بلبل ہند داغ دہلوی

76

ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

کے خالق، حسن وعشق کے شاعر داغ دہلوی، جن کا نام نواب مرزا خان تھا، اردو کے اُن بڑے شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو ادب کو ایک نئی شناخت دی۔ داغؔ کی زندگی، شخصیت اور شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، وہ ہماری روایت اور تہذیب کا تسلسل ہیں۔

داغؔ دہلوی کا کلام اردو زبان کی سادگی، فصاحت اور شگفتگی کا زندہ نمونہ ہے، اور یہ بات وہ خود بھی اچھی طرح جانتے تھے، اسی لیے کہا:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

ان کے اشعار میں بے ساختہ پن، شوخی اور بانکپن ملتا ہے۔ داغؔ کے ہاں زبان کی قدرت اس درجہ عروج پر نظر آتی ہے کہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ زبان کے سچّے عاشق اور بادشاہ تھے۔ ان کا کلام اردو کے روزمرہ اور محاورے کا ایسا خزانہ ہے جس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ دیگر شعرا نے بھی محاورے استعمال کیے، لیکن داغؔ کی طرح ان میں قدرتی روانی اور بے ساختگی کہیں اور نظر نہیں آتی، جس کا ذکر مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب ’’یادگارِ غالب‘‘ میں کیا ہے۔

داغ دہلوی 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب شمس الدین خان ایک معزز شخصیت تھے، مگر ان کی زندگی میں المناک موڑ اُس وقت آیا جب ان کے والد کا قتل ہوا۔ اس واقعے کی تفصیل یوں ہے کہ اُس زمانے میں دہلی کا ریزیڈنٹ ولیم فریزر، جو اپنی رنگین مزاجی کے لیے مشہور تھا، 22 مارچ 1835ء کو قتل کردیا گیا۔ ولیم فریزر اور شمس الدین خان کے درمیان جاگیر کے پس منظر میں اختلافات تھے۔ قتل کے الزام میں شمس الدین خان گرفتار ہوئے، ان پر مقدمہ چلا، اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی لاش ایک گھنٹے تک کشمیری دروازے پر لٹکتی رہی۔ اُس وقت نواب شمس الدین خان کی عمر صرف 25 سال تھی۔

مخمور سعیدی نے اپنی کتاب ’’ہندوستانی ادب کے معمار: داغ دہلوی‘‘ میں تمکین کاظمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ

’’مرزا غالب رشتے میں داغ کے پھوپھا تھے مگر ان کے والد کے دشمن تھے، چنانچہ مخبری کرکے شمس الدین خان کو پھانسی کے تختے پر پہنچانے والے غالب ہی تھے، لیکن داغ کے ساتھ غالب کے مراسم رہے، یہاں تک کہ وہ ان کے ساتھ شطرنج کھیلتے تھے‘‘۔

اس واقعے کے بعد داغ کی والدہ وزیر بیگم اور ان کی دوسری بیوی چھوٹی بیگم، انہیں لے کر رامپور چلی گئیں۔ وزیر بیگم کی عمر شادی کے وقت 17 سال تھی، اور شادی کے تقریباً ایک سال بعد 25 مئی 1831ء کو بدھ کے دن داغ دہلوی پیدا ہوئے۔ بعد میں داغؔ کی عمر 30 سال تھی جب ان کی والدہ کا نکاح دہلی کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ولی عہد مرزا محمد سلطان فتح الملک المعروف مرزا فخرو سے ہوگیا، جن کی عمر اُس وقت 25 سے 30 سال کے درمیان تھی۔

لال قلعے میں داغؔ کی پرورش ہوئی، جہاں ان کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا۔ انہیں مغل بیگمات، شہزادوں اور شہزادیوں کے طرزِ معاشرت، تہذیب و تمدن، رکھ رکھاؤ، اور آدابِ گفتگو سے قریبی واقفیت حاصل ہوئی۔ استادِ سخن مولانا ذوقؔ نے ان کے شعری ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کی۔ لال قلعے کی ٹکسالی زبان پر بھی انہیں مکمل عبور حاصل ہوا۔ تاہم، یہ مغلوں کے زوال کا دور تھا، جب سیاسی، سماجی اور اخلاقی حالت اپنی آخری حدوں کو پہنچ چکی تھی۔

جولائی 1856ء میں مرزا فخرو کے انتقال کے بعد داغؔ اور ان کی والدہ کو لال قلعہ چھوڑنا پڑا اور وہ اپنے والد نواب شمس الدین خان کے دیے ہوئے مکان میں، جو چھوٹی بیگم کا تھا اور چاندنی چوک میں واقع تھا، منتقل ہوگئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے ہنگاموں کے دوران حالات مزید خراب ہوگئے۔ ان کی والدہ کی مقررہ تنخواہ بھی بند کردی گئی، جس پر داغؔ نے اپنے جذبات یوں بیان کیے:

اے داغؔ اہلِ قلعہ کا لٹنا تو درکنار
تنخواہ تک خزانۂ شاہی میں رہ گئی

داغؔ اس صورتِ حال کا ذمہ دار اُن ہندوستانیوں کو سمجھتے تھے جنہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کیا۔ یہ حالات داغؔ کی زندگی اور ان کی شاعری پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے۔

بہادر شاہ ظفر کی معزولی کے بعد ہندوستان کی زمامِ اقتدار ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں میں آگئی، اور ملک میں ایک نیا سیاسی اور ثقافتی دور شروع ہوا۔ اس نئے عہد میں ریاست رامپور کے نواب یوسف علی خاں علماء، شعراء اور فنکاروں کے قدردان تھے اور خود بھی اردو کے فصیح و بلیغ شاعر تھے۔ اُن کا مرزا غالب سے شاگردی کا تعلق اُن کے علمی و ادبی شوق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

نواب یوسف علی خاں نے داغ دہلوی کی شخصیت اور شاعری کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کی خواہش پر داغؔ کو رامپور بلایا گیا، اور انہوں نے داغؔ کو اپنے بیٹے نواب کلب علی خاں کا استاد مقرر کیا۔ ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ داغؔ کی رامپور آمد میں ان کی خالہ کا کردار کلیدی تھا، جنہوں نے داغؔ کی پرورش کی تھی۔ ان کے خط کے ساتھ داغؔ رامپور پہنچے اور یوں یہ شہر ان کے فن کے فروغ کا مرکز بن گیا۔

داغؔ نے رامپور میں ایک طویل عرصہ گزارا اور اپنی ادبی سرگرمیوں کو پروان چڑھایا۔ نواب یوسف علی خاں کے انتقال کے بعد ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے حکومت سنبھالی۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح ادب کے دلدادہ اور خود ایک کہنہ مشق شاعر تھے، جن کا تخلص ’’نوابؔ‘‘ تھا۔ داغ دہلوی کی اہمیت اور حیثیت ان کے دور میں مزید بڑھ گئی۔ نواب کلب علی خاں نے داغ کو وہی عزت و احترام دیا جو اُن کے والد کا شیوہ تھا، اور یوں رامپور کا ادبی ماحول ایک نئی بلندی پر پہنچ گیا۔ داغؔ نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ حیدرآباد دکن میں گزارا، جہاں وہ نواب میر محبوب علی خاں کے دربار سے وابستہ رہے۔ حیدرآباد میں ان کی شاعری کو خاص پزیرائی ملی، اور وہ دربار کے مقبول شاعر بن گئے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کا کلام حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں پڑھا اور سراہا جاتا رہا۔

داغؔ دہلوی کے اشعار نہ صرف دہلی کی تاریخی اور تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اُس دور کے شہری اور ثقافتی منظرنامے کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشق کے لطیف جذبات، شوخی کا رنگ، اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے احساسات ملتے ہیں۔ داغ کے ہاں عاشقانہ مزاج اور کبھی کبھار بے راہ روی کے آثار بھی جھلکتے ہیں، لیکن ان کا حسنِ بیان ان تمام پہلوؤں کو دلکش بنادیتا ہے۔

داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، اور غزل ان کی محبوب صنفِ سخن رہی ہے۔ ان کے ہاں عشق کا درد، خوشی، بے قراری، اور وصال و فراق کے تمام رنگ پوری شدت کے ساتھ جھلکتے ہیں۔ داغؔ نے دیگر اصنافِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی اصل پہچان غزل ہی رہی۔

مرزا غالبؔ، داغؔ کی شخصیت اور شاعری کے معترف تھے۔ داغؔ خود بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے غالب کو اپنی غزل سنائی، تو غالب زانو پر ہاتھ مار کر بول اٹھے:

’’خدا نظرِ بد سے بچائے، صاحبزادے! تم نے تو کمال کردیا!‘‘
یہ اعتراف داغؔ کے شعری کمال کی سب سے بڑی گواہی ہے۔

اقبال نہ صرف داغؔ کی شخصیت بلکہ اُن کی شاعری کے بھی بڑے مداح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ داغؔ کی وفات پر اقبال نے جو مرثیہ کہا ہے اس میں انہیں جہاں آباد کا آخری شاعر قرار دیا ہے:

آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے

جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال نے داغؔ کی زندگی ہی میں قبولِ عام کا وہ درجہ حاصل کرلیا تھا کہ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی‘‘۔

حالی نے داغ دہلوی کی شاعری کو اردو غزل کا نیا معیار قرار دیا۔ ان کے مطابق: داغؔ کی شاعری میں زبان کی صفائی، اور الفاظ کے چناؤ میں خاص مہارت نظر آتی ہے۔ حالی نے اپنی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں لکھا:

’’داغ دہلوی کی شاعری نے اردو غزل کو وہ دلکشی بخشی ہے جوآج بھی پڑھنے والوں کو محظوظ کرتی ہے‘‘۔

داغؔ کی حسِ مزاح غیر معمولی تھی۔ ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان کے شاگرد نواب عبداللہ خاں مطلبؔ نے کہا:

’’استاد آپ جارہے ہیں۔ جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جائیے‘‘۔ یہ سن کر داغؔ نے بلا تامل کہا:

’’داغ کیا کم ہے نشانی کا، یہی یاد رہے‘‘۔
داغ دہلوی کے شاگردوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، جن میں علامہ اقبال، جگر مرادآبادی، اور سیماب اکبرآبادی سمیت شاگردوں کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی جاتی ہے، لیکن ان کے ممتاز شاگرد نوح ناروی جو داغؔ کی وفات کے بعد ان کے جانشین بھی کہلائے، اس تعداد کو مبالغہ انگیزی قرار دیتے ہیں، اُن کے مطابق دو ہزار تک شاگرد ہوں گے۔

داغ دہلوی کی شاعری محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک عہد کی تہذیب، ثقافت اور احساسات کا آئینہ ہے۔ ان کا کلام آج بھی اردو ادب کے دامن میں ایک بے بہا موتی کی طرح جگمگا رہا ہے۔ انہوں نے ہزاروں اشعار کہے اور ان کے دیوان کو اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان کے چند مشہور اشعار یہ ہیں:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا

شبِ وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا

فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے

داغ دہلوی کی شاعری اردو ادب کا ایک انمول خزانہ ہے۔ ان کی شخصیت اور کلام پر متعدد ادباء اور شعراء نے اظہارِ خیال کیا، جس سے ان کی عظمت اور اردو ادب میں ان کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا کلام آج بھی اردو ادب کے شائقین کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

ایک روایت کے مطابق داغؔ ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ انہیں حج کے دن موت آئے اور ان کی نمازِ جنازہ عید کی نماز کے ساتھ ہو۔ قسمت نے ان کی یہ آرزو بھی پوری کردی۔ 9 ذی الحجہ 1322 ہجری، عیدالاضحی کے دن، ان کی روح اِس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئی۔ ان کی نماز جنازہ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ادا کی گئی، اور یوں داغؔ کی آخری آرام گاہ درگاہ حضرت یوسفینؒ کے صحن میں بنائی گئی۔ یہ عظیم شاعر، جو دہلی کی مٹی سے اٹھا، حیدرآباد کی مٹی میں جا سویا، لیکن اس کی شاعری آج بھی دلوں میں زندہ ہے اور رہے گی۔ کہاں کی مٹی کہاں لے گئی اور کہاں سپردِ خاک ہوئے، یہ داغؔ کی زندگی کا ایک ایسا باب ہے جو ان کے مقام اور کام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

حصہ