رمضان کا چاند

74

شعبان کی آخری تاریخ تھی، مغرب کی نماز کے فوراً بعد بچے آسمان پر چاند کو ڈھونڈنے کے لیے چھت پر چلے گئے۔ یہ ایک ایسی سنت ہے جس کو ہم معدوم کرچکے ہیں۔ نئے چاند کو آسمان پر ڈھونڈنا، اور مل جانے پر اس کو دیکھ کر نئے چاند کی دعا پڑھنا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ثابت ہے۔

میں نے بھی اپنی کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا، پھر بے بسی سے اپنی بڑھاپا زدہ ٹانگوں کو دیکھا جو سیڑھیاں چڑھنے سے قاصر تھیں۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں، بیماری سے پہلے صحت کو غنیمت جانو۔ ہم اپنی زندگی بھر کی عبادات کا حصہ اپنے بڑھاپے کے نام کرکے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ اس وقت ہم کچھ اور کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ جوانی میں جس خلوص سے ہم عبادت کرسکتے ہیں اور اس کا جو اجر ہے وہ بڑھاپے کی عبادت کا نہیں ہے۔

سامنے باورچی خانے میں بہو کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں، جو کہ یقینا چاند نظر آنے کی صورت میں سحری کی تیاریوں میں بدل جانی تھیں۔

میری زوجہ مرحومہ ہر سال پہلی سحری میں گزشتہ رات کا کھانا موقوف کروا دیتی تھیں تاکہ سحری میں انسان پیٹ بھر کے کھائے اور پہلا روزہ کسی بھی زاویے سے طبیعت پہ گراں نہ گزرے۔

الحمدللہ آج یہی ریت ہماری بہو لے کے چل رہی ہیں۔ یہ عورتیں چاہے ہماری بہو، بیوی یا بیٹی کوئی بھی ہو، شاید اپنے روزوں کے اجر کے ساتھ ساتھ ہم مردوں کے روزوں کا اجر بھی لے جاتی ہوں گی۔ سحری کے انتظامات سے لے کر تراویح کے اہتمام تک وہ دین اور دنیا بہ خوبی نبھاتی ہیں۔ اپنے پیاروں کے کھانوں اور عبادتوں کا خیال وہ اپنی ذمے داری سمجھ کر کرتی ہیں۔ اب ہم مردوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ باورچی خانے میں ان کی مدد کرکے اس سنت کو زندہ کریں۔

’’دادا ابو! دادا ابو! اگر آپ اوپر نہیں جا سکتے چاند دیکھنے کے لیے تو چھوٹو کے سر کی طرف دیکھ لیجیے گا، آپ کو چاند نظر آجائے گا۔‘‘

میرے بڑے پوتے ہارون نے اپنے چھوٹے بھائی موسیٰ کے سر کی طرف اشارہ کیا جو کل ہی گنجا ہوکر آیا تھا۔

جواباً تین سالہ موسیٰ نے مسکرا کر معصومیت سے میری طرف دیکھا تو بے اختیار رمضان چچا کا سراپا میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔

رمضان چچا ہمارے بچپن کی اُن ہستیوں میں سے تھے جن کا بظاہر ہمارے خاندان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن انہوں نے میری تربیت میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔ پرانے زمانوں میں گاؤں میں ہر فرد ہر بچے کی تربیت کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بچے کو غلطی کرنے پر مار بھی سکتا تھا، اور والدین کبھی بھی اس سے پوچھ گچھ نہ کرتے۔ یہ سب اُس زمانے کے خلوص اور محبتوں کا نتیجہ تھا کہ ہمیں اپنے بڑوں کا ادب اور ان کا احترام سیکھنے کے لیے ’’مینرز کلاسز‘‘ نہیں لینی پڑتی تھیں۔

رمضان چچا کا شمار اُن افراد میں تھا جو بڑھاپے کی دہلیز کو چھوتے ہی اپنے بالوں جیسی نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ایک تو نام کا اثر، دوسرا بالوں سے بے نیاز چمکتی ہوئی ٹنڈ۔ بے چارے کا شعبان کی آخری تاریخوں میں گھر سے نکلنا محال ہوتا تھا۔ جہاں سے گزرتے، ایک آواز گونجتی ’’رمضان کا چاند نظر آگیا ہے۔‘‘

اور اللہ کا وہ باظرف بندہ سر جھکا کر مسکراتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ میں نے ان کو کبھی بھی اس بات پر الجھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس چیز سے بہت لطف اندوز ہورہے ہیں۔

میں اپنے دل میں رمضان چچا کے لیے بہت برا محسوس کرتا تھا، لیکن زبان سے اقرار نہ کرتا۔ اس بات کو بہت سال بیت گئے۔ مجھے بھی ابا نے گاؤں سے میٹرک کرا کے پڑھنے کے لیے شہر میں پھپھو کے گھر بھیج دیا، جہاں پھپھو اور پھوپھا کے شفقت بھرے سائے میں رہ کر میں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد بابا سے کیے ہوئے وعدے کے عین مطابق گاؤں میں جاکر اپنے کلینک یعنی مطب کا آغاز کیا۔

زندگی کی اس دوڑ میں مَیں بہت ساری چیزوں کو بھلا چکا تھا۔ رمضان چچا بھی شاید انہی ہستیوں میں سے ایک تھے۔ ایک دن کلینک بند کرنے کے وقت ایک بچہ دور سے دوڑتا ہوا آیا اور اپنی پھولی ہوئی بے ترتیب سانسوں کو بحال کرنے لگا۔

میں نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’’کیا آپ میرے گھر میرے دادا کو دیکھنے چل سکتے ہیں؟ وہ بہت بیمار ہیں اور آپ کے کلینک تک نہیں آسکتے۔‘‘

اُس نے ایک سانس میں ہی اپنی پوری عرضی پیش کردی۔

میں نے کہا ’’کیوں نہیں بیٹا!‘‘ میں نے اپنا دھڑکن جانچنے والا آلہ اور ضروری سامان سمیٹا اور اُس کے گھر کی طرف اُس کے ساتھ چل دیا۔

ابھی دماغ یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ جانا چاہیے کہ نہیں… پاؤں خود بہ خود اُس کے ساتھ اُس کے گھر کی جانب اٹھ گئے۔ شاید یہی تربیت کا فرق ہوتا ہے۔

وہ بچہ دو گلیوں کے فرق سے ایک چھوٹے سے مکان میں بھاگ کر داخل ہوگیا۔

میں بھی اُس کی قیادت میں اُس کے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا سامنے صحن میں چارپائی کے اوپر رمضان چچا کا نحیف سا وجود پڑا تھا۔

ساتھ میں اُن کے بیٹے کھڑے تھے جن کو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا۔

میں نے جھک کر رمضان چچا کو سلام کیا۔ ان کی آنکھوں میں آئی چمک نے اس بات کا واضح اشارہ دیا کہ انہوں نے مجھے پہچان لیا ہے۔

میں نے جلدی جلدی اُن کی خون کی رفتار اور خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جانچا۔ ضروری ادویہ دے کر میں اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ اللہ کی ذات سے پوری امید تھی کہ ایک گھنٹے کے اندر ان کی طبیعت بہت بہتر ہو جائے گی۔

گھر پہنچا تو دسترخوان پہ شوربے والا سالن اور مہکتی خوشبو کی روٹیاں میری منتظر تھیں۔ امی نے مجھے دیکھتے ہی جھٹ ایک پیالہ پکڑا دیا اور کہا ’’پڑوس میں دے آؤ۔‘‘

’’کیا ہے امی! اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔‘‘میں نے احتجاج کیا۔

’’بڑے ہوگئے ہو تو کیا! بیٹا دعاؤں کی تو ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔کچھ سال کی بات ہے پھر یہ کام تمہارا بیٹا کرے گا۔‘‘

میں نے مسکرا کر صحن کی چٹائی پر کھیلتے اپنے دو سالہ بیٹے محمد کی طرف دیکھا جو مجھے دیکھ کر ہمکنے لگا تھا۔

کھانے کے بعد دھیان رمضان چچا کی طرف ہی رہا اور قدم بے اختیار اُن کے گھر کی طرف اٹھنا شروع ہوگئے۔

دروازے پر پہنچ کر دستک دینے کا سوچ رہا تھا کہ اندر سے آتی آوازوں نے میرا ہاتھ روک دیا۔

’’میرے پیارے اللہ میاں! میرے دادا کو صحت کے ساتھ رکھیے گا، اِس رمضان بھی ان کا سایہ ہمارے سروں پہ سلامت رکھیے گا۔ پیارے اللہ میاں! آپ کو پتا ہے نا کہ افطار میں وہ کھجور اپنے ہاتھوں سے میرے منہ میں ڈالتے ہیں۔ آپ ان کو بہت صحت کے ساتھ رکھیں تاکہ وہ پورے رمضان اپنے ہاتھوں سے مجھے روزہ افطار کرائیں، آمین۔‘‘

بچے کی دعا کے یقین کے آگے مجھے اپنا علاج کرنا ثانوی محسوس ہونے لگا۔ یقینا اس کی تربیت کرنے والی ماں بہترین عورت ہے جس نے اس کے دل میں بزرگوں کی محبت کا بیج بویا ہے۔

میں نے دروازے پہ دستک دی، جواباً ان کی بڑی بیٹی نے دروازہ کھولا جس کو میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا، لیکن میری حیا اور اُس کا بڑا سا گھونگھٹ آڑے آگیا ورنہ دل چاہا تھا بچوں کی طرح اپنا تعارف کراؤں اور بتاؤں میں نے تمہیں پہچان لیا۔

داخلے کا عندیہ ملتے ہی میں سیدھا اُن کی چارپائی کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ماشاء اللہ بہت بہتر حالت میں اپنی چارپائی پر بیٹھے قہوہ پی رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بے اختیار خوشی کے مارے کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ میں بھی جلدی سے اُن کے برابر میں بیٹھ گیا۔

’’بیٹے جی! آپ کا بہت شکریہ! آپ نے بروقت آکر میرے اوپر بہت احسان کیا۔‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہیں چچا جان! آپ سب تو ہماری تربیت میں حصے دار ہیں۔ بچپن میں گاؤں کے ہر بزرگ سے ہم نے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے، بے شک گاؤں کا ہر بزرگ ایک چلتی پھرتی اکیڈمی ہوتا تھا، جس کی گفتگو اس کی برسوں کی محنت کا نچوڑ ہوتی تھی اور لمحوں میں ہمیں وہ بات سکھا دیتی جو ہم برسوں کتابوں سے نہیں سیکھ سکتے تھے۔‘‘

تھوڑی دیر یوں ہی گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ حالات موافق دیکھ کر بچپن کا سوال ہونٹوں پر آ ہی گیا۔

’’آپ سے ایک سوال پوچھوں چچا جان؟‘‘ یقین تھا کہ جواب مثبت ہی ہوگا لیکن پتا نہیں کیوں سوال سے پہلے اجازت لے لی۔

’’ہاں ہاں… بیٹا! پوچھو۔‘‘

’’میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ لوگ جب آپ پر ’’رمضان کا چاند‘‘ کا فقرہ کستے تھے آپ مسکرا کر وہاں سے گزر جاتے تھے۔ کیا آپ کو برا نہیں لگتا تھا؟‘‘

’’ارے بیٹا! کیسی بات کردی! رمضان کا چاند ہونا تو بڑے اعزاز کی بات ہے، وہ اپنے ساتھ رحمتیں، برکتیں اور محبتیں لے کر آتا ہے۔ دستر خوان کی وسعت لے لو یا آمدنی میں برکت، ہر چیز ایک الگ ہی رونق لاتی ہے۔

رمضان کا چاند ہونا تو بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنے اوپر یہ پھبتی بہت اچھی لگتی تھی۔ میرا تو دل چاہتا ہے کہ ابھی بھی گلیوں میں نکل جاؤں اور کہیں مجھے کوئی اس نام سے پکارے۔ لیکن نہ اب وہ صحت رہی ہے جو نکلنے دے اور نہ وہ بچے، جو مجھے اس نام سے پکاریں۔‘‘

’’دادا ابو! رمضان کا چاند مبارک ہو۔‘‘ محمد کے بیٹے ہارون کی آواز نے مجھے یادوں کے دریچے سے نکال کے حاضر میں لا کھڑا کیا۔

’’بابا جان! سحری کے لیے کیا بناؤں؟‘‘

بہو کا یہ سوال مجھے اپنے ڈاکٹری کے تمام سوالوں سے مشکل لگتا ہے۔

’’جو بنا لیجیے بیٹا! آپ کے ہاتھ کا تو سب کچھ لذیذ ہوتا ہے، اپنی آسانی دیکھیے گا اور اپنی عبادات کا وقت نکال کے جو بن پڑے، بنا دیجیے گا، اللہ تعالیٰ برکت سے نوازیں گے، ہم مل کر کھا لیں گے۔ ہم سب کے روزے آپ کی خدمت کے محتاج ہیں۔ اللہ آپ کو بہت اجر دے۔‘‘

میں جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’بیٹا! یہ آپ کے عید کے جوڑے کے پیسے، خاص طور پر بابا کی طرف سے۔‘‘

بہو کی آنکھوں میں آئے خوشی کے آنسوؤں کی نمی مجھے مطمئن کر گئی۔

حصہ