’’یاہو…وووو… اب تو ہوگی پارٹی۔
بھئی میرے تو ہوگئے وارے نیارے۔ اب تو خالی پیٹ رہنے کا بھی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مزے ہی مزے بھئی۔‘‘
کڑاہی نے اپنی مالکن کو سموسے بناتے دیکھ کر یہ جو نعرے لگائے اور خوشی کا اظہار کیا تو فرائنگ پین اور توے کہنے لگے ’’بھئی! ہم نے بھی دیکھ لیا اپنی مالکن کو یہ کام کرتا دیکھ کر، اور ہم بھی خوش ہیں، لیکن تمہاری تو خوشی کا انداز ہی نرالا ہے۔‘‘
’’ہاں نا، یہ تو بالکل ہی جذباتی ہوجاتی ہے اور اتنا شور مچاتی ہے کہ نہ پوچھو۔ ویسے تو اس کی شور مچانے کی عادت سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں کہ جب اس کے اندر موجود ہو تیل اور چلے جائیں پانی بھیا کے چھینٹے، تو پھر تو ایسا شور مچاتی ہے کہ الامان الحفیظ۔‘‘ توے صاحب بولنا شروع ہوگئے تھے۔ ’’میری تو ذرا دیر ہی ہوئی تھی کہ آنکھ لگی تھی، آخر کو صبح سے مصروف جو اتنا تھا۔ آج تو بڑی آپا نے خوب سارے ہی پراٹھے بنا ڈالے،کہ مہمان جو اتنے آئے ہوئے ہیں۔‘‘
اب فرائنگ پین نے مہمانوں کا لفظ جو سنا تو اس کی بات کے بیچ میں ہی کود پڑا اور کہنے لگا ’’ارے اپنی ہی کہے جاؤگے یا میری بھی کچھ سنو گے! میں بھی تو بولنے کو بے تاب ہوں کہ وہ ’’شیلو فرائی‘‘ والا لفظ بولنے والی مہمان جو آئی تھیں وہ کب آئیں گی؟‘‘فرائنگ پین نے اتہائی رازداری سے پوچھا۔
’’ارے وہ والی… وہ تو سعودی عرب سے آئی تھیں۔ سنا ہے کہ اِس بار نہ آسکیں گی۔‘‘
’’ارے بھئی کون آرہا ہے؟اور کون جارہا ہے؟‘‘ سال بھر سے سوتے سِل بٹّے نے جو ان لوگوں کا شور ہنگامہ سنا تو کہنے لگا کہ ’’اتنا شور و غل مچا رکھا ہے کہ میری نیند میں خلل پڑ گیا۔‘‘ اب تو پلیٹ نے منہ بناتے ہوئے اس سے کہا ’’اچھا… سال بھر سونے کے باوجود نیند پوری نہیں ہوئی کیا؟‘‘ اور ان چند منٹوں میں ہونے والی پوری بات سے آگاہ کیا۔ اب تو وہ اچھلنے کو ہی تھا کہ زمین نے کہا ’’سل بٹّے بھیا! آرام سے، ذرا دھمیے دھیمے۔ تمھارا رقبہ تو کم ہے لیکن جسامت کے حساب سے وزن کچھ زیادہ ہی ہے، لہٰذا یہ اچھل کود تمہارے بس کی بات نہیں۔ خوش ہی ہونا ہے تو اپنے اوپر لگی اس گرد کو ہی جھاڑ لو۔‘‘
’’ہوں!کہتی تو تم ٹھیک ہو، بس ذرا یہ بتاؤ کہ اس سال افطار پارٹی ہوگی کہ نہیں؟ اور وہ چھوٹی دادی کی آمد کا کتنے فیصد امکان ہے؟ ارے پچھلے سال تو وہ آہی نہ سکیں لہٰذا ہماری بھی قسمت نہ جاگی۔ ورنہ وہ آتی ہیں تو ہمیں تیار کیا جاتا ہے، صاف ستھرا کرکے ہم پر لہسن اور ہرے دھنیے کی چٹنی پیسی جاتی ہے کہ چھوٹی دادی کو تو مجھ پر ہی بنی چٹنی پسند ہے، لہٰذا ان کی آمد پر تو میں خوشی سے نہال ہوجاتا ہوں۔ شکر ہے کہ سال میں وہ ایک بار آتو جاتی ہیں جس کی وجہ سے میری قدروقیمت سے بھی سب آگاہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
اور اس کے ساتھ ہی اس نے کچوری بنانے والی مشین کو یاد کیا جو صرف رمضان میں نکلتی تھی، تو قریب ہی بیٹھا شربت والا جگ کہنے لگا ’’ارے بھئی ہمیں کوئی یہ تو بتائے کہ آنے والے مہینے میں درجہ حرارت کتنا رہے گا تاکہ میں امید رکھوں کہ میرا کوئی دوست آئے گا کہ نہیں، یا پھر میں اکیلا ہی رہوں گا؟‘‘
یہ سننا تھا کہ پاس موجود چمچے نے کہا ’’تمھیں اپنا دوست اتنا کیوں یاد آرہا ہے؟‘‘
اب تو جگ نے آہ بھری اور بولا ’’تم کیا جانو دوست کی قدروقیمت، کیوں کہ تمھارے پاس تو ہمہ وقت تمھارے ساتھی موجود ہیں۔ لیکن میں تو سال بھر ہی اکیلا رہتا ہوں۔ اگر گرمی زیادہ ہو تو اس مہینے میں مجھے اپنا ساتھی مل جاتا ہے اور پھر ہمارے اندر لال، پیلے، گلابی، جامنی رنگوں کے مزیدار سے شربت بھرے جاتے ہیں اور انھیں پیتے ہوئے ہماری اہمیت ان انسانوں پر واضح ہوتی ہے، خصوصاً افطار پارٹیوں میں ہم تو بادشاہ بنے ہوتے ہیں۔‘‘
اور اب چائے کی کیتلی صاحبہ کہنے لگی تھیں ’’تم اپنی اہمیت بتانے کے لیے درجہ حرارت کے محتاج ہو، جب کہ میں تو ’’سدا بہار‘‘ ہوں چاہے درجہ حرارت پچیس ہو یا چالیس پر پہنچ جائے، افطار کے بعد تو میری طرف دوڑا جاتا ہے‘‘۔ اور یہ کہتے ہی خود بھی دوڑنے کی کوشش کی تو اپنا ڈھکنا ہی گرا دیا، اور جلدی سے اسے سب نے پکڑنے کی کوشش کی کہ کہیں بھاگنا ہی شروع نہ کردے کہ قریب میں موجود چھوٹی پیالیوں نے کہا ’’کوئی ہماری مالکن کو یاد دلا دے کہ اب ہم تعداد میں کم رہ گئی ہیں اور ہمیں بھی دوسروں کے کام آنا ہے۔‘‘
اور مالکن جو کہ وہیں کھڑی تھی، سوچنے لگی کہ اس رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں میں یہ تمام برتن بہ رضا و خوشی ہم انسانوں کی خدمت کے لیے تیار ہیں تو میں بھی اپنوں کے لیے سحری و افطاری کا اہتمام خوشی خوشی کیا کروں گی کہ رمضان میں ان نیکیوں کا ثواب بھی تو ستّر گنا تک پہنچ جاتا ہے، اور جھنجلاہٹ و غصے سے کام کرکے میں بھلا اپنے اجر کو کم کیوں کروں؟