پی ایس 127 کے ضمنی انتخابات اور ایم کیو ایم

360

محمد انور

پی ایس 127 کے ضمنی انتخابات اور ایم کیو ایم

سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 127کی نشست پر جمعرات کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کے امیدوار غلام مرتضیٰ بلوچ21ہزار8 سوووٹ لیکر کامیاب قرار پائےَ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم )کے امیدوار وسیم احمد نے 16ہزار ووٹ حاصل کیے ۔متحدہ نے 2013کے عام انتخاب میں اسی حلقے سے 59 ہزار 8 سو گیارہ ووٹ حاصل کیے تھے ۔اس نشست پر ایم کیو ایم کے اشفاق منگی کامیاب قرار پاکر ایم پی اے بنے تھے جنہوں نے مارچ میں الطاف حسین اور ایم کیوایم سے بغاوت کرکے اس نشست سے استعفیٰ دیدیا تھا۔دلچسپ امر یہ کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد اشرف سموں ایڈوکیٹ نے 15ہزارایک سو58ووٹ حاصل کیے تھے ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی ووٹ حاصل کرنے کی صورتحال مکمل الٹ چکی ہے۔اس حلقے میں ووٹر ز کی کل تعداد 2 لاکھ 7ہزار 468ہے۔
ایم کیو ایم پر ان دنوں جو حالات بیت رہے ہیں اس لحاظ سے یہاں ہونے والے انتخابات میں پورے شہر کے لوگ دلچسپی کا اظہار کرتے رہے ۔اور آنے والے نتائج سے صورتحال مزید پر کشش اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے ۔ اس حلقے سے ایم کیوایم 14سال بعد ناکام ہوئی ہے ۔اس سے حلقے سے متحدہ کو پہلی بار 2002میں کامیابہ ہوئی تھی جس کے بعد مسلسل وہ کامیابی حاصل کرتی رہی ۔ایم کیو ایم کی ہر الیکشن میں کامیابی کو ہمیشہ ہی غیر شفاف ، غیر جانبدارانہ اور غیر منصفانہ انتخابات کے نتائج قراردیا جاتا رہا۔ایم کیو ایم پر انتخابات میں دھاندلی لگانے والوں کا یہ الزام رہا ہے کہ یہ دھونس دھمکی اور خوف کا ماحول پیدا کرکے ووٹ لیتی رہی۔یہ بات ضمنی انتخابات کے نتائج سے درست بھی معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ جو جماعت صرف تین سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں مذکورہ حلقے سے 59ہزار 8سو ووٹ حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی وہ اچانک ہی اس قدر کم ووٹ کیسے اور کیوں حاصل کرسکی ؟جبکہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں محض پانچ ہزار ووٹ زائد حاصل کرسکی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس کے اپنے ہی ووٹ ملے ہیں کیونکہ تین سال کے وقفے کے بعد حکومت میں ہوتے ہوئے ووٹوں کی تعداد بڑھنا کوئی حیرت انگیز نہیں ہے ۔
ایم کیو ایم کی اس حلقے سے چودہ سال بعد ناکامی پر بعض افراد اسے الطاف حسین کی قیادت کے معاملے سے جوڑ رہے ہیں ۔یادرہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار 22اگست کو الطاف حسین کی انتہائی قابل اعتراض اور ملک دشمنی پر مبنی تقریر کے ایک روز بعد الطاف اور ایم کیو ایم لندن سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ایم کیو ایم کل کے انتخاب میں بھی کامیاب ہوجاتی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے قیادت سے لاتعلقی کا اعلان کرکے پوری ایم کیوایم پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔ ان کا یہ صرف یہی احسان نہیں ہے سچ تو یہ ہے کہ وہ مشکل اور تکلیف دہ حالات کے باوجود ایم کیو ایم کو کسی نہ کسی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔رہی بات ایم کیوایم کی ملیر کے انتخابات میں ناکامی تو اس کی وجہ ایم کیو ایم میں قیادت کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ دراصل اس کی وجہ صرف اور صرف رینجرز کی جانب سے جاری کراچی آپریشن ہے جو جرائم پیشہ اور شرپسند افراد کے خلاف مسلسل سخت ایکشن ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو ہر الیکشن کے موقع پر ملنے والا وہ ماحول نہیں مل سکا جو اسے ’’ لازفری ‘‘ ہوا کرتا تھا جس میں اسلحہ کا بلا خوف وخطر استعمال ہوا کرتا تھا۔
مصنوعی طاقت کا انجام یہی ہوتاہے جو ملیر میں انتخابات ہوا۔ایم کیو ایم کی تاریخ خود اس کے باضمیر افراد کے لیے انتہائی شرمناک ہوگی کہ ایم کیو ایم نے جتنے بھی الیکشن جیتے اس میں حاصل کیے گئے تمام ووٹ وہ نہیں تھے جو ووٹرز قانون کے مطابق ڈالا کرتے تھے ۔ بلکہ ووٹ ہی نہیں پورے بیلٹ بکس بھرکر پولنگ اسٹیشن پہنچانے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ملیر کے انتخابات ایم کیو ایم کو آئینہ دکھانے اور دیکھنے کاموقع بھی فراہم کررہے ہیں۔یہ بات مکمل ذمے داری سے لکھی جارہی ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی قابل اعتراض پالیسی ترک نہیں کی اور رینجرز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جاری آپریشن چلتا رہا تو ایم کیو ایم کو کسی بھی انتخاب میں کامیابی ملنا ناممکن ہوجائے گا۔
ملیر کا انتخابات مکافات کی بڑی مثال بھی ہے ۔جو کچھ انتخابی طریقے اب تک ایم کیو ایم استعمال کرتی رہی تھی وہی طریقے ملیر کے انتخابات میں اس کے مخالفین نے استعمال کیے اور اسے شکست سے دوچار کیا۔
صوبائی اسمبلی کے حلقے 127کے انتخاب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس انتخاب میں حصہ لینی والی تحریک انصاف ، مہاجر قومی موومنٹ اور ایم ڈبلیو ایم کا مقصد انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اپنا وزن جانچنے کے ساتھ ایم کیو ایم کو کامیابی سے روکنا تھا۔ایسا اس لیے کیا گیا کہ ایم کیو ایم کبھی بھی کسی بھی سیاسی جماعت سے مخلصانہ بنیادوں پر تعلقات استوار کیے ہی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ہی ان جماعتوں ک اور ان کے کارکنوں کی نظر میں ایک مافیا کے روپ میں رہی ۔ایم کیو ایم نے اپنی 32سالہ تاریخ میں ہر جماعت کو اور ہر طبقے کے لوگوں کو پریشان کیے ہوئے رکھا ۔یہ واحد جماعت رہی جس سے دیگر جماعتیں 2013تک بیزار ہی نظر آئیں۔جبکہ ایم کیو ایم کے اندر جو کچھ چلتا رہا جو کچھ اختلافات ہوتے رہے اسے بھی ایم کیوایم نے کبھی بھی خاطر میں نہیں لائی، جس کے نتیجے میں سب سے پہلے آفاق احمد ، عامر خان ور اس کے بعد مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے بغاوت کردی ۔ان بغاوتوں کے باوجود ایم کیو ایم کی قیادت حقیقی صورتحال کو دیکھنے اور اس کی اصلاح کرنے سے گریز کیا ۔ ایسے حالات کو بھی ایم کیو ایم نے اپنی مصنوعی طاقت کے ذریعے نمٹنے کی کوشش کرتی رہی ۔جس کے نتیجے میں اب ایم کیو ایم سیاست کے میدان کی وہ کھلاڑی بن چکی ہے جس کا کوئی اعلانیہ ساتھ دینے سے بھی گریز کررہی ہے ۔اس مطلب یہ ہے کہ آئندہ اسی کے اراکین کے مستعفی ہونے والے اراکین پر وہ اپنے امیدوار باآسانی کامیاب نہیں کراسکتی ۔ اسے ہم ایم کیو ایم کی واپسی کے عمل سے جوڑسکتے ہیں۔
nn

صوبائی اسمبلی کے حلقے 127کے انتخاب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس انتخاب میں حصہ لینے والی تحریک انصاف ، مہاجر قومی موومنٹ اور ایم ڈبلیو ایم کا مقصد انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اپنا وزن جانچنے کے ساتھ ایم کیو ایم کو کامیابی سے روکنا تھا۔ایسا اس لیے کیا گیا کہ ایم کیو ایم کبھی بھی کسی بھی سیاسی جماعت سے مخلصانہ بنیادوں پر تعلقات استوار کیے ہی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ہی ان جماعتوں اور ان کے کارکنوں کی نظر میں ایک مافیا کے روپ میں رہی ۔ایم کیو ایم نے اپنی 32سالہ تاریخ میں ہر جماعت کو اور ہر طبقے کے لوگوں کو پریشان کیے ہوئے رکھا ۔یہ واحد جماعت رہی جس سے دیگر جماعتیں 2013تک بیزار ہی نظر آئیں

ملیر کے انتخاب میں ناکامی کی وجہ
الطاف سے کنارہ کشی نہیں ہے
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ملیر کے انتخاب میں ایم کیو ایم کی ناکامی الطاف کی وجہ الطاف سے کنارہ کشی ہے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ لگتا ایسا ہے کہ الطاف حسین کو خود اپنی سیاست اور بھرم ٹوٹتے ہوئے نظر آرہا تھا ۔ اسی وجہ سے فائنل راؤنڈ کے طور پر الطاف نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تاکہ اس کے نتائج معلوم کرسکے ۔ ان کا پاکستان کی سیاست سے علیحدگی آسان ہوسکے ۔یہ بھی خیال ہے کہ الطاف نے ملک میں تبدیل ہونے والی صورتحال کو بھی محسوس کرلیا تھا اسی وجہ سے انہوں نے ایسے نعرے لگائے تاکہ نئے نتائج کی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے ان ذمے داریوں میں ناکامی کے الزامات سے بھی محفوظ رہ کر اپنی اپنی اہمیت بڑھاسکیں۔

حصہ