ڈاکٹر عبید الرحمن محسن

629
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، بانئ جماعت اسلامی کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ اردو تفسیری ادب میں بلاشبہ ایک نمایاں اور ممتاز مقام کی حامل تفسیر ہے۔ اردو خوان طبقے کے بالخصوص تحریکی حلقوں میں مقبول و متداول ہے۔ علمی حلقوں میں ایک طرف اس تفسیر کے مداحین ہیں تو دوسری طرف ناقدین۔
آئندہ سطور میں انسانی بساط کی حد تک راقم کی کوشش ہوگی کہ اندھی عقیدت اور بے جا نفرت سے بالاتر ہوکر خالص تفسیر قرآن کے قواعد و ضوابط اور جمہور مفسرین کے مسلمہ اصولِ تفسیر کی روشنی میں اس کے منہج کا جائزہ پیش کیا جائے۔
تاریخِ تصنیف
مولانا مودودیؒ نے تفسیر لکھنے کا آغاز محرم 1361ھ مطابق فروری 1942ء میں کیا تھا۔ ان کے تفسیری شذرات ماہنامہ ترجمان القرآن میں قسط وار شائع ہوتے رہے۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سورہ یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہوگئی۔ اس کے بعد مسلسل ایسے حالات اور موانع درپیش رہے کہ مولانا کو مزید لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ تفہیم کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’اس کتاب کو میں نے محرم 1361ھ مطابق فروری 1942ء میں شروع کیا تھا۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک اس کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ سورۂ یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہوگئی۔ اس کے بعد پے درپے ایسے اسباب پیش آتے چلے گئے کہ مجھے نہ تو آگے لکھنے کا موقع مل سکا اور نہ اتنی فرصت ہی میسر آسکی کہ جتنا کام ہوچکا تھا، اس کو نظرثانی کرکے اس قابل بناسکتا کہ کتابی صورت میں شائع ہوسکے۔‘‘ (تفہیم القرآن، دیباچہ:12/1)
مختصر انقطاع کے بعد جب اکتوبر 1948ء میں مولانا کو گرفتار کرکے جیل روانہ کردیا گیا، تو مولانا نے نیوسینٹرل جیل ملتان میں رہتے ہوئے گزشتہ لکھے ہوئے شذرات پر نظرثانی کرکے اسے کتابی صورت میں اشاعت کے قابل بنادیا۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’اب اسے حسنِ اتفاق کہیے یا سوئے اتفاق کہ اکتوبر 1948ء میں یکایک مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور یہاں مجھ کو وہ فرصت بہم پہنچ گئی، جو اس کتاب کو پریس میں جانے کے قابل بنانے کے لیے درکار تھی‘‘۔
یہ مبارک سلسلۂ تفسیر تیس سال اور چار ماہ کے بعد 7 جون 1972ء کو تکمیل پذیر ہوا۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ تفسیر کے خاتمہ میں لکھتے ہیں:
’’میں صمیمِ قلب سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تفہیم القرآن لکھنے کا جو کٹھن کام میں نے محرم 1361ھ (فروری 1942ء) میں شروع کیا تھا، وہ 30 سال چار مہینے کے بعد آج (نیچے 7 جون 1972ء تاریخ درج ہے) پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔‘‘ (تفہیم القرآن: 575/6)
یوں گویا تفسیر تفہیم القرآن مولانا مودودیؒ کی تیس سال اور چار ماہ پر محیط محنتِ شاقہ اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے، جو کہ چھے ضخیم جلدوں میں مطبوع و متداول ہے اور عوام و خواص اس سے مستفید ہورہے ہیں۔
مقصدِ تصنیف
مولانا مودودیؒ نے اپنی تفسیر کو درحقیقت اوسط درجے کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے تحریر کیا ہے، اسی طبقے کی ضروریات اور ذہنی سطح کے پیش نظر بعض اہم تفسیری مباحث سے انھوں نے قصداً صرفِ نظر کیا ہے، کیونکہ وہ ان حضرات کے لیے غیرضروری ہیں۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ خود وضاحت فرماتے ہیں:
’’میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انہی کی ضروریات کو میں نے پیش نظر رکھا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے ان تفسیری مباحث کو میں نے سرے سے ہاتھ ہی نہیں لگایا جو علم تفسیر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، مگر اس طبقے کے لیے غیر ضروری ہیں۔‘‘ (مقدمہ تفہیم القرآن: 6/1)
مولانا مودودیؒ نے اس طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے بھی بالخصوص کوشش کی ہے کہ ایک عام آدمی قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے اس کا مفہوم اور مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جائے، اس کے ذہن میں اٹھنے والے اشکالات کا اسے جواب فراہم ہوتا جائے، اور قاری کے ذہن پر مطالعہ تفسیر سے وہی اثر مرتب ہو جو قرآن ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘ (مقدمہ تفہیم القرآن :6/1)
تفسیر میں ارتقاء
ابتداً مؤلف کے پیش نظر یہی تھا کہ زیادہ تفصیل سے کام نہ لیا جائے، اور ایجاز و اختصار کے ساتھ قرآن مجید کی تفہیم و تعبیر اردو خوان طبقے کے سامنے پیش کردی جائے۔ آہستہ آہستہ مصنف کو تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی گئی، اور آخری جلدیں مفصل انداز میں ترتیب پذیر ہوئیں۔ تفہیم القرآن کا قاری واضح طور پر یہ تفسیری ارتقاء محسوس کرتا ہے۔ دوسری جلد پہلی کی نسبت قدرے مفصل، تیسری اس سے زیادہ، اور آخری تین جلدیں بالخصوص زیادہ وسیع و عمیق ہیں۔ مولانا مودودیؒ خود اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ابتدا میں میرے پیش نظر زیادہ تفصیل سے کام لینا نہ تھا، اس لیے پہلی جلد کے حواشی مختصر رہے، بعد میں جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا، مجھے حواشی میں زیادہ تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی گئی، یہاں تک کہ بعد کی جلدوں کو دیکھنے والے اب پہلی جلد کو تشنہ محسوس کرنے لگے ہیں۔‘‘ (خاتمہ، تفہیم القرآن: 575/6)
تفہیم القرآن کی خصوصیات و امتیازات
مؤلف نے اپنی تفسیر میں تاریخی، فقہی، کلامی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور جدید تمدنی مسائل پر دورانِ تفسیر جامع تحقیقات پیش کی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تفسیر ایک خاص اسلوب کی حامل تفسیر ہے۔ اس کی مکمل خصوصیات و امتیازات کا تذکرہ پیش نظر نہیں ہے۔ چند اہم خصوصیات و امتیازات درج ذیل ہیں:
1۔ زبان و بیان: تفہیم القرآن کی اوّلین خصوصیت اس کا اسلوبِ بیان ہے۔ مصنف کی تحریر انتہائی شستہ و شگفتہ، پُروقار و سنجیدہ اور مؤثر و دلنشین ہے۔ مصنف کو زبان کی تائید کا پوری طرح احساس ہے، اور اس احساس کے پیش نظر مصنف نے ترجمہ و تفسیر میں ادب کی معراج کو چھوا ہے۔ لفظی ترجمہ کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے، مصنف رقمطراز ہیں:
’’قرآن کی تائید میں اس کی پاکیزہ تعلیم اوراس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔‘‘ (مقدمہ تفہیم القرآن: 7/1)
بعینہٖ یہی تبصرہ خود تفہیم القرآن پر بھی صادق آتا ہے کہ اس تفسیر کی مقبولیت میں اس کے بیان کردہ فکر و فلسفہ، معانی و مفاہیم کا جس قدر حصہ ہے، خود تفہیم کی سلاست و روانی اور فصاحت و بلاغت کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔
2۔ سورتوں کا دیباچہ: مصنف نے ہر سورہ کے آغاز میں بالالتزام سورہ کا نام، زمانۂ نزول، موضوع اور مباحث پر مشتمل جامع دیباچہ تحریر کیا ہے۔
فقہی مسائل میں توسع و عدم تقلید
لیکن مؤلف تفہیم مسلکاً حنفی ہونے کے باوجود کھلے دل سے دیگر ائمہ کی آراء پیش کرتے ہیں اور پھر اپنے فہم کے مطابق دلائل کی بنیاد پر کسی مؤقف کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا گوہر رحمان لکھتے ہیں:
’’اکثر مسائل میں تو امام ابوحنیفہؒ کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے لیکن ہر معاملے اور ہر مسئلے میں کسی مخصوص فقیہ اور امام کی رائے کا التزام نہیں کیا گیا۔‘‘ (علوم القرآن: 640/2)
علی سبیل المثال جس شخص نے مطلقہ عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کی غرض سے نکاح کیا تو اس کے نکاح کے بارے میں فقہاء کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ لیکن فقہائے احناف کا مفتی بہ قول یہی ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ)
مؤلف تفہیم نے اس مسئلے میں فقہائے احناف کے مروجہ مسلک سے اختلاف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرادے اور پہلے سے یہ طے کرلے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا، بلکہ محض ایک بدکاری ہو گی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی۔ حضرت علی، ابن مسعود، ابوہریرہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن: 177-176/1، اس پر مفصل نوٹ سورہ طلاق میں ہے، تفہیم القرآن: 563/5)
خلع کی عدت کے بارے میں بھی صاحبِ تفہیم کا رجحان دلیل کی بنیاد پر جمہور کے خلاف ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے۔ مگر ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں متعدد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اس کے مطابق حضرت عثمانؓ نے ایک مقدمے کا فیصلہ کیا۔‘‘ (ابن کثیر، جلد اول، صفحہ 276۔ تفہیم القرآن: 176/1)
تفسیر تفہیم القرآن میں احکام و مسائل کا صرف سرسری تذکرہ ہی نہیں، بلکہ ان کی مختلف جہات پر محیط متعدد مقامات پر ایک مفصل اور خوبصورت تحقیق ملتی ہے۔ احکام القرآن کی تفسیر کرتے ہوئے موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مختلف صحابہ و تابعین کے اقوال پیش کرتے ہیں، ائمہ دین کے رجحانات بیان کرتے ہیں، اختلافات کی وضاحت کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر تفہیم القرآن میں آیات الاحکام کی تفسیر و تشریح نسبتاً طویل اور مفصل محسوس ہوتی ہے۔ مثالوں کے لیے سورۂ اعراف میں سجدۂ تلاوت پر تحقیق، سورۂ تحریم میں قسموں کے کفارہ سے متعلق تفصیلات، آیاتِ نکاح و طلاق کی تفسیرات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
آیات الاحکام کے جدید قانونی و تہذیبی پہلو پر تحقیق
صاحبِ تفہیم آیات الاحکام کے فقہی مباحث پر تحقیق کے ساتھ ساتھ موضوعِ زیربحث پر قانونی اور جدید تہذیبی حوالوں سے انتہائی جامع شذرات پیش کرتے ہیں۔ زیرتحقیق مسئلے کی حکمت اور مصلحت اور احسن انداز میں شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور محاسن پر قلم اٹھاتے ہیں۔ مسئلہ طلاق پر فرد اور سماج کے لیے اس میں کارفرما حکم و مصالح، زنا کاری کی حرمت اور اس میں پوشیدہ اضرار و مفاسد، سود کی لعنت اور اس کی قباحتیں، لونڈیوں کے مسئلے پر اٹھنے والے قانونی احکام و مسائل میں ان کے تفسیری منہاج کی چند ایک خوبصورت مثالیں ہیں۔
اسی طرح سورۂ نور کی تفسیر میں زنا سے متعلقہ مباحث پر تفصیلات تقریباً اٹھائیس صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں، جن میں زنا کی تعریف، اس کی حرمت پر ہر زمانے میں اتفاقِ عام، اس کے اختلافی و اجتماعی نقصانات، اس سے متعلق اسلامی و غیر اسلامی قانون کا تقابل، اس کے انسداد کے لیے اسلام کی اختیار کردہ اصلاحی تدابیر، حدِّ رجم اور اس کے نفاذ کا طریقہ اور اس طرح کے دیگر متعلقہ مسائل پر انتہائی جامع اور مفصل تحقیقات موجود ہیں۔
(تفہیم القرآن: 342-319/3)
(بقیہ صفحہ 12پر)

Back to Conversion Tool

حصہ