’’ پراسرار ماضی‘‘

36

سلسلہ نمبر 1

یہ 4025ء ہے… اور دنیا بہت بدل چکی ہے۔ تحقیقاتی ماہرین نے حالیہ کھدائی کے دوران ایک نہایت ہی عجیب و غریب صندوقچی دریافت کی ہے۔ یہ صندوقچی کسی قدیم تہذیب کے آثار کی طرح نظر آتی ہے، اور اس کے اندر موجود اشیاء نے سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

یہ کچھ کتابیں ہیں، جو کسی انوکھے میٹریل سے بنی ہوئی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ اُس وقت کاغذ کہلاتا تھا جو مختلف مواد سے بنایا جاتا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مواد لکڑی کا گودا تھا، جسے ووڈ پلپ کہا جاتا ہے۔ اس میں لکڑی کے ریشے یعنی فائبر استعمال کیے جاتے تھے، جو مضبوط اور لچکدار ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ ’’بامبو‘‘ یعنی بانس کے ریشے بھی کاغذ بنانے میں استعمال ہوتے تھے، خاص طور پر اُن علاقوں میں جہاں بانس وافر مقدار میں دستیاب تھا۔ کچھ کاغذ میں کاٹن فائبر یعنی کپاس کے ریشے بھی استعمال کیے جاتے تھے، جو اعلیٰ معیار کا کاغذ بنانے میں مددگار ثابت ہوتے تھے، جیسے آرٹ پیپر وغیرہ۔

ری سائیکلڈ کاغذ، جو پرانے کاغذ کو دوبارہ پروسیس کرکے بنایا جاتا تھا، وہ بھی اس دور میں معمول کی بات تھی۔ بعض خاص قسم کے کاغذ جیسے ہاتھ سے تیار شدہ آرٹسٹک کاغذ بھی بنایا جاتا تھا، جس میں زراعت کے فضلے مثلاً گندم یا چاول کے بھوسے کا بھی استعمال ہوتا تھا۔

ان کتابوں پر تحریریں ایسے اردو رسم الخط میں ہیں جو اب متروک ہوچکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں 2000 سال پرانی ہیں، اور ان کا تعلق اُن انسانوں سے ہے جو 21ویں صدی میں موجود تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کتابوں میں ایک مخصوص ترتیب سے معلومات محفوظ ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اُس زمانے کی تعلیم کا ذریعہ تھیں۔

ایک سائنس دان نے بتایا کہ’’یہ کتابیں اُس وقت کے لوگوں کے علم، تحقیق اور سیکھنے کے طریقے کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ آج کے جدید دماغی انٹرفیس اور ڈیجیٹل نیورل سسٹمز کے مقابلے میں یہ کتابیں بہت سادہ اور بنیادی لگتی ہیں۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان علم کو محفوظ رکھنے اور اگلی نسل تک منتقل کرنے کی جستجو ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔‘‘

یہ دریافت نہ صرف قدیم انسانوں کی زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک نایاب موقع فراہم کرتی ہے، بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہیں کہ کیا ہمارے آج کے علم کو بھی 2000 سال بعد اسی طرح دریافت کیا جا سکے گا؟ کیا ہم بھی ان کتابوں کی طرح ایک پراسرار ماضی کا حصہ بن جائیں گے؟

2024ء کی دریافت کی گئی ان کتابوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے، تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ یہ کتابیں ادب سے تعلق رکھتی ہیں، اور ان میں 21ویں صدی کی ثقافت، معاشرت، اور سوچ کا عکس جھلکتا ہے۔ مزید کھوج سے پتا چلا کہ یہ کتابیں ایک غیر معروف لیکن عزم رکھنے والے قلمکار محمد جعفر خونپوریہ نے محفوظ کی تھیں۔

صندوقچی میں موجود کتابوں کے ساتھ ان کا ایک خط بھی ملا جو شاید ان کے اپنے ہاتھوں سے تحریر شدہ ہے، کیونکہ کتابوں پر جو تحریر ہے وہ مشینی انداز کی ہے۔ غالباً اس دور میں پرنٹنگ اسی طرح ہوتی ہوگی، جبکہ خط پر موجود تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی ہاتھ کی لکھائی ہے، خط پر تحریر کچھ اس انداز میں درج ہے:

’’یہ کتابیں 31 دسمبر 2024ء کو دفن کی جارہی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ہزاروں سال بعد جب یہ کتابیں دریافت ہوں گی، تو یہ اُس وقت کی جدید تہذیب کے لیے قیمتی خزانہ ثابت ہوں گی۔ یہ کتب نہ صرف ہمارے ادب کی نمائندگی کریں گی، بلکہ اُس وقت کے قارئین کے لیے علم اور بصیرت کا ذریعہ بھی بنیں گی۔

میں، محمد جعفر خونپوریہ، آج گمنام اور ناکام قلم کار سمجھا جاتا ہوں، لیکن میرا یقین ہے کہ آنے والے وقتوں میں میرا نام اور میرے محبوب مصنفین کی تحریریں گونجیں گی۔ ہم، جو آج کے دور کی پرانی تہذیب کے لوگ گردانے جائیں گے، اپنی تحریروں کے ذریعے آنے والی نسلوں کو متاثر کریں گے، اِن شاء اللہ۔‘‘

ان لفظوں نے نہ صرف ایک گمنام قلم کار کی خواہشات کو ظاہر کیا ہے، بلکہ ان کے اندر ایک گہری امید اور یقین کی جھلک بھی دکھائی ہے۔ خونپوریہ نے ان کتابوں میں اُس وقت کے ادب کی نمائندگی کرنے والے عظیم مصنفین کے شاہکار محفوظ کیے ہیں، جو اُس دور کی ثقافت، سماج، اور انسانی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔

سائنس دان اور ماہرینِ ادب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دریافت ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے کہ ماضی کی تہذیب کے خیالات اور جذبات کو سمجھا جا سکے۔ محمد جعفر خونپوریہ کا نام، جو اُس زمانے میں شاید عام لوگوں کے لیے غیر معروف تھا، لیکن آج 4025ء میں گونج رہا ہے… اور ان کی یہ کاوش انہیں وقت کے سمندر میں ہمیشہ کے لیے امر کر گئی ہے۔

ماہرین اس بات پر بھی خاصے حیران ہیں کہ دوہزار سال پہلے بھی زمانہ اس قدر ترقی یافتہ تھا کہ کتابوں کو اس طرح محفوظ کرلیا گیا کہ دوہزار سال گزرنے کے باوجود یہ کتابیں کسی بھی ممکنہ خرابی سے بالکل محفوظ رہیں۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے، خاص طور پر جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کتابوں کے تدفین کار جعفر خونپوریہ، ایک گمنام مصنف تھے جو ایک عام آدمی تھے اور ان کا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی براہِ راست تعلق بھی نہیں تھا۔

اس دور میں ترقی کا معیار جو آج کے عہد سے مکمل طور پر مختلف تھا، بنیادی طور پر ارتقائی مرحلے میں تھا۔ 2025ء میں انسانوں نے بہت زیادہ ترقی کرلی تھی، لیکن وہ ترقی آج کے معیار کے مطابق صرف ابتدائی مرحلے کی تھی۔ اُس وقت کی ٹیکنالوجی ابھی اپنے ابتدائی دور میں تھی، اور انسانی ترقی کے یہ ابتدائی دور محض آغاز تھے جب دنیا کی سائنسی سمجھ ابھی ارتقائی مرحلے میں تھی۔ تاہم ان کتابوں سے حاصل کی جانے والی معلومات نے اُس دور کی ثقافت، معاشرت اور تہذیب کو سمجھنے میں اہم مدد فراہم کی ہے۔

ان کتابوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ انسان ہمیشہ علم کو محفوظ کرنے کی جستجو کرتا آیا ہے، اور ان کتابوں میں اُس وقت کے لوگوں کے خیالات، ثقافت اور تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے جو کہ آج کے دور میں ایک نایاب اور انمول خزانہ بن چکا ہے۔

ان دریافت شدہ کتابوں پر تحقیق کا عمل ابھی جاری ہے، اور ہم 4025ء کے باشندے ماضی کی تہذیب کے اسرار کو سمجھنے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز تجربہ ہے جہاں ہم دو ہزار سال پرانی تہذیب کے علمی ورثے سے جُڑے سوالات کے جوابات تلاش کررہے ہیں۔

یہ کتابیں ہمیں نہ صرف ماضی کے لوگوں کی جدوجہد اور اُن کی فکری ترقی کا پتا دیتی ہیں بلکہ یہ بھی سکھاتی ہیں کہ وقت کے دھارے میں علم کیسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتاہے ۔

اور ہمارے جدید دور کی رنگین عکاسی آپ کے لیے دلچسپیوں اور حیرتوں کے نئے دروازے کھولے گی۔ جب تک کے لیے اجازت دیجیے۔

اللہ حافظ
المقیم ہزاروی یکم جنوری 4025ء
…٭…
یہ 4025ء اور 2025ء کے درمیان کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ یہ کہانی کا پہلا حصہ ہے، اگر آپ کو پسند آئے تو اسے مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

حصہ