سوشل میڈیا:خود اعتمادی کو کھوکھلاکرنے والا زہر

78

ماحول ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر چیز اپنے مقام سے ہٹی ہوئی، کِھسکی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ جب ہر چیز اپنے مقام سے کِھسکی ہوئی ہے تو پھر دماغ کیوں ٹھکانے پر رہیں! فطری طور پر اب دماغ بھی اپنے مقام سے بہت حد تک ہٹے ہوئے، کِھسکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بات محض ازراہِ تفنن و تمسخر نہیں کہی جارہی۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اربوں افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور اس کے اثرات بھی قبول کرتے ہیں۔دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ڈسے ہوئے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز بنیادی طور پر ہر معاملے کو اپنی جگہ سے ہٹانے ہی کا کام کر رہے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، سوشل میڈیا سے مکمل طور پر لاتعلق اور محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پوری دنیا کا ماحول ہی کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجیز اور بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی سے خود کو غیر متعلق رکھنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ہر چیز انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑی ہوئی ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ گھوم پھر کر انفارمیشن ٹیکنالوجی، ملٹی میڈیا اور میڈیا تک پہنچ رہا ہے۔ یہ ہے آج کی زندگی اور آج کی طرزِ زندگی۔ ہر عہد ایک طرزِ زندگی کا حامل ہوتا ہے۔ جیسی طرزِ زندگی ہوگی ویسی ہی زندگی ہوگی، اور زندگی بجائے خود طرزِ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔

سوشل میڈیا کا ایک انتہائی بنیادی وصف یہ ہے کہ یہ ہر معاملے کو اس کے مقام سے ہٹاکر اس کی اصل تبدیل کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ غلط بیانی، گمراہ کن اعداد و شمار، مغالطے پیدا کرنے والی ویڈیوز، شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے والی آڈیو فائلز اور دیگر بہت سا مواد سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ کر ہمارے ذہنوں، یعنی تفہیم و فکر پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اپنے آپ کو غیر متعلق نہیں رکھ سکتے۔

اپنے بارے میں شک کرنا ایک ایسا وصف ہے جو انتہائی نوعیت کے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہتا۔ ایک طرف تو سوشل میڈیا کے ہاتھوں بڑھک مارنے کا شوق جنم لیتا ہے، یعنی انسان دو چار باتیں جان لینے پر اپنے آپ کو علامہ سمجھنے لگتا ہے اور ایک دنیا کو متاثر کرنے کے درپے رہتا ہے۔ اور دوسری طرف یہی سوشل میڈیا انسان کو باقی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے ہی وجود کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات میں مبتلا رکھتا ہے۔ یہ بہت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہونے والی شخصیات بھی اپنے بارے میں طرح طرح کے شبہات پالتی رہتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی بہت سی انٹریز انسان کو اپنی ہی نظروں میں گراتی ہیں۔ وہ اپنی ہی صلاحیت و سکت پر شک کرنے لگتا ہے اور اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر وہ بعض ایسے معاملات میں بھی خود کو قصور وار یا ذمہ دار گرداننے لگتا ہے جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنے والوں کے ذہنوں میں طرح طرح کی کجی پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ اپنی کامیابی کو کچھ زیادہ ہی سمجھنے لگتے ہیں اور دوسری طرف، سوشل میڈیا ہی کے زیرِاثر، اپنی کامیابی یا کامیابیوں کے بارے میں غلط فہمی اور شکوک و شبہات میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سے لوگ، سوشل میڈیا کی انٹریز کے اثرات قبول کرتے ہوئے، اپنے بارے میں انتہائی منفی انداز سے سوچتے ہوگئے ہیں۔ اِسے اصطلاحاً اِمپوسٹر سِنڈروم کہا جاتا ہے یعنی یہ کہ جو کچھ بھی ملا ہے اپنے آپ کو اُس کا اہل نہ سمجھنا۔ دنیا بھر میں ایسی بہت سی انتہائی کامیابی شخصیات ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ سیکھتے ہیں، کچھ کرنے کی تحریک پاتے ہیں مگر خود اُن کا یہ حال ہے کہ اپنے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا رہتی ہیں۔

اپنی ہی نظر میں گرنا، خود کو کمتر محسوس کرنا، خود کو حاصل شدہ کامیابی کا حقدار نہ سمجھنا، اپنے بارے میں وضاحت کے ساتھ کچھ بیان کرنے میں الجھن محسوس کرنا، دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار محسوس کرنا ایسی ذہنی کیفیت ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پنپ رہی ہے اور یہ سب کچھ صرف اور صرف سوشل میڈیا کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ گھریلو ماحول بھی سوشل میڈیا کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ رشتے اور تعلقات بھی سوشل میڈیا ہی کے ہاتھوں انتہائی درجے کی خرابیوں سے متصف ہیں۔

یہ بات ہے بہت عجیب مگر سچ ہے کہ قابلِ رشک نوعیت کی کامیابی بھی انسان کو طرح طرح کے شکوک شبہات میں مبتلا کر رہی ہے اور اُسے اپنی نظر میں گرا رہی ہے۔ مختلف شعبوں کی بہت سی سیلیبرٹیز نے تسلیم کیا ہے کہ بھرپور کامیابی نے اُن کے ذہنوں میں الجھنیں بھی پیدا کی ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کے لیے خود کو مکمل حقدار اور اہل نہیں سمجھتیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور ہیں۔ فی زمانہ کسی بھی انسان کو اچانک بہت بڑی کامیابی مل سکتی ہے اور ملتی ہے۔ اور دوسری طرف ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی زندگی بھر محنت کرتا ہے مگر اُسے کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ یہ سب کچھ انتہائی نوعیت کا ہے یعنی انسان انتہاؤں کے درمیان سفر کر رہا ہے۔

اِمپوسٹر سِنڈروم نے آج کے کامیاب ترین افراد کو بھی شدید ذہنی الجھن سے دوچار کر رکھا ہے۔ بہت سے کامیاب افراد دن رات اس مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا ہے وہ صرف اُن کی محنت اور لیاقت کا نتیجہ ہے، کسی اور کا کوئی کردار نہیں۔ دوسری طرف ایسے کامیاب افراد بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں خاص لیاقت اور محنت کے بغیر کامیابی مل گئی ہے یعنی اِس بھرپور کامیابی کے لائق تھے ہی نہیں۔ یہ سوچ اُنہیں اپنے بارے میں شک کرنے کی راہ سُجھاتی ہے اور یوں وہ ایک عجیب سے احساسِ جرم کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب ذہن اس نوعیت کی سوچ میں الجھا ہوا ہو تو جینے کا کچھ خاص لطف رہتا نہیں۔ ایسے لوگ ذہنی الجھنوں کے ہاتھوں کسی بھی کیفیت سے پوری طرح محظوظ نہیں ہو پاتے۔

اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور بعض وجوہ بالکل درست بھی ہوسکتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنہون نے بھرپور لیاقت اور ان تھک محنت کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہو وہ بھی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ وہ اس کامیابی کے حقدار نہیں تھے یا اُن میں اِتنی قابلیت تھی ہی نہیں کہ ایسی بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوتے یا پھر یہ کہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ اُن کی بھرپور محنت کا نتیجہ نہیں۔

ماہرین بتاتے ہیں اِمپوسٹر سِنڈروم ایک ذہنی پیچیدگی کا نام ہے جس میں لوگ اپنی کامیابیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں شک کرنے لگتے ہیں۔ یہ ذہنی پیچیدگی اُنہیں اس وہم میں بھی مبتلا کرتی ہے کہ وہ شاید دھوکے باز ہیں اور انہوں نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ کسی کو دیے جانے والے دھوکے کا نتیجہ ہے۔ یہ کیفیت کچھ ایسی ہے جیسے کسی نے دن رات محنت کی ہو اور امتحانات کے نتیجے میں اے پلس گریڈ حاصل کیا ہو مگر یہی سوچتا رہے کہ اُس نے کسی کا حق مارا ہے۔

جو لوگ اِمپوسٹر سِنڈروم کا شکار ہوں وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اُن کی بھرپور کامیابی شاید محض قسمت کا نتیجہ ہے۔ یا پھر یہ کہ انہوں نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہو وہ کامیابی سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ جو لوگ اس ذہنی پیچیدگی میں مبتلا ہوں وہ مزید کامیابی بھی حاصل کرسکتے ہیں مگر پھر بھی اُن میں یہ غلط فہمی زیادہ پختہ ہوتی جاتی ہے کہ جو کچھ انہوں نے پایا ہے وہ اُس کے قابل نہیں تھے یعنی کسی کا حق مارا ہے۔

انٹرنیشنل جرنل آف بیہیوریل سائنس میں شایع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں درج ہے کہ دنیا بھر میں کم و بیش 70 فیصد افراد زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اِمپوسٹر سِنڈروم کا شکار ہوتے ہین۔ علم، تحقیق اور تخلیقی سوچ کے شعبوں میں یہ ذہنی پیچیدگی زیادہ پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ تخلیقی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور نیا سوچنے پر بھی اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ انہوں نے شاید کسی اور کے خیالات چُراکر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ در حقیقت ایسا کچھ بھی ہوا نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ لوگ بھرپور کامیابی سے پوری طرح محظوظ نہیں ہو پاتے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ بعض حالات میں سوشل میڈیا ٹریگر کا کام کرتے ہیں یعنی کسی بھی انسان میں اگر اِمپوسٹر سِنڈروم کے جراثیم پائے جاتے ہیں تو سوشل میڈیا اُنہیں پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کسی بھی کامیاب انسان کے سامنے دوسروں کی بھرپور کامیابی، شہرت اور دولت رکھتے ہیں اور اُُسے کمتر ہونے کا احساس دلاتے ہیں اور اُسے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلے اور کتنی ہی کامیابی حاصل کرلے اُسے بھرپور کامیابی نہیں مل سکے گی اور مل بھی گئی تو وہ اُس سے بھرپور طور پر محظوظ نہیں ہوسکے گا۔

سوشل میڈیا کسی بھی انسان کے سامنے دوسروں کی بھرپور کامیابی کو نمونہ بناکر پیش کرتے ہوئے ایسا معیار متعین کرتا ہے جس کے مطابق کامیابی کا حصول یقینی بنانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے اور اگر بہت زیادہ کامیابی مل بھی جائے تو انسان مطمئن نہیں ہوتا۔ انسان سوشل میڈیا پر بہت کچھ دیکھتا ہے۔ وہ پس منظر نہیں جانتا۔ کسی بھی چیز کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگانا غیر ضروری ہے تاکہ لازم نہیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہوں وہ بالکل درست اور حقیقی ہی ہو۔ سوشل میڈیا مجموعی طور پر دھوکے کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں دھوکا بہت زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ سوشل میڈیا سے بہت زیادہ مستفید ہونے والے یعنی دن رات سوشل میڈیا پوسٹس کی بھول بھلیوں میں رہنے والے ذہنی مریض ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ انہیں سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہا ہوتا ہے وہ بہت حد تک وہ نہیں ہوتا جو انہیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ پرفیکشنزم کے عادی ہوتے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ جامع کامیابی کے حصول کی کوشش میں اپنی جیسی تیسی کامیابی سے بھی لطف نہیں لے پاتے۔ سوشل میڈیا کے عادی افراد کے لیے عزتِ نفس برقرار رکھنا ایک بہت بڑا بنیادی مسئلہ ہے۔ دوسروں کی نظر میں خود کو کمتر سمجھتے رہنے سے لوگ رفتہ رفتہ اپنے وجود سے غیر مطمئن ہو رہتے ہیں اور یوں کامیابی اور دولت یقینی بنانے پر بھی اُن کی زندگی میں بھرپور تسکین ممکن نہیں ہو پاتی۔

نئی نسل مین اِمپوسٹر سِنڈروم زیادہ تیزی سے پنپتا ہے کیونکہ اُن کی سوچ خاصی خام ہوتی ہے۔ اٹھتی ہوئی عمر میں خیالات ناپختہ ہونے کے باعث احساس اور جذبات بہت زیادہ توانا ہوتے ہیں اور نئی نسل کو بیشتر معاملات میں لے ڈوبتے ہیں۔ اگر نئی نسل کی بروقت اور بھرپور راہ نمائی نہ کی جائے تو وہ اپنے وجود اور صلاحیتوں پر شک کرنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ عملی زندگی کے لیے خود کو ڈھنگ سے تیار نہیں کر پاتی۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ سوشل میڈیا کے آئینے میں خود کو بار بار دیکھنے اور پرکھنے کے بجائے معقولیت پر مبنی بات یہ ہے کہ انسان حقیقت پسندی کا وصف پروان چڑھائے اور سوشل میڈیا پر پیش کی جانے والی ہر بات کو درست سمجھ کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ کسی سے کمتر محسوس نہ کرے بلکہ اپنی صلاحیت و سکت پر بھروسا رکھتے ہوئے پوری دیانت اور جاں فشانی سے کام کرے اور اِس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی سے بھرپور لطف کشید کرے۔ اِسی طور زندگی کا معیار بلند ہوسکتا ہے اور ذہن کی کجی دور ہوسکتی ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اِمپوسٹر سِنڈروم اور سوشل میڈیا کے دیگر منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے معاشرتی سطح پر ایک مربوط حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ والدین اور اساتذہ کو نوجوانوں کو خود اعتمادی سکھانی چاہیے، اُنہیں یہ باور کروانا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں وہ اُن کی محنت اور قابلیت کا نتیجہ ہے۔ یہی سوچ اُنہیں کامیاب زندگی گزارنے میں مدد دے سکتی ہے۔دنیا میں بدلتے رجحانات اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو نظر انداز کر دیں۔ زندگی میں توازن برقرار رکھنا اور سوشل میڈیا کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا ضروری ہے، نہ کہ اُسے اپنی زندگی پر حکمرانی کرنے دینا۔

حصہ