دور میں‘ جہاں اسلام کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے‘ وہ تمام ممالک اور اس سے وابستہ لوگ مغرب کے پروپیگنڈے کے خلاف آواز بلند کر تے ہوئے اسلام کا دفاع کریں ۔
جب دنیا میں نت نئی ٹیکنالوجیز متعارف ہو رہی تھیں تو اُس وقت اسلام کے کچھ ٹھیکیداروں نے ان ایجادات کو اسلام کے مخالف سمجھا اور ان کے استعمال پر پابندی کے فتویٰ تک جاری کیے گئے۔ جب لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا تو مولانا مودودیؒ نے اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کے استعمال کو جائز قرار دیا لیکن علماء نے مولانا کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیے۔ اسی طرح کبھی ٹی وی حرام کہا گیا تو کبھی تو ڈش انٹینا کو اور Antenna Enemy of Islam جیسے نعرے لگائے گئے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کو اندازہ ہوا کہ یہ ایجادات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس قدر مفید ثابت ہوئی ہیں اور وقت نے ثابت کیا کہ مولا نا مودودیؒ کی نگاہیں اُس وقت جس چیز کو دیکھ رہی تھیں وہ اب امام کعبہ نے دیکھی ہے۔ لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہے اور یہ تمام ایجادات مغرب کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بعد اسلام کے خلاف استعمال ہو نے لگی ہیں یہی وجہ ہے کہ امام کعبہ کو میڈیا کے ذریعے اسلام کے دفاع کا خیال آیا‘ لیکن سوال یہ کہ کیا اب یہ دفاع ممکن ہے؟
رواں سال پوری دنیا کے مسلمانوں نے حج کی ادائیگی کی اور یقیناً ان میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے بھی لوگ ہوں گے‘ معلوم نہیں کتنے لوگوں نے خطبۂ حج کو سنا اور اس کے مطابق عمل کر نے کا عہد کیا ہوگا۔ ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ اسلامی دنیا کے اخبارات خطبۂ حج کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے شائع نہیں کرتے کہ اس سے عام مسلمانوں کو معلوم ہو کہ خطبہ حج میں کیا کہا گیا ہے؟ امام کعبہ نے مسلمانوں کے اجتماع سے کیا کہا؟ پورا دن مظاہرے کی کوریج کر نے والا میڈیا حج کی کوریج برائے نام کرتا ہے اور خطبہ حج ترجمہ و تشریح کے ساتھ پیش نہیں کرتا جو کہ حج کا اہم ترین حصہ ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس خطبے سے ناواقف ہوتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو عربی نہیں آتی۔ میڈیا اب اتنا تیز ہو چکا ہے کہ سیکنڈوں میں پوری تقریر ہر ملک کی زبان میں ترجمہ کے ساتھ نشر کر سکتا ہے مگر کیا کریں دین کے معاملے میں امت مسلمہ سست روی کا شکار ہے۔ میڈیا سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ دین کو پھیلا نے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
سب بہ خو بی واقف ہیں کہ الیکڑانک میڈیا جو چوبیس گھنٹے اپنی نشریات جاری رکھتا ہے‘ وہ اسلام کی ترویج و تبلیغ اور اس کے خلاف کیے جا نے والے پروپیگنڈے کے سدباب کے لیے کتنا وقت دیتا ہے اور اسلام کا کتنا دفا ع کرتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ میڈیا اسلام کا دفاع کے بجائے اسلام کے خلاف خبر کو بلا تحقیق شائع اور نشر کر نے میں جلد بازی کرتا ہے اور خبر کو سب سے پہلے بریک کر نے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے‘ چاہے غلط خبر ہی کیوں نہ بریک ہو جائے کیو نکہ بعد میں کون پو چھتا ہے۔ کسی بھی بم دھماکے ’’خودکش‘‘ قرار دینے والا بھی یہی میڈیا ہو تا ہے اور فوراً اس دھماکے کا تعلق جہادی گروپ سے جو ڑ دیا جاتا ہے اور خبر کو اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ اُس مبینہ خودکش بمبار کا پورا شجرۂ نسب تک بیان کر دیا جاتا ہے کہ وہ کب افغانستان گیا‘ جہاد میں کتنا عرصہ گزارا‘ کہاں کہاں سے ٹریننگ لی‘ کس مدرسے سے تعلیم حاصل کی وغیرہ وغیرہ۔
ایک عام پرامن شہری‘ جو پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا ہے‘ کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔ اُس کا پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ سب بر آمد کر لیے جاتے ہیں۔ اس طرح میڈیا عوام کا ما ئنڈ سیٹ کر تا ہے اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس فرد کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ایک پُرامن شہری تھا جو خود دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا ہے۔ مگر بعد کی خبر کو ئی بریک نہیں کرتا میڈیا تو ہر دھماکے کی ذمے داری اسلام پسندوں پر ڈال دیتا ہے بس خبر آنی چاہیے کہ ملک میں دہشت گر دی کے حوالے سے کچھ ہو گیا ہے‘ فلاں شہر میں بم دھماکا‘ طالبان کے ایک گروپ نے ذمے داری قبول کر لی۔ مغربی میڈیا کے طرز پر صحافت کر نے والے بڑی سے بڑی سرخی لگا کر خبر بنائیں گے۔ اس کے برعکس جب لسانی تنظیم کا ٹارگٹ کلر پکڑا جاتا ہے اور وہ اعترافِ جرم بھی کر تا ہے کہ میں نے بم دھماکا کیا تھا اور بھارت سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہے تو اسی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور وہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے کیو نکہ جو کام میڈیا کو کرنا ہوتا ہے وہ زور و شور کے ساتھ کرتا ہے۔ جھو ٹی خبر نشر کر نے اور شائع کر نے پر نہ ہی معا فی مانگتا ہے اور نہ ہی تر دیدکر تا ہے کیو نکہ ان کا کام ہی اپنے ایجنڈے کی تکمیل ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گر تی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
میڈیا کا پسندیدہ کام لبرل سوچ کے حامل افراد کے جلسے کو بڑا بنا کر دکھانا اور اسلام پسندوں کے بڑے جلسے کی خبر گول کر جانا ہے۔ یہ اسلام دشمن مغربی میڈیا کا کمال ہے کہ وہ اسلام پسندوں کو بد نام کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے جا نے نہیں دیتا اور امن و سکون کے بجائے معاشرے میں بگاڑ اور انتشار پھیلاتا ہے۔
مسلمانوں کے انتشار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی میڈیا نے اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس وقت جہاں بھی جنگ کا ماحول ہے وہ اسلامی مما لک ہیں‘ مغربی میڈیا اس وقت اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف زہر اُگل رہا ہے اور جھوٹ کا یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آرہا‘ اسلامی ممالک میں حملے کے لیے کیمیائی ہتھیار کی تیاری کا جھوٹ گھڑا جاتا ہے۔ تمام مغربی ممالک اسلام کے خلاف متحد ہیں‘ اس مہم میں اسلامی ممالک کا میڈیا بھی اپنے آقاؤں کا بھرپور ساتھ دیتا نظر آتا ہے کیو نکہ میڈیا اسلام دشمنوں کی گائیڈ لائن اور فنڈنگ پر چل رہا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقداس میں گستاخی کرنے اور خاکے شا ئع کر نے والوں کے خلاف امت مسلمہ اُٹھ کھڑی ہو ئی تھی اور پوری دنیا میں مسلمان اپنے جذبات اور غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے تو اسی میڈیا نے مذہبی جماعتوں کے بڑے بڑے مظاہروں اور جلسوں کو غیر ملکی میڈیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوریج نہیں دی بلکہ اس برعکس وہ جماعتیں جن کے رہنماؤں نے نے رسول صلی اللہ وسلم کی شان میں ہو نے والی گستاخی پر مظاہرہ تو کجا مذمت کا ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہ نکالا‘ اُن کو میڈیا پر بلا کر اس مسئلے پر بحث کی گئی اور ان کے چھوٹے چھوٹے پروگرامات کو بڑی کوریج دی گئی کیو نکہ میڈیا مالکان کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ اسلام پسندوں کو نقصان پہنچایا جائے اور انہیں میڈیا سے دور رکھا جائے چا ہیے وہ نبیؐ کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس فرانس میں ایک پادری پر چرچ میں چاقو سے حملہ کیا جاتا ہے اور وہ پادری اس حملے میں زخمی ہو جاتا ہے جسے ہمارا میڈیا اس خبر کو ریٹنگ سمجھ کر اس قدر دکھاتا ہے کہ دو دن تک یہ خبر میڈیا کی زینت بنی رہتی ہے اور اسلام کو بدنام کر نے کی مہم چلائی جا تی ہے جبکہ فلسطین سمیت جنگ زدہ عرب ممالک میں اسلام دشمن اتحادیوں کے مظالم پر سب خاموش ہیں کیو نکہ مسلمانوں پر ہو نے والا ظلم کوئی خبر نہیں جبکہ کسی بھی مسئلے پر چار لوگوں کے جمع ہو نے پر میڈیا بریکنگ نیوز کے طور پرفوراً نشر کرتا ہے لیکن عاشقِ رسول ممتاز قادری کے لا کھوں کے جنازے کو دکھانا گوارا نہیں کرتا کیو نکہ اسلام کو فروغ دینا میڈیا کا ایجنڈا نہیں ہے۔ جو میڈیا اس وقت مسلم ممالک میں کام کر رہا ہے اس کے مالکان کون ہیں؟ کس نے کروڑوں‘ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہو ئی ہے‘ یقیناً اس سرمایہ کے پیچھے اسلام دشمن ہیں‘ پاکستان میں چلنے والے ایک ٹی وی چینل کے مالک بھارتی سیاست دان ایل کے ایڈوانی ہیں۔ اسی طرح نہ جانے نہیں کس چینل کے پیچھے کون ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگرجنھوں نے اپنا سرمایہ لگایا ہے اُن کا مقصد میڈیا کے ذریعے اسلام کو شکست دینے ہے اور وہ اپنے اس ہدف میں کامیاب بھی ہیں۔
ایک مو قع پر بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’اب ہمیں پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں کیو نکہ ہم نے اس ملک اور قوم کو نظریاتی اور ثقا فتی طور پر فتح کر لیا ہے۔‘‘ ان لو گوں نے جو ہدف طے کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسے حاصل کر نے میں سو فیصد کامیاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں بھارت اور مغرب کے غیر اخلاقی چینلوں کی بھرمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کارٹون فلموں سے لے کر ڈراموں اور فلموں تک‘ پاکستانی قوم سے لے کر عرب قوم کے بچوں اور بڑوں تک‘ سب ہندو اور مغربی ثقافت کی دلدادہ ہیں۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ! جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
میڈیا کی یہ جنگ جہاں اسلام کے خلاف وہیں مسلمانوں کے ذہنوں کو مسخر کرنے کی بھی جنگ ہے۔ میڈیا مسلمانوں کے ذہن، اخلاق، ثقافت اور ان کے پورے نظام زندگی کو تبدیل کر رہا ہے۔ یقیناً اس کے تدارک کی ضرورت ہے لیکن جن لوگوں نے اسلام مخالف میڈیا اور تمام ترمخالف محاذوں پر لڑ کر اور ان مخالف قوتوں کو شکست دے کر اپنے لوگوں کے دل جیتے تھے اور اسلام کا دفاع کیا تھا‘ ان کے خلاف لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے میڈیا کے ذریعے اور ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط کر کے ایک اسلامی جمہوری طریقے سے منتخب مصر کی محمد مرسی کی حکومت کو ختم کیا گیا صرف اس لیے کے اخوان نے نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ حقیقی اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سا منے پیش کیا اس حقیقی اسلام کا چہرہ بادشاہوں کو اپنے لیے خطرہ لگا اور جس میڈیا کو امامِ کعبہ اسلام کا دفاع کر نے کا مشورہ دے رہے ہیں‘ اُسی میڈیا کے ذریعے اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ دبا کر اور ظلم کر کے کسی کو تادیر اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔ جب روس نے مسلم ریاستوں کو اپنے زیر تسلط لیا تھا تو مسلمانوں کی تمام نشانیوں اور رسم و رواج کو ختم کرنے والے قوانین بنائے تھے اس حوالے سے ایک واقعہ مشہور ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جب روس کے دورے پر گئے تو انہوں جہاز سے اُترنے سے پہلے جناح کیپ پہنی ہوئی تھی جس روس کے پروٹوکول افسر نے اتارنے کے لیے کہا کیو نکہ روس مسلمانوں کی کو ئی نشانی اپنے میڈیا پر دکھانا نہیں چا ہتا تھا جسے دیکھ کر مسلمانوں میں اسلام کی رمق دوبارہ پیدا ہو۔ روس دنیا کا اکلوتا سپر طاقت تھا لیکن اس کا مقابلہ میڈیا کے ذریعے نہیں جذبۂ ایمانی اور جہاد کے ذریعے کیا گیا۔ شاہ فیصل مرحوم کا نام دنیا آج بھی عزت و احترام سے لیتی ہے کیو نکہ انھوں نے اسلام کے دفاع کے لئے عملی اقدامات کیے تھے اسی طرح آج بھی مسلمان اپنے اندر جذبہ ایمانی پیدا کریں اور مسلم حکمران اسلام کی حکمرانی کے لیے ایک پلیٹ پر متحد ہو کر کام کریں تو ہر طرح کے مصائب و ابتلا کا مقا بلہ کیا جا سکتا ہے‘ مسلم ممالک کے حکمران اپنا کردار، عمل اور قبلہ درست کرلیں تو میڈیا کا قبلہ بھی درست ہو جائے گا پھر کوئی کتنی ہی سازش اور پروپیگنڈا کر لے اسلام کی آفاقی دعوت کا کو ئی راستہ نہیں روک سکے گا جس طرح مصر کے اخوان نے اپنے کردار سے اسلام مخالف قوتوں کو ہر محاذ پر شکست دے کر اسلام کا دفاع کیا تھا دنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت اسی کردار کی ضرورت ہے اور اسی کردار و اخلاق کے ذریعے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل اسلام کا ہے اور یہی کردار جب اللہ کے حضور جائے گا تو میدان عرفات میں امام کعبہ کی اسلام کے دفاع کے لیے کی گئی دعا بھی قبول ہو جائے گی۔
دل سے جو بات نکلتی ہے‘ اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے