ٹرمپ سے بھرا سوشل میڈیا

82

سماجی سچائی:
”نام نہاد بشپ… جس نے منگل کی صبح نیشنل پریئر سروس میں تقریر کی، وہ ایک ریڈیکل لیفٹ لائن ٹرمپ سے نفرت کرنے والی تھی، وہ اپنے چرچ کو سیاست کی دنیا میں بہت ہی بے رحم طریقے سے لے آئی۔ وہ لہجے میں گندی تھی، اور مجبور یا چالاک نہیں تھی۔ وہ بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کا ذکر کرنے میں ناکام رہی جو ہمارے ملک میں آئے اور لوگوں کو ہلاک کیا۔ بہت سے جیلوں اور پاگل خانوں میں جمع کرائے گئے۔ یہ ایک بہت بڑی جرائم کی لہر ہے جو امریکا میں پھیل رہی ہے۔ اس کے نامناسب بیانات کے علاوہ چرچ سروس بہت بورنگ اور غیر متاثر کن تھی۔ وہ اپنے کام میں بہت اچھی نہیں ہے! وہ اور اِس کا چرچ عوام سے معافی کا مقروض ہے!“

یہ امریکی صدر کا تحریر کردہ اہم سچ ہے جو اُس نے اپنے 86 لاکھ فالوورز میں سچائی پھیلانے کے لیے 21 جنوری کو TruthSocial پر شیئر کیا۔ فروری 2022ء میں ’’ٹرمپ میڈیا اینڈ ٹیکنالوجی گروپ‘‘نے اس پلیٹ فارم کو ٹوئٹر اور فیس بک کے متبادل کے طور پر بنایا۔ کیپٹل ہنگامہ آرائی کے واقعات کے بعد جب ٹرمپ پر مختلف پابندیاں لگیں تو اُس نے اپنا ہی پلیٹ فارم بنالیا۔ اِس کے ماہانہ فعال صارفین کی تعداد تقریباً 50 لاکھ ہوچکی ہے۔ ٹروتھ سوشل بنیادی طور پر امریکی قدامت پسند صارفین اور ٹرمپ کے حامیوں کو ہی رستہ دیتا ہے تاکہ وہ یہاں کھل کر بات کریں جس کو وہ ’سچ‘ قرار دیتا ہے۔

ریڈیکل لیفٹ پادری:
امریکا میں ہر نئے صدر کے حلف اٹھانے کے بعد قومی دعائیہ سروس ہوتی ہے۔ اس میں pluralism کا عقیدہ ظاہر کرنے کی خاطر عیسائی، مسلمان، یہودی، سکھ، بدھ، اور قدیم امریکی بھی اپنی دعائیں کرتے ہیں، پھر میوزیکل فنکشن ہوتا ہے۔ نئے امریکی صدر بھی حلف کے اَگلے دن ’ایپیسکوپل چرچ‘پہنچ گئے۔ یہاں واشنگنٹن کی 65 سالہ خاتون بشپ نے بڑی ہمت کرڈالی۔ اس نے اپنے 15منٹ کے لیکچر میں صدر سے ’’ٹرانس جینڈر‘‘پر رحم کرنے کی بات کردی۔ غیر قانونی طریقے سے امریکا آنے والوں کے لیے عیسائی معافی Christian Mercy مانگی۔ پادری نے غیر قانونی لوگوں کو مجرم کے بجائے اچھا پڑوسی و اچھی صفائی کرنے والا قرار دیا۔ سروس کی وڈیو میں صدر ٹرمپ کی ناگواری سب کو محسوس ہورہی تھی۔

ہمیں حیرانی ہونی چاہیے، بلکہ عبرت پکڑنی چاہیے کہ ’’لبرل ازم‘‘ کی سب سے غلیظ قدر ’’انسانی حقوق‘‘ کتنی زہریلی ہوتی ہے۔ چرچ میں کھڑے ہوکر ایک بشپ جو پادریوں کا بھی سربراہ ہوتا ہے، اپنی ہی مقدس کتاب ’’انجیل‘‘ کی تعلیمات کے خلاف چلا گیا۔ ایک ایسی چیز صدر سے مانگ لی جو پورے نظام فطرت، معاشرت، خاندان کی قاتل ہے۔ خاتون بشپ نے باقاعدہ یہ الفاظ ادا کیے:

There are gay, lesbian & transgender children in Democratic, Republican & Independent families, some who fear for their lives۔

یہی نہیں، بلکہ Christian mercy کی اصطلاح بھی استعمال کی، یعنی پورا مذہبی ٹچ ڈالا۔ یہ غیر معمولی ہمت تھی کیونکہ مسلمان ہی نہیں، عیسائیت سمیت تمام مذاہب کے لوگ جانتے ہیں کہ ہم جنس پرستی اور من پسند جنس اختیار کرنے کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں۔ جنس صرف دو ہی ہوتی ہیں۔ باقی ناجائز طریقے سے آنے والے غیر ملکی تو پوری دُنیا میں مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کی پوری الیکشن مہم میں یہ وعدے تھے کہ وہ یہ سلسلہ بند کرائے گا۔ آپ دیکھیں کہ ’لبرل ازم‘ کتنا زہریلا ہے کہ وہ ایک مذہبی رہنما سے مذہبی اقدار و تعلیمات کے خلاف، چرچ کے اندر ہی کھڑے ہوکر ساری دنیا کے سامنے ایسی ہولناک اپیل تک کرا سکتا ہے۔ یعنی ”انسان ہونے کے ناتے‘‘من پسند جنس کی اجازت دی جائے۔

اِس چرچ سے نکل کر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو ’سچ‘ لکھا وہ ہم نے آغاز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے تو اُس کو بشپ ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے نام نہاد یعنی so calledلکھا۔ پھر لکھا کہ یہ ہے وہ ’ریڈیکل لیفٹ بشپ‘۔ یعنی پادری بھی لیفٹ، وہ بھی ریڈیکل (انتہاپسند)… یہ تو تضاد سے بھی آگے کی کوئی چیز ہوگئی ہے۔ اِس کے بعد ٹرمپ کا دوسرا جملہ بہت اہم ہے کہ ’’وہ اپنے چرچ کو سیاست کی دنیا میں بہت ہی بے رحم طریقے سے لے آئی“۔ چرچ یعنی مذہب کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے، یہ سیکولرازم کا بنیادی مقدمہ ہے۔ ٹرمپ نے بھی کوئی مذہبی بنیاد پر پابندی نہیں لگائی، وہ بھی پکا لبرل ہی ہے۔ مگر چرچ تو واقعی اتنے ’’بے رحم‘‘ انداز سے داخل ہوا کہ اپنی ہی مذہبی تعلیمات کے خلاف اپیل کرڈالی! اس لیے ٹرمپ نے چرچ کو عوامی معافی مانگنے کا مقروض قرار دے دیا۔ یہ صدر کی طرف سے کافی و شافی قسم کا تھپڑ ہے۔

یہ دلچسپ پوزیشن درحقیقت ’’نیشن اسٹیٹ‘‘کے تضادات ہیں، جن سے ہر اہلِ ایمان کا آگاہ و خبردار ہونا ضروری ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس چرچ میں آنے سے ایک دن پہلے کیا ہوا؟

ایگزیکٹو آرڈر:
ڈؤنلڈ ٹرمپ نے 47ویں امریکی صدر کے طور پر پیر کو کرسی سنبھالی۔ پوری دُنیا میں یہ تبدیلی سوشل میڈیا پر اہمیت کی حامل بنی ہوئی ہے کیونکہ ٹرمپ بہرحال سوشل میڈیا کی مقبول شخصیت ہے۔ ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر جو تجزیہ پیش کیا تھا، گوکہ ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے لیکن صورت حال بالکل ویسی ہی جارہی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی قوم پرستی اور Make America Great Again کے نعرے کے ساتھ لبرل ورلڈ آرڈر سے چھیڑ چھاڑ شروع کی ہے۔ یورپ کے بعد امریکا دُنیا میں لبرل آرڈر کو نافذ کرنے والا مانا جاتا ہے۔ ہر قسم کے غلیظ افکار و نظریات آپ کو یہاں سے نشر ہوتے مل جاتے ہیں۔

20 جنوری 2025ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی فیصلے صادر کیے۔ امریکا کا ہر صدر پہلے دن ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتا ہے۔ یہ سب فیصلے سوشل میڈیا پر ہی نہیں عالمی میڈیا پر بھی خوب زیر بحث رہے۔

جنس کا مسئلہ:
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے تحت امریکا میں صرف دو جنس ”مرد اور عورت“کو قابلِ شناخت قرار دیا۔ ’’ٹرانس جینڈر‘‘ (من پسند جنس)کی پہچان ختم کردی۔ اس حکم نامے کا عنوان ہے: ’’جنسی نظریاتی انتہا پسندی سے خواتین کا دفاع اور وفاقی حکومت میں حیاتیاتی سچائی کی بحالی‘‘۔ ٹرمپ نے اس معاملے میں کہیں بھی مذہب کو بنیاد نہیں بنایا، اس لیے کہ وہ خود لبرل قوم پرست ہے۔ یہ اقدام عیسائی قوم پرست گروہوں کے خیالات سے ہم آہنگ ہے، اور وہ سب ٹرمپ کے حامی، پارٹی ورکرز و جاں نثار ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کیسے اور کیوں اپنے ووٹروں سے وعدہ خلافی کرے گا؟ ایل جی بی ٹی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ٹرمپ نے عالمی لبرل ایجنڈے پر ضرب لگائی ہے۔ کیا عالمی ہیومن رائٹس چیمپئن اقوام متحدہ، ایل جی بی ٹی حقوق کو پامال کرنے والے امریکا کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے گی؟ چوں چوں کرکے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر جس طرح ’ٹرانس جینڈر‘ کو رستہ ملا تھا، اب بھی کانگریس اور سپریم کورٹ کا دروازہ موجود ہے کہ وہاں سے یہ فیصلہ رد کرا دیا جائے۔

فطرت کے غدار :
امریکا میں فریڈم فرام ریلیجن فاؤنڈیشن نے ردعمل میں کہا ہے کہ ’’یہ فیصلہ مذہبی حد سے تجاوز اور سیکولر گورننس کے اصول کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ جیسے ہمارے ملک میں غامدی ٹائپ کے کئی متجدد گروہ ہیں ویسے ہی امریکا میں بھی ہیں۔ امریکا میں ایک تجدد پسند ’پریسبائٹیرین چرچ‘ کا ایک فرقہ ہم جنس پرستی اور ٹرانس جینڈر کے معاملے کو گنجائش دیتا ہے، اور یہی چھوٹا سا طبقہ چوں چوں کررہا ہے۔ بات یہ ہے کہ یورپ بھی امریکا سے کئی امور میں پیسے لیتا ہے۔ ناٹو، یوکرین جنگ جیسے معاملات چل رہے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ سے کیسے معاملات بگاڑیں گے؟ یورپ میں اب اُلٹا خوف پھیل گیا ہے کہ کہیں یورپ میں بھی پابندی نہ لگ جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نعرے ’’سفید فام امریکی قوم پرستی‘‘ کی برتری میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 2 سال میں ٹرمپ کو اپنے بڑے بڑے وعدوں کو عملی شکل دینی ہے کیونکہ مڈٹرم الیکشن نومبر 2026ء میں ہونے ہیں۔ الیکشن نتائج نے بتادیا کہ عوام کی اکثریت ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے پیچھے شیطان کھڑا ہوا ہے۔ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی میں براہِ راست ”شیطان کے پجاری“ شامل ہیں۔ عالمی سطح پر ہم جنس پرستوں کی تحریکوں کو امریکا جیسے ملک میں ban کردینا بڑا قدم ہے، کیونکہ اِن کی اب عوامی پٹائیاں ہونے کی خبریں ضرور آئیں گی تاکہ یہ مظلوم بن سکیں اور دوبارہ شیطانی حقوق مانگ سکیں۔

نیشن اسٹیٹ تضاد:
سوشل میڈیا پر کئی کمنٹس میں ٹرمپ سے مرعوبیت کی کیفیت نظر آئی۔ اس لیے متوجہ کرنا ضروری ہے کہ آپ اس کو نیشن اسٹیٹ کے اندرونی تضاد کے طور پر ہی لیجیے گا، متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ لبرل ورلڈ آرڈر کی تاریخ میں اس طرح کے فیصلے پہلی بار نہیں ہوئے۔ قوانین بنتے، بدلتے رہتے ہیں۔ شراب کے نقصانات دیکھ کر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر شراب سرمایہ دارانہ نظام کا اہم حصہ ہے، اس لیے نقصانات چاہے جتنے ہوں، سرمائے کی گردش نہیں روکی جاسکتی، اس لیے احتیاط وغیرہ کے نام پر ختم کردی گئی۔ اسی طرح منشیات پر پابندی لگی مگر ختم کردی گئی۔ سگریٹ نوشی کو ہی لے لیں، آپ کو اتنا تضاد نظر آئے گا کہ آپ کا سر چکرا جائے گا۔ وجہ کیا ہے؟ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں، جہاں طاقت سرمائے کی ہوتی ہے۔ یہ جمہوریت و انسانی فلسفے ’’ٹرائل اینڈ ایرر‘‘ کے نام پر چلتے ہیں، مگر اس میں یہ ’’ایرر‘‘کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ طاقتور کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔ بندوق کی مثال لے لیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکا میں اجتماعی قتلِ عام کے سیکڑوں واقعات ہوتے ہیں، آج تک اس پر پابندی نہ لگ سکی۔ عورت کو طلاق پر جائداد میں حصہ دینے کا قانون بنایا، نتیجے میں شادیاں ہی ختم.. کیونکہ جائداد دینے کا دل گردہ کہاں سے لائیں گے! اولاد کو ایسے حقوق دے دیے کہ اُن کے لیے والدین بوجھ، اور والدین کے لیے اولاد بوجھ بن جاتی ہے۔

مغرب میں ”میرا جسم میری مرضی“ کے نام پر ابارشن کے قوانین بھی اِس کی اہم مثال ہیں۔ کئی ریاستیں حق دیتی ہیں مگر ٹرمپ کو تو زیادہ سفید فام بچے چاہئیں۔ اُس کو امریکی سفید فاموں کو ’’عظیم‘‘بنانا ہے جس کے لیے اُن کا پیدا ہونا ضروری ہے۔

اِسی طرح جدید ریاست نے ترقی پانے کے نام پر ماحولیات کی تباہی کردی، پھر اس کو روکنے کے قوانین بنائے، پھر خود ہی اُن کو ختم کردیا۔ ٹرمپ نے حلف کے بعد ’پیرس ماحولیاتی معاہدے‘ سے بھی ہاتھ کھینچ لیے۔ یہ بھی کوئی معمولی اعلان نہیں ہے۔ پوری دنیا تباہ ہورہی ہے مگر ٹرمپ نے کہا کہ ”چین کو ڈرلنگ، مائننگ کی اجازت ہے اور میرے امریکی شہری یہاں نوکری سے محروم رہیں، یہ نہیں ہوگا“۔ اُس نے ایسے معاہدے ختم کردیے۔ اس کو کہتے ہیں تضاد۔

پاکستانی حکمران:
ہم اتنے عرصے سے آپ کو متوجہ کررہے ہیں کہ پاکستان اسلامی نظریاتی ملک ہے، مگر افسوس کہ اس میں ٹرانس جینڈر کو شناخت دے دی گئی۔ مغربی اشاروں پر یہ قانون 2018ء میں بنادیا گیا، اور اسے بنانے میں تمام مرکزی جماعتیں شامل رہیں۔ وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل سمیت سب نے اس کو غیر اسلامی قرار دے دیا، لیکن اسے ختم کرنے کے بجائے مزید قانون سازی ہورہی ہے۔ ہماری جامعات میں جینڈر اسٹڈیز پڑھائی جارہی ہے۔ جب امریکا نے اس پر عوامی مفاد میں پابندی لگادی ہے تو ہم آپ کو خدا کے عذاب، غضب اور ناراضی سے ڈرا رہے ہیں۔ فطرت کے خلاف ایک بچہ پالیسی نے بھی کئی ممالک اور تہذیبوں کے لیے بحران پیدا کردیا ہے۔ وہ سب سر پکڑے ہوئے ہیں، اُن کی نسل ختم ہورہی ہے۔ ان سارے تضادات میں زندگی گزارنے سے کہیں بہتر ہے آپ کا دین، آپ کا کلمہ، آپ کے پاس موجود خدائی قانون۔ بس یہ جان لیں کہ حرص اور حسد پر قائم یہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام بھی لوگوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوجائے گا۔ آخر میں جو رہے گا وہ اللہ کا دین ہی رہے گا۔

حصہ