بے شرمی کی باتوں کی طرف نہ جاؤ

386

سید مہر الدین افضل
(ساتواں حصہ)

سورۃ الانعام کے مضامین کا خلاصہ
از تفہیم القرآن

اسلام دین فطرت:۔
ہمیں یہ بات ذہن میں بٹھا لینی چاہیے کہ اسلام پر کسی فرد یا قوم کی ٹھیکے داری نہیں، یہ تمام انسانوں کی مشترک میراث ہے، اسلام دین فطرت اسی لیے ہے کہ یہ انسان کی اصلاح کے لیے اس کے فطری جذبات کو اپیل کرتا ہے۔۔۔ توحید کا اقرار ہر فرد کے دل کی پکار ہے، ماں باپ کا حق ادا کرنا سب کی دلی خواہش ہے، اولاد پیدا کرنا اور اسے پروان چڑھانا سب کا جنون ہے۔۔۔ اسی طرح دنیا میں کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے برے کا م منظر عام پر آئیں کوئی چوری کرنے والا یہ نہیں چاہتا کہ اسے چور کہا جائے۔۔ ہم انسانی معاشرے کو دو سطحوں سے دیکھتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی، اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ انتہائی اہم ہیں ایک فرد جب تک بھلائی کرنے اور برائی سے بچنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ معاشرے کے لیے بھی مفید نہ ہوگا۔ اس لیے اسلام سب سے پہلے فرد کو خطاب کرتا ہے اور اس پر کوئی چیز اوپر سے تھوپتا نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر موجود خیر وشر، اچھے اور برے، کی تمیز کو ابھارتا اور پروان چڑھاتا ہے، اس کے لیے کسی قوت نافذ ہ کی ضرورت نہیں۔ پھر جب کچھ لوگ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہو جائیں، تب وہ ان سے کہتا ہے، لوگوں کو اپنے عمل سے اس کی بہاریں دکھاو! اپنے قول و قرار سے روشنی پھیلاؤ! اور ایک مضبوط رائے عام ہموار کرو جس کے نتیجے میں اچھا کام کرنا آسان ہو جائے۔۔۔ ہر اچھا کام کرنے والے کو سراہا جائے، اسے انعام ملے۔۔۔ اور برے کا م کو نا پسند کیا جائے، اور لوگ خود برے کا م کرنے والے کو سزا دینے کا مطالبہ کریں۔۔۔ یہ بڑا صبر آزما کام ہے۔آج صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے، ہر گروہ یہ سمجھتا ہے کہ انسانوں پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا جائے، اور ان پر اپنے قوانین ( شریعت ) نافذ کردیے جائیں عملاً جن لوگوں کے پاس طاقت ہے ان کے قانون (شریعت ) نافذ ہیں ان کے مقابلے پر آنے والے بھی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ اور انسان دہشت زدہ ہے۔۔۔ صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے سب سے پہلی ضروری چیز، اتفاق ہے چند لوگوں کا اتفاق نہیں تمام انسانوں کا اتفا ق، اس لیے داعیان اسلام کو ہر سطح پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، افراد کی سطح پر بھی، معاشرتی سطح پر بھی، اور ملکوں کی سطح پر بھی۔۔۔ اور وہ صرف انسان کی فطرت کو اپیل کرنے سے پیدا ہو سکتا ہے۔۔۔ اور اللہ تعالی کو بھی یہی مطلوب ہے، کہ بندوں کے سامنے بھلائی اور برائی کو واضح کیا جاتا رہے، اور روز حشر جب وہ اپنے مالک سے ملیں تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہ ہو ۔
دعوت اسلامی کی کشش:۔
ابتدا میں اسلام کی دعوت اتنی پر کشش تھی کہ ہر آدمی اس کی جانب متوجہ ہوا تھا، لیکن جب سے مسلمانوں نے اس پر ٹھیکے داری قائم کی ہے یہ دوسروں کے لیے قابل توجہ نہیں رہا، جدید ذرائع ابلاغ نے تو بدنام کیا ہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے اعمال، ان کے حکمران، ان کا سوشل سسٹم اور اجتماعی رویوں نے بھی اسے بدنام کیا ہوا ہے۔ اس معاملے میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے، اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے۔۔۔ یہ نہیں کہ اسکارف اگر مغرب میں شرمندگی کا سبب ہے تو ہم حجاب ہی کے منکر ہو جائیں ۔۔۔ اسلام جہاں یہ کہتا ہے کہ بے شرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ تو ساتھ ہی شرم و حیا کے پیمانے بھی تبدیل کرتا ہے مثلا عرب اپنے باپ کے مرنے یا کسی عورت کو طلاق دینے کے بعد اس کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو قابل شرم نہ سمجھتے تھے۔۔۔ جبکہ منہ بولے بیٹے کی بیوہ سے نکاح کو قابل شرم سمجھتے تھے اسلام نے اسے تبدیل کر دیا۔ شراب پینا اور جوا کھیلنا قابل شرم نہ تھا بلکہ بعض پہلوؤں سے اچھا سمجھا جاتا تھا، ان کی شاعری ان کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے، ایک شاعر کہتا ہے:۔ اور جب میں پی لیتا ہو تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں، لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے۔۔۔ اور جب میں ہوش میں آتا ہو ں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا۔۔۔ سخاوت کے لیے وہ جوا کھیلتے تھے، ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ہے، یا نفع حاصل کرنے وا لوں کے حصے سے جو کچھ بچ رہتا ہے، اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قران پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا بلکہ فرمایا ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ( الرحیق المختوم صفحہ ۳۷ ) اسلام نے بہ تدریج اسے قابل شرم بنا دیا۔۔۔
اسلام قومیت نہیں:۔
ضروری ہے کہ مسلمان قومی سوچ سے بلند ہوں مسلمان قوم نہیں جیسے جاپانی، جرمن، انگریز اور امریکن ایک قوم ہیں۔ یا ترک، عرب، مصری، اور ایرانی ایک قوم ہیں۔ ان معنوں میں مسلمان ایک قوم نہیں ہیں اور اسی لیے مسلمانوں کی جو کشمکش ہے وہ قومی کشمکش نہیں بننی چاہیے، نہ قومی نہ قبائلی، مسلمان ایک نظریاتی اور ایمانی گروہ کا نام ہے اس کی ہر کشمکش نظریاتی اور ایمانی ہوگی اس میں آپ کا ہم رنگ اور ہم نسل آدمی آپ کے مخالف کیمپ میں ہو سکتا ہے اور بالکل مختلف رنگ ونسل کا آدمی آپ کے کیمپ میں ہوسکتا ہے۔ یہ کتابوں میں لکھا ہوا تو ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔۔۔ آج ہم ہر اس شخص کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ہر عمل کی اسلامی وضاحت کرتے ہیں جو مسلمانوں جیسا نام رکھتا ہو۔ جس کے نتیجے میں دنیا کا عام انسان، مسلمان کے ذاتی عمل کو اسلامی عمل سمجھتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بے عملی یا بدعملی اسلام کے کھاتے میں جاتی ہے اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ہم قومی سے زیادہ عالمی Vision لے کر کام کریں۔
بے شرمی کی باتوں کے قریب نہ جاؤ:۔
انسان جس گلوبل فیملی کا خواب دیکھ رہا ہے اس کی خاص بات شفافیت ہے (Transparency)133 سوسائٹی کی تعمیر کے لیے اصول اخلاق کے طور پر اسلام کا چوتھا اصول معاشرے میں شفافیت، حیا، پاکیزگی، صداقت اور امانت، محبت اور خلوص کو پروان چڑھاتا ہے اور بے حیائی، گندگی، جھوٹ، کرپشن، منافرت اور منافقت کو بتدریج کم کرتا اور بالآخر ختم کرتا ہے اور ہر اس کام سے انسان کو روکتا ہے جس سے فطرت انسانی نفرت کرتی ہے ارشاد ہوا:۔ ’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاو خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی‘‘ (ہر وہ کام بے شرمی کا کام ہے جس کی برائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عملِ قومِ لوط، برہنگی، جھوٹی تہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملہ فواحش کہا گیا ہے۔ اِسی طرح دوسرے تمام شرم ناک کام بھی اس میں داخل ہیں اور ارشادِالٰہی یہ ہے کہ اس قسم کے کا م نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھپ کر۔ حاشیہ نمبر :130) یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ آدم کی اولاد کے کچھ کام ایسے ہیں جن کا انجام برا ہے اور ان سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کام چھپا کے بھی نہ کرو جو تمہیں شرمندہ کر دیں۔۔۔ یعنی ہر وہ کام، بات جو لوگوں سے اس لیے چھپائی جائے کہ اس کے عام ہونے سے شرمندگی ہوگی نہ کرنا چاہیے اس طرح یہ ہدایت انسان کے اعمال میں شفافیت لاتی ہے۔۔۔آج سیاسی جماعتیں کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں، لیکن کوئی نہیں جو یہ کہے کہ ہم کسی ایسے فرد کو اپنی جماعت میں شامل نہ کریں گے جس کے معاملات شفاف نہ ہوں، جو ہر سال انکم ٹیکس میں اپنی آمدنی اور خرچ کے درست گوشوارے نہ جمع کراتا ہو،۔۔۔ جس کے پا س کسی ایسے ذریعے سے رقوم آ رہی ہو ں جسے وہ بتا نہ سکتا ہو، چھپاتا ہو، وہ ہماری جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا۔۔۔ یاد رکھیں جو فرد اور گروہ اپنے معاملات میں شفاف ہو گا وہی گلوبل فیملی میں با عزت مقام حاصل کر سکے گا۔
بے مقصد کام سے بچو:۔
یہ ہدایت انسان کو بے مقصدیت سے بھی بچاتی ہے حضورؐ نے ارشاد فرمایا آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان کاموں کو چھوڑ دے جو لا یعنی ( بے مقصد ) ہوں (ترمذی)۔ سورہ لقمان آیت نمبر6 میں ارشاد ہوا:۔ اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ’’لھو الحدیث‘‘ ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لغت میں اس لفظ کا استعمال بری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہوتا ہے، مثلاً گپ شپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ یعنی آدمی اپنا وقت اور مال ایسی چیزوں پر خرچ کرے جن میں اس کے لیے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ (ماخوذ از سورۃ لقمٰن حاشیہ نمبر:6) یہ وہ چیز ہے جو انسان کو بالآخر شرمندہ کرتی ہے اور شرمندہ کرنے والے بڑے بڑے برے کام کرنے کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ سْورَۃْالفْرقان آیت نمبر 72 میں ارشاد ہوا:۔ اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔۔۔ ہر وہ چیز لغو ہے جو انسان کو اس کے مقصد، نصب العین سے غافل کردے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق “وقت” اللہ رب العزت کی جانب سے دی ہوئی نعمت ہے اور اس عظیم نعمت کو صحیح طریقے پر استعمال نہ کیا جائے تو یہ بھی ایک جرم ہے، وقت وہ قیمتی ترین شے ہے جس کی حفاظت کا ہمیں ذمہ دار بنایا گیا ہے لیکن آج یہی وہ چیز ہے جو ہمارے پاس نہایت آسانی سے ضائع ہو رہی ہے۔ سورۃ العصر میں ارشاد ہوا:۔ زمانے کی قسم، انسان درحقیقت میں بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔ وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین ۔

حصہ