ہمارے معاشرے میں ایک سب سے اہم اور بڑا مسئلہ مذہب یا دین کے احکامات اور تعلیمات کا فرد کی زندگی میں عملی نفاذ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ قولی سطح پر مسلمان کہلانے کے باوجود عملاً ہمارے معاملات، دین اور اس کی تعلیمات کی پیروی کی ترجمانی نہیں کرتے۔ زبان اور قول و قرار سے تو بلاشبہہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اپنے دین سے ہماری محبت اور عقیدت بہت زیادہ ہے۔ ایک مذہبی اور دین دار آدمی کی شخصیت کو دوسروں کی نگاہوں میں جتنا پسندیدہ، بلکہ محبوب ہونا چاہیے، بہ ظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ بسا اوقات وہ خود بھی عام لوگوں کے درمیان کسی قدر اجنبی ہوجاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بندہ آزادی سے مذہب یا دین کو اختیار کرلیتا ہے تو دراصل وہ اپنی آزادی سے دست بردار ہوکر خود کو الٰہی احکامات کے تابع بنانے کا عہد کرلیتا ہے۔ کلمہ پڑھنے کا یہی مطلب ہے کہ بندہ ’عبد‘ ہے اور اللہ ’معبود‘ ہے۔ ’عبد‘ کے معنی غلام کے بھی ہیں اور بندے کے بھی۔ اسی لیے جب غلام خود کو آقا کے تابع فرمان بنائے تو پھر آقا کے احکامات کی تعمیل اس پر لازم ہوجاتی ہے۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ غلام، آقا کو آقا بھی تسلیم کرے، عبد، معبود کو معبود بھی مانے اور ماننے کے باوجود غلام، آقا کے احکامات پر عمل پیرا نہ ہو، اور عبد، معبود کی عبادت نہ کرے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ ماننے کے باوجود کہ ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘، اللہ کی عبادت سے ارادی یا غیر ارادی گریز کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ ’ماننا‘ حقیقی معنوں میں ماننا ہے ہی نہیں۔ اس لیے کہ یہ اقرار و اعلان ایک طرح سے ایک عہد اور ایک وعدہ ہے، جسے ہر صورت میں وفا ہونا چاہیے، لیکن اگر اعلان کرنے والا خود اپنے ہی وعدے کو وفا نہیں کرتا تو پھر یہ بے عملی ہے، غفلت بھی ہے اور دین کے احکامات کو ماننے سے عملاً انکار و انحراف بھی۔
کیا ایسے بندے یا غلام کی بندگی اور غلامی مستند اور لائقِ اعتنا ہے؟ یقیناً نہیں۔
یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ بندہ زبان سے اقرار و اعتراف کرکے اور دل سے اللہ کی بڑائی اور معبود کو لائقِ عبادت ماننے کے باوجود اپنے عمل سے اس کی گواہی کیوں نہیں دیتا؟ اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کیوں نہیں کرتا؟
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان میں ایک کمزوری نسیان، یعنی بھول جانے کی ہے کہ وہ جو وعدہ یا عہد کرتا ہے، اسے بھول بھی جاتا ہے۔ بھولنے کی وجہ اس کے بشری تقاضے ہیں مثلاً بھوک، شہوت، عیش و آرام کی زندگی، وہ چیزیں جن سے لذّت اور مسرت ملتی ہے جیسے شہرت، اختیار و اقتدار وغیرہ۔ جب انسان اپنے بشری تقاضوں کو اپنے ذہن، اپنے جذبات و احساسات میں رچا بسا لینے پر خود کو مجبور پاتاہے اور وہ ان تقاضوں کی جائز یا ناجائز طریقوں سے تکمیل میں لگ جاتا ہے تو فطری طور پر اس وعدے یا عہد کو بھول جاتا ہے، جو اس نے کلمہ پڑھ کر خود کو دین میں داخل کیا تھا اور خود کو یہ کہہ کر اپنے دین، اپنے اللہ اور اپنے پیغمبرؐ کے حوالے کیا تھا کہ وہ اپنی عبادات اور اپنے معاملات میں ان احکامات کی پابندی کرے گا۔
اس سے پتا چلا کہ انسان کا کیا ہوا وعدہ کچھ لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور اس کے بشری تقاضے زندہ اور حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ وعدے کی خلاف ورزی سے اسے کسی فوری نقصان کے پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جب کہ بشری تقاضوں کو پورا نہ کرنے سے اسے یا اس سے وابستہ افراد کو بھوک، پیاس، بیماری، موت، عزّت و شہرت اور دولت یا اس طرح کی دوسری محرومیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور پڑتا بھی ہے۔ ویسے بھی انسان کے وجود کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ اکثر و بیش تر اعمال: اپنی خواہشات اور اس کے تقاضوں کے زیرِ اثر کرتا ہے۔ انسان عموماً کسی قول و قرار کا پابند ہوکر زندگی نہیں گزارتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ماننے کے باوجود اپنے مذاہب کی تعلیمات کے چند ایک اجزا پر تو عمل کرتی ہے (اور یہ عمل بھی خود کو یہ یقین دلانے کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مذہبی ہے، لامذہبی نہیں) لیکن اپنے مذہب اور دین کے تمام تو کیا زیادہ تر احکامات اور تعلیمات سے دور یا لاتعلق یا بے خبر ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال جس میں انسان ہمیں کم زور، بے بس، اور بے عمل نظر آتاہے، اگر اسے دین کی طرف لانے کی کوشش کی جائے تو وہ کیا طریقے ہوسکتے ہیں، جن کو اختیار کرکے اسے دین یا مذہب کی طرف لایا جاسکتا ہے۔
وعظ و نصیحت اور تلقین سے الحمدللہ ایک بڑی تعداد میں لوگ راہِ راست پر آتے ہیں۔ دینی عبادات مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ پر عمل کرتے ہیں اور ایک تعداد اپنی وضع قطع میں بھی مذہبی حوالے سے مثبت تبدیلی لے آتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے بہت سوں کے باقی معاملات اسی دنیاوی (سیکولر) طریقے کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔ ان میں وہ اوصاف پیدا نہیں ہوپاتے جن سے یہ پتا چلتا ہو کہ اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کے مطابق انھوں نے اپنے معاملات کو استوار کرلیا ہے۔
ایسے مذہبی لوگوں سے کوتاہی فرض عبادات میں تو مشکل ہی سے ہوتی ہے، اور ہوتی بھی ہے تو وہ اس کی تلافی کرلیتے ہیں۔ اصل کوتاہی اور خواہشات کی اطاعت وہاں ہوتی ہے، جہاں ان کا واسطہ بندوں سے پڑتا ہے، خواہ وہ باپ اور بیٹے، ماں بہن اور بیوی کی حیثیت میں ہو، رشتے داروں سے رشتے داری نبھانے کا معاملہ ہو، پڑوسی کی حیثیت سے پڑوسی کے ساتھ سلوک و برتاؤ کی صورت ہو، ملازم کی حیثیت سے اپنے دفتری فرائض اور تاجر کے طور پر کاروباری تقاضوں کا تعلق ہو، یا ایک شہری کی حیثیت سے اپنے قوم و ملک کے حقوق ادا کرنے کے تقاضے ہوں.. وہ ہرحیثیت میں اپنی خواہشات اور ترغیبات کو ترجیح دینے پر آمادہ نظر آتا ہے، اور یہ آمادگی اکثر صورتوں میں، اِن معاملات میں اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کو فراموش کرنے پر جاپہنچتی ہے۔
ایک لامذہب اور ملحد شخص اگر ایسا کرے تو اسے صرف بُرا آدمی، خودغرض، مفادپرست، لالچی اور منافق کہہ کر اس کے بارے میں ایک رائے قائم کرلی جاتی ہے اور اسی رائے کی روشنی میں اس سے معاملہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ایک پابند ِ صوم و صلوٰۃ انسان جس نے حج بھی کررکھا ہو اور وضع قطع بھی مذہبی انسان کی ہو، جب ان معاملات میں کہ جن کا تعلق بندوں سے ہوتا ہے: اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات اور احکامات کو چھوڑ کر جب اپنی خواہشات کی اطاعت کرتا ہے، تو ایسا آدمی دوسروں کی نظر میں بُرا تو ٹھیرتا ہی ہے مگر اس سے بڑھ کر وہ اس مذہب یا دین کا بھی غلط نمائندہ بن جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس فرد کے دائرۂ تعارف میں لوگ پہلے اس مذہبی آدمی سے بیزار ہوتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اگر مذہب انسان کو اچھا انسان بناسکتا تو سارے یا واضح طور پر اکثر مذہبی لوگوں کو اچھا ہی ہونا چاہیے تھا۔
مراد یہ ہے کہ صحیح معنوں میں مذہبی آدمی وہ ہے یا اسے ہونا چاہیے، جو بہ حیثیت انسان بھی اچھا ہو۔ اگر مذہبی آدمی میں مطلوب انسانی خوبیاں نہ ہوں تو اُس کی مذہبیت معاشرے پر مثبت طریق سے اثرانداز نہیں ہوسکے گی، بلکہ اُلٹا دین اور مذہب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے آج کے معاشرے میں وہ لوگ کہ جن کی پہچان دین کے حوالے سے ہے، انھیں سوچنا چاہیے کہ ان پر کتنی بھاری ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان کے لیے دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں:
اول: مذہبی ہونے کے ساتھ ہی اچھے انسان بننے کی شعوری اور عملی کوشش شروع کردیں۔ دین، باطن اور ظاہر دونوں کا مجموعہ ہے۔ پھل میں جو اہمیت گودے کی ہوتی ہے وہی باطن کی ہوتی ہے۔
دوم: دینی احساسات کے تحت خود کو اچھا انسان بنائیں، بندوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں محتاط، حساس اور چوکنا ہوجائیں۔
یورپ میں ایک ہزار سال تک عیسائیت کا غلبہ رہا۔ لیکن عیسائیت کی نمائندگی کرنے والوں نے اپنی غلط کاریوں سے اپنے مذہب کو وہ نقصان پہنچایا کہ لوگ خود مذہب ہی سے بیزار ہوگئے۔ نتیجے میں اہلِ مغرب نے اپنے اجتماعی معاملات سے اپنے مذہب کو نکال کر گرجا گھروں کی حد تک محدود کردیا اور مذہب کو ایک ایسی پرائیویٹ چیز بنادیا کہ جس کی پابندی ضروری نہیں رہی۔ اندیشہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں مذہبی پیروکاروں اور نمائندگی کے دعوے داروں نے اس منظرنامے سے سبق نہ سیکھا تو (خدا نہ کرے) یہاں بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی۔