بچوں اور شوہر کے جانے کے بعد زرینہ نے چائے کا کپ پکڑا اور صوفے پر بیٹھ کر سکون کا سانس لیا۔
صبح کا وقت بہت مصروف ہوتا تھا اور زرینہ جیسے ایک پیر پر ناچ رہی ہوتی تھی۔ ابھی بچوں کو ناشتہ دیا، کبھی شوہر کے کپڑے نکالے، کبھی بچوں کو وین میں بٹھایا تو کبھی شوہر کا لنچ پیک کیا، اور اسی دوران ماسی آتی اور برتن دھو کے چلی جاتی۔ زرینہ کو پتا ہی نہ چلتا۔
اب سب کے جانے کے بعد زرینہ نے ذہن میں دن بھر کے کاموں کی فہرست بنائی۔ ابھی اس کے پاس پورے دو گھنٹے تھے کہ اطمینان سے اپنا کوئی کام کرلے، جیسے قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھے بہت دن ہوگئے تھے، یا پھر ایک شلوار سینے کے لیے رکھی تھی، پھر اس کا نیا سوٹ بالکل تیار ہوجاتا۔ بہت دن سے اس نے اپنی بیوٹی کیئر بھی نہیں کی تھی، یہ کام بھی ہوسکتا تھا، ورنہ پھر تو اس کو دن بھر کے کاموں میں وقت نہ ملتا۔
سوچتے سوچتے زرینہ نے صوفے کی میز کے پاس پڑا موبائل اٹھایا اور دیکھنے لگی۔ ارے یہ ریل، اس میں تو بیوٹی ٹپس بتا رہے ہیں، ارے یہ لڑکی تو کھانے کی ترکیب بتا رہی ہے چلو دیکھتی ہوں، رات میں ایسے ہی کھانا بناؤں گی… اوہو! رات کے ڈرامے کی قسط تو میں نے دیکھی ہی نہیں، چلو وہ دیکھ لیتی ہوں۔ تھوڑی دیر میں گھنٹی بجی۔ اِس وقت کون آگیا؟ زرینہ نے ہڑبڑا کر ٹائم دیکھا تو دو بج گئے تھے اور بچے گھر آگئے تھے۔