محمد شبیر احمد خان
پیارے ساتھیو، کسی کام کو پختہ ارادے سے انجام دینا اور اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں جو دشواریاں اور مشکلات آئیں، انہیں برداشت کرکے ثابت قدم رہنے کا نام ’’ہمت‘‘ ہے۔ ہمت ہر مشکل کام کو آسان بنادیتی ہے، ہمت کے استعمال سے گریز کرنے والا انسان سُستی، کاہلی اور نکمے پن کو دعوت دیتا ہے۔ تحمل اور بُردباری ہمت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ نے انسان کو جتنی بھی صلاحیتیں عطا کی ہیں، ان کا صحیح استعمال انسان کو انسانیت کے عظیم درجے پر پہنچا دیتا ہے۔
دنیا کی ترقی، ایجادات، تحقیق وتجسس، سائنس کے کارنامے، انجن، ریل گاڑیاں، مواصلاتی نظام، ٹیلی فون، ایٹمی توانائی، انسان کی چاند تک پہنچ اور ہوا، آگ اور پانی پر حکمرانی سب ہمت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے، تاریکیوں کا سفر ترک کرکے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ یہ بات بالکل دُرست ہے کہ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگین ہوا
ہمت، محنت، استقلال، اور بُردباری کے ذریعے ہی بڑے بڑے سیاست دان، ڈاکٹرز، ماہرین فن، موجد و قلم کار اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انہیں گردن اُٹھاکر دیکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو کامیابی کے آسمان تک پہنچنے کے لیے مشکلات و مصائب کا مقابلہ ہمت سے کرکے، اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ انسان کے لیے کوئی کام مشکل و ناممکن نہیں ہوتا، سوائے اُن کاموں کے، جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے مخصوص ہیں، مثلاً تخلیقِ کائنات صرف خداوندِ کریم ہی کرسکتا ہے، کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں ہوسکتا۔ آج کا انسان چاند تک پہنچ چکا ہے، زمین و آسمان، کہسار و ریگزار اور ہوا و پانی، غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے۔۔۔ اور یہ سب کچھ صرف ہمت، محنت، لگن، استقلال اور عزمِ صمیم کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
ہمت کے آگے سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے، نہ پہاڑ اس میں لغزش پیدا کرسکتا ہے، اور نہ ہی دشت و صحرا آج تک کسی باہمت انسان کا راستہ روک سکے ہیں۔ تاریخ میں جھانکیں تو طارق بن زیاد نے کشتیاں جلاکر اپنی ہمت و شجاعت کا عملی مظاہرہ کیا، جنگِ بدر میں مجاہدینِ اسلام نے دلیری کا عملی ثبوت دیا، اندلس کی سرزمین اسی جذبے کی بدولت مسلمانوں کی ہمت و عظمت کی گواہ بنی، اور افغانستان سے روسیوں کا انخلا مجاہدینِ اسلام کے عزم وہمت کی منہ بولتی تصویر بنا۔
کل ہی کی تو بات ہے، ہمارے عظیم رہنما قائداعظم نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ایک طرف انگریزوں کی مکاری اور چال بازیاں تھیں تو دوسری طرف ہندوؤں کا تعصب۔ ستم بالائے ستم اپنوں میں بھی بیگانے موجود تھے۔ قائداعظم اور دیگر رہنماؤں اور برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ہمت اور عزم سے کام لیا اور ثابت قدم رہے، شجاعت و بُردباری سے ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمنوں کے سامنے ڈٹے رہے اور بالآخر خدا نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اسی طرح دنیا کی دیگر بڑی بڑی ہستیوں کی سوانح حیات کا مطالعہ ہمیں ان کی کامرانیوں میں پنہاں راز تک پہنچا دے گا جو کہ ہمت و استقلال میں پوشیدہ ہے۔
قائداعظمؒ کا قول ہے:
کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے، مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے؟ جب تمہارا ذہن فیصلہ دے دے کہ ہاں ایسا کرنا درست ہے تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اُس وقت لو جب اسے پورا کرلو۔ اس بات سے نہ گھبراؤ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی، رکاوٹیں ہوں گی، دشمنوں کی مخالفت ہوگی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کرکے آگے بڑھتے چلے جاؤ۔ ان شاء اللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔
بقول شاعر:
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا