( مہمہ ایجنسی کا اندوہناک واقعہ (عالمگیر آفریدی

207

اور مردان کی کچہریوں میں مبینہ خودکش بم دھماکے ہونے سے پہلے تک رواں سال کو پچھلے سالوں کی نسبت قدرے پُرامن قرار دیا جارہا تھا اور حکمرانوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈر امن کی بحالی کا کریڈٹ لینے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے، لیکن جب سے دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اور پچھلے چند ہفتوں کے دوران خیبر پختون خوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے بعض واقعات کے علاوہ پولیس گاڑیوں پر حملے شروع ہوئے ہیں تب سے پورے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے بے چینی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آرہی ہے۔ گزشتہ جمعۃ المبارک کو جب سے مہمند ایجنسی کی تحصیل امبار کے گاؤں پائی خان میں واقع ایک جامع مسجد کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا ہے تب سے عوامی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے کہ آیا ملک کی عام آبادی دہشت گردوں کے حملوں سے کتنی محفوظ ہے، اور یہ کہ آخر اس بڑھتی ہوئی بدامنی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ لوگ کب تک اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے اور اس بدقسمت خطے کے معصوم بچوں کو کب تک یوں بے دردی سے یتیم بنایا جاتا رہے گا اور ہماری ماؤں اور بہنوں کے سہاگوں کو کب تک یوں اجاڑا جاتا رہے گا۔ ضعیف اور بوڑھے ماں باپ اپنی ٹیڑھی اور خمیدہ پیٹھوں پر اپنے نوجوان جگر گوشوں کے لاشے کب تک اٹھاتے رہیں گے! مہمند ایجنسی میں ہونے والے دہشت گردی کے تازہ واقعے میں 36 بے گناہ نمازیوں کی شہادت اور دو درجن سے زائد کے زخمی ہونے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سانحے نے پلک جھپکتے میں درجنوں گھروں کو اجاڑ دیا ہے جن میں وہ بدقسمت چارگھرانے بھی شامل ہیں جن کے تمام مرد اس حادثے کی نذر ہوچکے ہیں اور اب ان گھروں میں کمانے والا کوئی بالغ فرد موجود نہیں ہے۔ رواں سال کے دوران کسی عبادت خانے پر کیا جانے والا دہشت گردی کا یہ پہلا حملہ ہے جس میں عام بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ جماعت الاحرار نامی کالعدم شدت پسند تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک برقی بیان میں مہمند ایجنسی خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت الاحرار کے ملک بھر میں جاری الرعد آپریشن کے تحت سیکورٹی فورسز، حکومتی حکام اور امن کمیٹیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ آنے والے دنوں میں اس سلسلے کو مزید وسعت دی جائے گی۔ احسان اللہ احسان کی جانب سے جاری کیے گئے مذکورہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مہمند خودکش حملہ جماعت الاحرار کے ایک فدائی نے کیا ہے جس کا نشانہ پائی خان نامی اس گاؤں کی امن کمیٹی کے بعض ارکان تھے جنہوں نے مبینہ طور پر چند سال پہلے طالبان کے بعض ساتھیوں کو ہلاک کیا تھا اور بعض کو گرفتار کرکے سیکورٹی فورسز اور پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا جن کا تاحال کچھ اتا پتا معلوم نہیں ہے، اور حالیہ حملہ ان ہی ہلاک اور غائب کیے جانے والے طالبان کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیا ہے۔ طالبان کے مہمند ایجنسی کے اس تازہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے اور اسی طرح کے مزید حملے جاری رکھنے کے اعلان نے عام شہریوں کی امن وامان کے حوالے سے تشویش میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
مہمند ایجنسی میں حالیہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب متعلقہ اداروں کی طرف سے قوم کو ضرب عضب آپریشن کی تکمیل اور کامیابی کی نوید سنائی جارہی ہے، لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ دہشت گرد چاہے کسی بھی صورت میں ہوں، ان کا مکمل خاتمہ نہ تو اب تک کیا جاسکا ہے اور نہ ہی ان کے مکمل خاتمے کی امید مستقبل قریب میں باندھی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے کرنے والی قوتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی دراصل ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے، جب تک اس مائنڈ سیٹ کے طرزِ استدلال کو مخاطب نہیں کیا جائے گا اور اس کو اپنے مقاصد کے لیے دستیاب ہونے والے خام مال کی سپلائی لائن کو مستقلاً نہیں کاٹا جائے گا تب تک اس عفریت سے مکمل طور پر چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے اُن اسباب کا جائزہ بھی لینا ہوگا جو دہشت گردی اور دہشت گرد پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
دہشت گردی سے ہمارے معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات کی گہرائی اور اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے متعلق اس کے دشمن ممالک کے پاکستان دشمن عزائم اور ایجنڈے کو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بلوچستان اورکراچی کے بدامنی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آنے، نیز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے پچھلے چند دنوں کے دوران ایک سے زائد بار بھارت کو اُس کے پاکستان مخالف اقدامات اور عزائم پر شٹ اپ کال دینے کے تناظر میں انتہا پسند بھارتی حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ پاکستان کو زک پہنچانے کاکوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے دیں گے خودکو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور وہاں شروع ہونے والی آزادی کی تازہ تحریک نے بھارتی سورماؤں کو جس پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے بھارت اس دباؤ سے آزاد ہونے اور اس جدوجہد
(باقی صفحہ 49 پر)
کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بھی پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کا کوئی موقع یقیناًہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔ لہٰذا ہمارے مقتدر اداروں کو دہشت گردی کی تازہ کارروائیوں پر غوروفکر کرتے وقت اور مستقبل قریب میں اسی نوع کے دیگر واقعات کی روک تھام کے لیے بعض جارحانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
مہمند ایجنسی کے سانحے پر میڈیا نے جس روایتی بے حسی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور عین اس سانحے کے روز اس بڑے المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے کراچی میں ایم کیو ایم کے راہنما خواجہ اظہارالحسن کی گرفتاری کے ایشو کو میڈیا پر جس طرح کوریج ملتی رہی اس پر قبائلی عوام بہت دل گرفتہ ہیں جو پہلے ہی زخموں سے چور چور ہیں اور جو پاکستان کی بقاء کی جنگ قرار دی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جان ومال کی بے پناہ قربانیاں دے چکے ہیں۔ اُن کی ان لازوال قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ریاست کے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے میں جانب داری کا تاثر ختم کرنا ہوگا اور مہمند ایجنسی کی ایک ہی دن میں36 قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے اس اندوہناک واقعے کو، اس میں ہونے والے قیمتی انسانی جانوں کے نقصان کے تناظر میں کم از کم اتنی اہمیت اور کوریج ضرور دینی چاہیے تھی جتنی کوریج میڈیا کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے بعض معمولی نوعیت کے واقعات کو دیتا ہے۔
گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا اورکور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان نے ایک دن کی تاخیر سے ہی سہی، متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے علاوہ متاثرہ افرادکو امدادی رقومات کے چیک موقع پر ہی د ے کر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ جس ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقیناًقابلِ ستائش ہے۔ امید ہے حکومت متاثرہ خاندانوں بالخصوص شہداء کے لواحقین کی مالی امداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اُن سے کیے گئے ملازمتوں کی فراہمی، تباہ شدہ مسجد کی دوبارہ تعمیر، علاقے میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی اور سڑک کی تعمیر جیسے تمام وعدوں اور اعلانات کی بروقت تکمیل پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔

حصہ