اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے ان کی پسلی سے اماں حوّا کو پیدا کیا، اور دونوں کو نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک کردیا۔ سورہ النساء کی پہلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک مرد اور اسی سے اس کی جورو کو پیدا کیا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیے۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رشتوں کا لحاظ رکھو، اللہ تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ سورہ آلِ عمران اور سورہ اِحزاب کی جو دو آیات پڑھی جاتی ہیں اُن میں بھی تقویٰ کو رشتوں کے استحکام اور ازدواجی زندگی کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ نبیِ مہربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت علیؓ کے ساتھ انہی آیات کی تلاوت کے بعد رشتۂ ازدواج میں منسلک کیا۔ اسی طریقۂ نکاح مسنونہ کا 1400 سال گزرنے کے بعد بھی مسلم معاشرہ پابند ہے۔
تمام مذاہب اور انسانی برادری میں مختلف طریقوں سے رسمِ شادی ادا کی جاتی ہے۔ مگر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہود ونصاریٰ اپنی عبادت گاہوں میں بہت محدود تعداد میں مہمانوں کی موجودگی میں سادگی کے ساتھ شادی کی رسومات ادا کرتے ہیں، جبکہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں یہ تقریبات ثقافتی اور علاقائی تنوع کی وجہ سے مختلف انداز میں منائی جاتی ہیں جس میں لہو و لعب اور بے ہودگیاں شامل ہوتی ہیں۔ مسلم معاشرہ بھی اب اس سے خالی نہیں رہا۔
میری اس تحریر کا موضوع برصغیر ہند و پاک اور بنگلادیش میں مسلم معاشرے میں نکاح اور شادی میں در آنے والے جاہلی رسم و رواج ہیں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں ہندوؤں کی شادی کی رسومات کے بہت زیادہ اثرات موجود ہیں، بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح خوانی کے سوا تمام کی تمام رسومات ہندوانہ طریقہ کار کے مطابق ادا کی جاتی ہیں۔
نکاحِ مسنونہ کے دو فرائض ہیں: ایجاب و قبول، حق مہر۔ اور سنت ہے: دعوتِ ولیمہ۔ جہیز کی کوئی حیثیت نہیں، اگر والدین اپنی خوشی سے اپنی بیٹی کو کچھ دے دیں تو ان کی مرضی۔
ہندوستان میں تو مسلمان جہیز کے حوالے سے لڑکے کی تعلیم اور نوکری کی نوعیت کے مطابق لڑکی والوں سے بڑی رقم اور جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے غریب والدین یا تو مقروض ہوجاتے ہیں یا پھر بیٹیاں گھروں میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوجاتی ہیں، اس کے علاوہ جدیدیت کے اثرات کی وجہ سے غلط راستوں پر چل پڑتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شادی کو آسان بناؤ۔‘‘ وہی شادی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے جو شریعتِ محمدی کے مطابق کی جائے۔ مگر افسوس کہ آج تینوں ملکوں میں یہ شادیاں نکاح کی تقریب کے بعد لہو و لعب سے پُر ہوتی ہیں۔ بارات میں سیکڑوں لوگوں کی شرکت، ڈھول باجے، ناچ گانے، اور زرق برق لباس میں بے پردہ خواتین کی موجودگی میں شادی ہال میں ہالی وڈ کی طرز پر فلم بندی، ذومعنی تیز موسیقی کے ساتھ کان کو پھاڑ ڈالنے والے گانے، اس پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ساتھ پختہ عمر کے لوگوں کا رقص، رقصِ ابلیس کے سوا کچھ نہیں۔ غیرت اور عزت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دلہن کو پردے میں رخصت کیا جائے۔ اس کے بجائے محرم اور غیر محرم کی موجودگی میں ناپسندیدہ انداز میں فلم بندی کرنا شیطان کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ زیادہ تر شادی ہالوں میں کھانے کی میزوں پر مخلوط نشستیں ہوتی ہیں جہاں نہایت بے شرمی کے ساتھ عورتیں غیر مردوں کے سامنے بے حجاب دھڑلے سے کھاتی ہیں۔ اکا دکا اگر کوئی خاتون باحجاب ہوتی ہے تو اس کی حالت دیدنی ہوتی ہے جیسے کوّوں کی محفل میں کوئی بگلا آگیا ہو۔ اس سے اچھے خاصے مذہبی لوگ بھی مبرا نہیں، ذکر کرو تو خاتونِ خانہ کے سامنے بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو بارات اور نکاح کے بعد جدید اسلحے سے خوشی کے نام پر بے مہار فائرنگ کی جاتی ہے۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ کئی اموات ہوجاتی ہیں اور خوشی کا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ شان و شوکت اور دکھاوے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے لگائے جاتے ہیں جو بعد میں ڈسٹ بن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ نمود و نمائش والی ان شادیوں میں جتنا بے جا خرچ ہوتا ہے اگر سادگی سے کام لیا جائے تو درجنوں غریب بچیوں کی شادیاں کروائی جا سکتی ہیں۔ میرے ذہن میں اپنے بچپن اور جوانی کی شادی کی تقریبات کے احوال اب بھی موجود ہیں جن کا تذکرہ خوش گوار ہوگا۔ جب کبھی دور دراز گاؤں میں بارات میں جانے کا اتفاق ہوا تو ہم نے دیکھا کہ بارات سر شام پہنچ گئی، فوراً دلہن کے گھر والوں نے ناشتے اور شربت سے تواضع کی۔ مغرب کے بعد سادگی سے نکاح کی تقریب ہوئی اور دولہا، دلہن کی جانب سے سہرے کے دعائیہ گیت گائے گئے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد ادبی محفل کا اہتمام ہوتا اور دونوں جانب سے شعر و شاعری کے مقابلے کے ساتھ ساتھ سوال و جواب کے مقابلے ہوتے۔ رات گئے تک یہ محفل جمی رہتی۔ رات کے آخری پہر، صبح سے ذرا پہلے دولہا کو دلہن کے گھر ساس اور دیگر خواتین سے تعارف اور تحفے تحائف دینے کے لیے لے جایا جاتا۔ پھر بعد میں صبح ناشتے کے بعد اگر سفر لمبا ہوتا تو دلہن والے باراتیوں کے لیے دوپہر کا کھانا بھی دیتے، دلہن کو ڈولی میں کہار لے کر چلتے جو اکثر دوڑتے ہوئے دلکی چال چلتے۔ ڈولی کے ساتھ دلہن کا بھائی اور دولہا کا کوئی رشتے دار کہاروں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔
اسلام جہاں جہاں گیا، وہاں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ تمام جاہلانہ رسوم و رواج کو ختم کردیا، مگر برصغیر ہند و پاک اور بنگلادیش میں یہاں کے رسوم و رواج کو اپنا لیا گیا۔ ایک عجیب بات جو عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہندوؤں کی طرح مایوں، مہندی اور بارات میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جو قرآن وسنت کی تعلیمات کے برخلاف ہوتی ہیں۔ مگر جب بیٹی کو رخصت کرتے ہیں تو اُس کے سر پر قرآن مجید رکھ کر یعنی قرآن مجید کے سائے میں رخصت کرتے ہیں۔ گویا شیطان بھی خوش اور رحمن بھی خوش۔
پہلے میاں بیوی مرنے کے بعد جدا ہوتے تھے، زندگی بھر کا بندھن ہوتا تھا، مگر آج کل تو طلاق و خلع کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ طلاق و خلع کو جائز ہونے کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ پرنالہ اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے، مچھلی سر کی طرف سے سڑتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خرافات یعنی فیشن سے لے کر تقریبات میں لہوولعب تک دولت مند اشرافیہ شروع کرتی ہے، اور اس کو فلموں کے ذریعے عام کیا جاتا ہے، اور غریبوں کی اکثریت نقالی کرنے میں دیوالیہ ہوجاتی ہے۔
چنوں ماموں کی شادی ہوئی، ابا مقروض ہوگئے۔ چند مہینے بعد بیوی کا زیور بیچنا پڑا… سسرال والوں سے پھڈا شروع ہوگیا۔ تنگ آکر دلہن کو خلع لینا پڑی۔
آج سب سے زیادہ فیملی کورٹ میں طلاق و خلع اور نان و نفقہ کے مقدمات درج ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیطانی رسوم و رواج کے ساتھ کی گئی شادیوں میں اللہ کی برکت شاملِ حال نہیں ہوتی۔
ایک بڑی مشہور روایت ہے کہ شیطان اپنے اُس شاگرد کو انعام سے نوازتا ہے جو میاں بیوی میں علیحدگی کروا کر اپنی کارکردگی پیش کرتا ہے۔ ایک اور وجہ بے برکتی کی یہ ہے کہ شادی کے چند مہینوں بعد ہی بیٹا ماں باپ کو چھوڑ کر علیحدہ ہوجاتا ہے۔
’’پرندوں کے پَر نکلے، والدین اکیلے رہ گئے‘‘ کے مصداق جدیدیت کے شیطانی عمل نے گھروں کا سکون اور اطمینان برباد کردیا ہے۔