’دانش گاہِ اقبال‘ کا مذاکرہ اور مشاعرہ

35

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے اپنی ادبی تنظیم ’دانش گاہِ اقبال‘ کے زیر اہتمام وی ٹرسٹ بلڈنگ گلشن اقبال میں ’’اسلام اور اشتراکیت‘‘ کے موضوع پر مذاکرہ اور طرحی مشاعرہ آرگنائز کیا۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے دور میں مذاکرہ ہوا جس کی صدارت زیب اذکار نے کی۔ عقیل دانش اور پروفیسر شاہد کمال مہمانانِ خصوصی تھے۔ عابد شیروانی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ فکرِ اقبال کو عام کرنے کے لیے ’دانش گاہِ اقبال‘ کے تحت ہر ماہ شعری نشست اور مذاکرہ ترتیب دیا جاتا ہے، آج اس سلسلے میں 9 ویں تقریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں اور عالمِ اسلام کو یہ پیغام دیا تھا کہ اگر مسلمان متحد نہ ہوئے تو دنیا سے ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا، انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلام کا معاشی نظام مکمل ضابطۂ حیات ہے، وہ ہمیں دنیا گزارنے کے اصول بتاتا ہے۔ آج کمیونزم، سوشل ازم اور اشتراکیت ختم ہوتی جارہی ہے، دنیا میں اسلامی تعلیمات پھیل رہی ہیں۔

خورشید احمد نے کہا کہ کمیونزم سمٹ رہا ہے، روس سب سے بڑا کمیونسٹ ملک ہے، جرمنی کے ہٹلر نے کمیونسٹوں کا قتلِ عام کیا تھا لیکن یہ بات ریکارڈ پرہے کہ اشتراکیت ایک نظریہ ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس نظریے کو طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کسی مذہب کو سامنے آنا ہوگا، صرف اسلام نے ہی اشتراکیت کو نقصان پہنچایا ہے، اسلام میں انسانی اقدار کی بڑی اہمیت ہے۔

پروفیسر عقیل دانش نے کہا کہ اشتراکیت نے ہمیں نئے نئے نظریات سے آگاہ کیا لیکن اس نظریے نے بہت جلد دم توڑ دیا، اللہ نے اسلام کے تحت ہمیں زندگی گزارنے کے سنہرے اصولوں سے آشنا کیا ہے۔ اشتراکیت کے دعویدار آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں، امریکی اثرات سے دنیا متاثر ہورہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلامی اصولوں پر عمل کریں تاکہ کامیابیاں حاصل ہوں۔

پروفیسر شاہد کمال نے کہا کہ اشتراکیت نے ہندوستان میں بھی اپنے قدم جمائے تھے لیکن آہستہ آہستہ اس کے اثرات ختم ہوئے، 1936ء میں ترقی پسندوں نے اردو ادب میں بھی انٹری ڈالی تھی جس کے تحت ہماری روایتی شاعری میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، ترقی پسند تحریک نے شاعری کے موضوعات تبدیل کیے، غزل کے مقابلے میں نظموں کو رائج کیا اور نظمیہ شاعری زوروں پر تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا دین زندگی کے تمام عنوانات پر معلومات فراہم کررہا ہے، ہمارا فرض ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ 1917ء میں روس کے اندر کمیونزم کا آغاز ہوا، اس نظریے کے تحت روس میں انقلاب آیا، لوگوں کی طرزِ زندگی تبدیل ہوئی۔ اشتراکیت ایک معاشی اور سیاسی نظریہ ہے جس کے تحت معاشرتی رویّے تبدیل ہوتے ہیں۔ جرمن فلاسفر کارل مارکس نے کمیونزم کی سب سے زیادہ ترویج و اشاعت کی، اس نے اشتراکیت پر سیر حاصل کتاب مرتب کی جس کو مغربی ممالک میں بے حد پسند کیا گیا۔ ایک عرصے تک مغربی دنیا نے اشتراکیت کو اپنائے رکھا، اس نظریے کے تحت مزدور اور آجر کے الگ الگ مفادات ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ مزدور کو خرید لیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق اس کی صلاحیتوں کو استعمال کرتا ہے۔ مائوزے تنگ نے چین میں کمیونزم کی ترقی کے لیے کام کیا جس کی وجہ سے چین نے بہت ترقی کی۔ مولانا ندوی نے کمیونزم کے خلاف مقالہ جات لکھے، انہوں نے اسلام اور کمیونزم کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام دینِ فطرت ہے، یہ نظریہ ہمیں زندگی کے بہترین اصول فراہم کررہا ہے، اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے، اب قیامت تک کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا عین ثواب ہے۔

ڈاکٹر رانا خالد نے کہا کہ پتھر کے زمانے سے ایٹم بم کے زمانے تک تمام اقوامِ عالم مختلف ادوار سے گزر رہی ہیں۔ اقوامِ عالم نے معاشی نظام اور مذہبی طبقوں کو یکساں کردیا۔ پہلی جنگ ِعظیم کے دوران جلا وطنی کاٹنے والے مفکر لینن نے کہا تھا کہ کمیونزم کوئی مذہب نہیں ہے، یہ ایک انقلابی اور سماجی تحریک ہے۔ دینِ اسلام نے تمام نظریات میں ردوبدل کیا،اس نے انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا۔ علامہ اقبال کمیونزم، سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے مخالف تھے۔

اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جو کہ اقبال کے مصرعِ طرح پر تھا۔ مشاعرے کی صدارت اخترسعیدی نے کی۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار اور افتخارملک ایڈووکیٹ مہمانانِ خصوصی تھے۔ مشاعرے میں قمر جہاں، حنا سجاول، ذوالفقار حیدر پرواز، کشور عروج، عروج واسطی، حمیدہ کشش، ہما اعظمی، نورالدین نور، افتخار خانزادہ، رحمت اللہ جری، احمد سعید خان، ڈاکٹر رانا خالد، افسر علی افسر، الحاج نجمی، مقبول زیدی، زیب اذکار، پروفیسر عقیل دانش، افتخار ملک ایڈووکیٹ، راقم الحروف ڈاکٹر نثار اور اختر سعیدی نے اپنا طرحی کلام نذرِ سامعین کیا۔

حصہ