وقت کم، مقابلہ سخت

151

وقت کم ہے، بہت کم۔ وقت سب کو یکساں تناسب سے ملتا ہے، مگر اِس کا احساس سب کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ جو تیاری کے قائل ہی نہیں اُن کے لیے وقت کی کوئی وقعت نہیں۔ جنہیں ہر معاملے میں معقول ترین تیاری اچھی لگتی ہے وہ ایک ایک پل کو سینت سینت کر بروئے کار لاتے ہیں۔ وقت کے معاملے میں انسان کا رویہ ہی طے کرتا ہے کہ وہ زندگی کس طور گزارنا پسند کرے گا اور گزارے گا۔
دنیا کے ہر انسان کے لیے وقت کا ادراک مختلف ہے، اِس لیے وقت کو بروئے کار لانے کے طریقوں میں بھی ہمیں غیر معمولی اختلاف اور تنوع دکھائی دیتا ہے۔ کوئی وقت کو سوچے سمجھے بغیر صرف کرتا یعنی ضایع کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کے معاملے میں مجموعی طور پر یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ وہ وقت کو اپنے ہاتھوں سے نکلنے دینا ہی نہیں چاہتا۔
ہم اپنے ماحول اور باقی دنیا میں جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ سب وقت کو برتنے کے انداز ہی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اور جو اقوام وقت کو اہمیت دیتی رہی ہیں وہ آج بلندی پر ہیں، اور جنہوں نے وقت کو ہمیشہ بے وقعت اور مفت کا مال سمجھا وہ آج بے مثال پستی کی زد میں ہیں۔ یہ فرق اِتنا زیادہ ہے کہ اب کم ہوتا دکھائی دیتا نہیں۔ کتنا ہی سوچیے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آج جو اقوام بہت پیچھے رہ گئی ہیں وہ آگے کیونکر آسکیں گی۔ زندگی کی نوعیت ایسی عجیب ہوگئی ہے کہ اب بہت کچھ ممکنات کے دائرے میں ہو تو بھی ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔ پستی نے بیسیوں اقوام کو اِس طور جکڑ رکھا ہے کہ اُن کے پاس انتہائی مجبوری اور پس ماندگی کی حالت میں جینے کے سوا آپشن نہیں رہا۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، مانیں یا نہ مانیں، سچ بہرحال یہ ہے کہ جو لوگ وقت کو بے وقعت سمجھتے ہیں وہ بالآخر بے وقعت ہورہتے ہیں۔ ہمارا اپنا بھی یہی کیس ہے۔
سارا معاملہ اور سارا کھیل صرف اور صرف وقت کا ہے۔ وقت ہی ہماری حتمی دُنیوی دولت ہے۔ سب کو یکساں تناسب سے ملنے والا وقت ہی طے کرتا ہے کہ اُس کے لیے دنیا اور آخرت میں کیا ہے۔ دنیا اُنہی کو ملتی ہے جو منصوبہ سازی کے تحت پوری تیاری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر دنیا میں بلند مقام ملا ہو تو انسان یا معاشرہ اپنی آخرت کو بھی سنوارنے کا اہتمام کرسکتا ہے۔ یہ دونوں معاملات اگرچہ لازمی طور پر جُڑے ہوئے نہیں ہیں مگر پھر بھی دیکھا یہی گیا ہے کہ جو لوگ دنیا میں ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں وہی اپنے لیے آخرت میں بھی کچھ کر پانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ دنیا کی کامیابی شہرت اور دولت ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے نیک نیتی کے ساتھ زندہ رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہو تو دنیوی شہرت اور دولت کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرکے آخرت میں اپنے لیے کچھ اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسا کرتے دکھائی بھی دیتے ہیں۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر ایک ہی تقاضا کرتی ہے… وقت کو بہت سوچ سمجھ کر بروئے کار لائیں، اِس طور جیا جائے کہ اپنا بھی بھلا ہو اور دوسروں کا بھی۔ ہم اس دنیا میں صرف اس لیے نہیں بھیجے گئے کہ کسی نہ کسی طور جی کر یہاں سے چل دیں۔ ہمیں یہاں اِس طور جینا ہے کہ اپنا بھی بھلا کریں اور دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہمارے جینے میں معنویت ہو، دوسروں سے اشتراکِ عمل کی گنجائش ہو، دوسروں کا بھلا کرنے کی ذہنیت نمایاں ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے زندہ رہنے کو ترجیح دیتے رہیں۔
بہت سوں کے ذہن میں یہ شدید غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے، اس لیے یہاں کسی بھی معاملے میں بھرپور دلچسپی نہیں لینی چاہیے، بے رغبتی کو شعار بناتے ہوئے جینا چاہیے۔ یہ غلط فہمی انسان کی دنیا کو بھی تباہ کرتی ہے اور آخرت کو بھی۔ یہ دنیا واقعی دل لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ اللہ نے اپنے کلام میں بھی کہا ہے کہ یہ دنیا دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ مگر سوال دھوکے سے محض بچنے اور اُسے نظرانداز کرنے کا نہیں بلکہ اِس دھوکے کی جگہ کو اپنے مفاد میں بروئے کار لانے کا ہے۔ دنیا کو نظرانداز کرنا کسی بھی اعتبار سے درست قدم نہیں۔ ہمیں اِس دنیا کو قبول کرتے ہوئے اِس کا حصہ بننے سے گریز بھی کرنا ہے۔ ہمیں اِس دنیا میں گزارنے کے لیے وقت اِس لیے نہیں دیا گیا کہ ہم بیزاری کے ساتھ یہاں رہیں اور منہ بسورتے ہوئے یہاں سے جائیں۔ جو صلاحیتیں اللہ نے عطا فرمائی ہیں اُنہیں اللہ کی رضا کے لیے کام پر لگانا ہے۔ ہم اِس دنیا کا جتنا بھلا کرسکتے ہیں ضرور کریں اور اپنا بھلا بھی کریں۔ ہاں، آخرت قدم قدم پر ذہن نشین رہنی چاہیے۔ جو لوگ آخرت کو نہیں بھولتے اُنہیں اللہ تعالیٰ بھی نہیں بھولتے اور آخرت میں عظیم اجر عطا فرماتے ہیں۔
اِس دنیا میں وہی لوگ حقیقی معنوں میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو وقت کو سمجھنے کی کوشش کریں، معقولیت کے ساتھ وقت کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوں۔ اِس کے لیے سوچ بدلنا پڑتی ہے۔ ہر اُس انسان کو آپ بھرپور کامیابی سے ہم کنار پائیں گے جس نے وقت کو سمجھا، اپنی ذمہ داریوں کو پہچانا اور وقت کو اِس طور بروئے کار لانے کی کوشش کی کہ دنیا کی نظر میں بھی بلند ہو اور آخرت کے حوالے سے بھی بات خراب نہ ہو۔ دنیا میں گم ہوکر نہیں رہنا ہے مگر یہاں جب تک قیام ہے تب تک اپنے فرائض سے غافل نہیں ہونا ہے۔ وقت اِس لیے ملا ہے کہ پوری توجہ اور دلچسپی کے ساتھ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کی جائے، دنیا سے متعلق تمام فرائض نبھانے کی کوشش کی جائے اور آخرت کے تقاضوں کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کو ذہن نشین رکھنا ہے۔ جو آخرت کو نہ بھولتا ہو وہ بالآخر دنیا میں بھی کامیاب ٹھیرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں دنیا اور آخرت کے حوالے سے جو فرائض سونپے ہیں وہ ادا کرنے کی بھرپور، دیانت دارانہ کوشش بجائے خود کامیابی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کسی نے دُنیوی دولت کس حد تک حاصل کی، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ پوری دیانت اور جاں فشانی سے، اللہ سے ڈرتے ہوئے جینے کے دوران کیا ملا ہے، اور جو کچھ بھی ملا ہے اُسے اللہ کی راہ میں کس طور خرچ کیا گیا ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ قدم قدم پر ایسی چیزوں اور باتوں میں الجھا ہوا ہے جن کا معقول طرزِ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگ وقت کو مفت کا مال سمجھ کر اُڑانے میں مصروف ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے عمر تمام ہوجاتی ہے اور آخر میں صرف رونا پیٹنا رہ جاتا ہے۔ آپ اگر معاشرے کو گہری نظر سے دیکھیں تو قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے عمر کے کسی بھی مرحلے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہ کی، وقت کو دونوں ہاتھوں سے لُٹاتے رہے، اور جب پانی سر سے گزر گیا تو رونے بیٹھ گئے۔ ایسے لوگ عمر کے آخری حصے میں رونے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔
وقت کے معاملے میں بیدار مغز ہوئے بغیر کسی نے کبھی معیاری زندگی بسر نہیں کی۔ اِس دنیا میں کامیابی صرف اُن کے لیے ہے جو وقت کو سمجھنے کے معاملے میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور وقت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں انتہائی درجہ محتاط رہتے ہیں۔ بھری دنیا میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جس نے وقت جی بھرکے برباد کیا ہو اور دنیا نے اُسے کامیاب قرار دیا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور ملنے والی بھرپور کامیابی کو بھی وقت کے معاملے میں برتی جانے والی لاپروائی لے ڈوبتی ہے۔
آج دنیا بھر میں جتنی بھی ترقی دکھائی دے رہی ہے وہ صریح منصوبہ سازی کا نتیجہ ہے، اور منصوبہ سازی وہیں ہوتی ہے جہاں ذہنوں میں یہ تصور موجود ہو کہ وقت محدود ہے اِس لیے اِسے ڈھنگ سے، جامع منصوبہ سازی کے ساتھ بروئے کار لانا ہے۔ جس کسی فرد، معاشرے یا قوم نے وقت کے معاملے میں لاپروائی ترک کی اُس پر ترقی اور خوش حالی کی راہیں کھلیں۔ اپنے ماحول کو بغور دیکھیے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں، اُسے ضایع کرنے سے گریز کرتے ہیں وہ بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں، اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور یہ وقت گزر ہی جائے گا اور ہم اپنے بُرے وقت کو پچھاڑ ہی دیں گے وہ صرف ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ وقت کے معاملے میں ناقدری یا بے قدری کا رویہ انسان کو عمل سے دور کردیتا ہے۔ کام سے تو سبھی بھاگتے ہیں، جبکہ یہ حقیقت بھی اُن کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوتی کہ جو کچھ بھی آج ڈھنگ کا دکھائی دے رہا ہے وہ وقت کو ڈھنگ سے برتنے ہی کے نتیجے میں ہے۔
وقت ہم سے قدم قدم پر توجہ چاہتا ہے۔ ہم اس حقیقت کو عمومی سطح پر نظرانداز کیے رہتے ہیں کہ ہم ہر چیز کو دوبارہ یا کئی بار حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہماری ساری دولت اور املاک تباہ بھی ہوجائیں تو کبھی نہ کبھی دوبارہ ملنے کا امکان باقی رہتا ہے۔ صحت کو بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔ بیماری سے بچنے کی تدبیر بھی کی جاسکتی ہے، مگر وقت کی دولت ایک بار ہاتھ سے گئی تو بس گئی۔ اُس کے دوبارہ ہاتھ آنے کا کسی بھی اعتبار سے کوئی امکان نہیں۔ کیا ایسے میں کسی بھی سطح پر وقت کے بارے میں غفلت کا ارتکاب موزوں اور معقول ہوسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔
قوم کو پس ماندگی کی دلدل سے نکالنے کے لیے وقت کے بارے میں اُس کے تصور یا تصورات کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا، اور اِس کے لیے منصوبہ سازی بھی ہمہ گیر نوعیت کی چاہیے۔ بچوں کو اگر وقت کے بارے میں سکھایا جاتا رہے تو وہ عملی زندگی میں بہت حد تک منظم رہتے ہیں یا کم از کم منظم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئی نسل کو اس حوالے سے خاص طور پر تربیت کی ضرورت ہے۔ اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم مکمل کرنے کے بعد جو لڑکیاں اور لڑکے عملی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اُن کی موزوں راہ نمائی لازم ہے۔ جدید ترین اور کیریئر سے مطابقت رکھنے والے علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت اپنی جگہ اور ذہنی تربیت اپنی جگہ۔ جب تک معقول تربیت نہ کی گئی ہو تب تک نئی نسل اپنے آپ کو ڈھنگ سے کماحقہٗ منوا نہیں سکتی۔ ڈھنگ سے تربیت کا ایک ہی مطلب ہے… نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ باقی سب کی طرح اُس کے لیے بھی وقت ہی سب کچھ ہے۔ جب نئی نسل اس بات کو سمجھ لیتی ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے تو وہ معقول فیصلے کرتی ہے۔ کیریئر کے انتخاب کا مرحلہ بھی موزونیت کے ساتھ ساتھ ٹائمنگ کا طالب ہوتا ہے۔ کسی بھی کام کو انجام تک پہنچانے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر وہ وقت نکل جائے تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہم پھر اِن خرابیوں کو پنپتے ہوئے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں صرف ایک مسئلہ ہے … وقت بہت کم ہے۔ اور یہ مسئلہ دن بہ دن زیادہ سے زیادہ اِس لیے الجھتا جارہا ہے کہ وقت تیزی سے گھٹ رہا ہے۔ آج کے انسان کو بہت سے معاملات دیکھنے ہیں۔ اُسے زمانے بھر کی معلومات کے سمندر سے اپنے مطلب کا موتی ڈھونڈ نکالنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو، انسان اس بات کو سمجھتا ہو کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا، اور جو کچھ بھی کرنا ہے صرف اور صرف موجودہ لمحے میں کرنا ہے۔ یہ دنیا کے ہر انسان کا مسئلہ ہے۔ نئی نسل کو ذرا زیادہ متوجہ ہونا پڑتا ہے کیونکہ کیریئر کی ابتدا کرتے وقت اُس پر ٹائمنگ اور فیصلوں کی موزونیت کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہوتا ہے۔ دنیا چونکہ تیزی سے بدل رہی ہے یعنی اِس کی رفتار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس لیے لازم ہوچکا ہے کہ نئی نسل اپنے آپ کو مختلف حوالوں سے کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار رکھے۔ اور ایک نئی نسل پر کیا موقوف ہے، یہ سب کچھ تو کم و بیش ہر انسان ہی کی ایک بنیادی ذمہ داری کا درجہ رکھتا ہے۔
آج کا پاکستان اُن چند بدنصیب معاشروں میں شامل ہے جنہوں نے شاید طے کر رکھا ہے کہ وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنا تو دور کی بات ہے، اِس حوالے سے سوچنا بھی نہیں ہے۔ وقت کی پابندی اور ہر کام کو اُس کے طے شدہ یا موزوں ترین وقت پر کرنے سے گریز ہمارے عمومی مزاج کا حصہ ہے۔ معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ وقت کو جس قدر چاہو برباد کرو، مزید مل جائے گا بلکہ ملتا رہے گا۔ اسکول کی سطح پر بچوں کو اگر وقت کی قدر و قیمت کے بارے میں پوری توجہ کے ساتھ بتایا جائے تو شاید کچھ ہو۔ نوجوانوں کو بھی اِس حوالے سے سکھانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یاد رکھنے کا نکتہ صرف یہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت، بلکہ بہت ہی سخت۔ ایسے میں وقت کے ضیاع کی ہر راہ مسدود کردی جانی چاہیے۔
nn

حصہ