دشمن کے جال

54

جمال اور کمال حسبِ معمول اسکول جانے سے پہلے صبح کا اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایسا وہ ناشتہ تیار ہونے سے پہلے ضرور کیا کرتے تھے۔ ان کی والدہ ان کے لیے ناشتہ تیار کررہی تھیں۔ ان کے گھر اپنے ملک میں شائع ہونے والے تین بڑے اخبار آیا کرتے تھے۔ دو اردو کے اور ایک انگلش کا۔ ان تینوں اخباروں کے ہفتہ وار میگزین میں کبھی کبھی وہ قصے کہانیاں بھی بھیج دیا کرتے تھے جو عام طور پر شائع بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ آج تینوں اخباروں میں ایک خبر جلی حروف میں شائع ہوئی تھی جسے کمال کسی حد تک بلند آواز میں پڑھ رہا تھا تاکہ جمال اور ان کی والدہ بھی سن سکیں۔ خبر کے مطابق ان کے ملک نے ایک ایسا مصنوعی سیارہ بلا کسی اشتراک، خلائوں میں چھوڑا تھا جو ایسے آلات لے کر زمین کے مدار میں پہنچا دیا گیا تھا جس سے نشر ہونے والے سگنل دنیا کے کسی بھی آلے سے ریسیو نہیں کیے جا سکتے تھے۔ گویا اس سے نشر ہونے والا کوئی بھی پیغام یا کوئی حساس رپورٹ یا کوئی بھی آڈیو ویڈیو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی کو بھی بھیجی جائے، یا جس کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کسی رپورٹ، پیغام، خواہ وہ موویز کی صورت میں ہو یا آڈیوز کی شکل میں، وہ اس سیارے کے ذریعے سیارے میں ریکارڈ بھی کرا سکتا تھا اور کسی اور کو بھیج بھی سکتا تھا۔ اس میں ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی اتنی گنجائش والی ہارڈ ڈسکس تھیں جن میں کئی دہائیوں تک کے تمام ریکارڈ محفوظ رکھے جا سکتے تھے، اور سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ پیمائش میں کسی میموری کارڈ سے بھی چھوٹی تھیں۔ سیارے کا حجم بھی ایک درمیانے درجے کی فٹ بال سے کچھ ہی زیادہ تھا، اور وہ ایسی دھات سے تیار کیا گیا تھا جو اب تک دریافت ہونے والی سب دھاتوں سے کم از کم دس گنا ہلکی اور پائیدار تھی۔ خبر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس دھات کے ذخیرے کا ابتدائی اندازہ بھی ہزاروں ٹن سے زیادہ ہے اور اب ان کا ملک اس دھات سے ہر قسم کی مشینوں، موٹر سائیکلوں، کاروں، بسوں، ہوائی جہازوں، یہاں تک کہ بحری جہازوں تک کو بنانے کے کارخانے بنائے گا، تاکہ ایسی تمام تیار کردہ اشیا نہایت ہلکی ہونے کی وجہ سے کم سے کم ایندھن میں زیادہ سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔

جب کمال نے یہ خبر بلند آواز میں سنائی تو والدہ بھی ایک لمحے کے لیے اپنے ہاتھ ہر کام سے روک کر نہایت غور سے اس خبر کو سننے لگیں اور خبر مکمل سن کر بہت خوشی کا اظہار کرنے لگیں۔ کمال نے دیکھا ان سب کی نسبت جمال اس خبر کو مسرت اور تفکر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سن رہا تھا اور خبر سننے کے بعد بھی اپنی والدہ کی طرح اس نے کسی قسم کے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بات کمال سے بھلا کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھی! یہ محسوس کرکے کمال بھی سوچنے لگا کہ عام طور پر ہم دونوں ایک ہی طرح سوچا کرتے ہیں، یہاں تک کہ کسی سے اگر کوئی سوال بھی کرنا ہوتا ہو تو میں ہوں یا جمال، دونوں کے دل میں ایک ہی جیسے سوالات اٹھا کرتے ہیں۔ سوچوں تک میں اتنی یکسانیت کسی بھی جڑواں بھائیوں میں کبھی دیکھی ہی نہیں گئی۔ یہ بھی ایک عظیم تحفہ تھا جو قدرت کی جانب سے انھیں دیا گیا تھا، لیکن کیا بات ہے کہ آج جو کچھ جس انداز میں مَیں سوچ رہا ہوں ٹھیک اسی انداز میں جمال کیوں نہیں سوچ رہا۔ میں خبر پڑھ کر بہت ہی خوش ہورہا ہوں لیکن لگتا ہے کہ جمال اس خبر کو کسی دوسرے رخ سے سن اور دیکھ رہا ہے۔ یہ سوچ کر کمال نے جمال سے پوچھا: ’’کیا بات ہے، تمہیں اس عظیم دریافت اور خبر پر خوشی تو ضرور ہورہی ہے لیکن اس خوشی سے کہیں زیادہ میں تمہاری آنکھوں میں تشویش کے آثار دیکھ رہا ہوں!‘‘

’’اب تمہارے اس طرح سوال کرنے پر ایک تشویش مجھے اور بھی ہورہی ہے‘‘، جمال نے کہا۔

’’میں اور تم ہمیشہ ایک ہی انداز میں سوچا کرتے تھے لیکن آج ایسا کیا ہوا کہ خبر سن کر میں جو کچھ محسوس کررہا ہوں یا سوچ رہا ہوں، ٹھیک اسی انداز میں تم محسوس نہیں کررہے ہو یا سوچ نہیں رہے ہو۔‘‘

جمال کے منہ سے یہ جواب سن کر جیسے کمال کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ اچانک اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔ سر کو جھٹک کر اس نے جمال سے کہا ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اب مجھے تمہاری تشویش سمجھ میں آرہی ہے۔ میں کیوں کہ خبر سنا رہا تھا اس لیے اس جانب دھیان ہی نہیں گیا۔ ہاں ہاں، تم جو کچھ بھی سوچ رہے ہو وہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ تم صحیح سوچ رہے ہو نا، کہ ایسی خبر اتنی تفصیل سے کھول کھول کر دنیا کے سامنے نہیں لانی چاہیے تھی۔ ہمارے ملک کے دشمن چاروں جانب سے ہمارے پیچھے پڑ سکتے ہیں۔ اس جدید دور میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ہمارے منفرد قسم کے اس مصنوعی سیارے کو خلا میں ہی تباہ کردیا جائے یا نقصان پہنچایا جائے۔ دھات کا وہ ذخیرہ جو ہمارے ملک کے ماہرین نے دریافت کیا ہے، پھر اسے خام سے حقیقت میں تبدیل کیا ہے، پھر جس رصدگاہ میں اسے تیار کیا ہے، جن سائنس دانوں نے ایسا سیارہ ایجاد کیا ہے، ان سب جگہوں اور ان سب ماہرین و سائنس دانوں کو نہ صرف تلاش کیا جائے گا، ان کو خریدنے کی کوشش کی جائے گی، ان کو اغوا یا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی بلکہ دریافت ہونے والی ایسی انوکھی و نایاب دھات کی جگہ تلاش کرکے یا تو اسے تلف کرنے کی کوشش کی جائے گی، یا پھر ایسے مقام پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہر دو صورتوں میں ناکامی پر یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے مقام کو کسی تابکاری کے ذریعے یا بمباری کرکے تباہ و برباد کردیا جائے۔‘‘ (جاری ہے)

حصہ