مسلمان اور باطل کی مزاحمت

112

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

علامہ اقبالؒ کا یہ شعر دورِ غلامی میں موجود مسلمانانِ عالم بالعموم اور برعظیم ہند و پاک کے مسلمانوں کی بالخصوص مجموعی ذہنیت، معاشرتی کیفیت اور علمی پس ماندگی کا مظہر ہے۔ مسلمانوں نے برطانوی اور یورپی سامراج کی امامت کو ذہنی طور پر قبول کرلیا تھا۔

تمام مسلم دنیا کی بادشاہت کو یورپی اقوام نے نہایت سفاکی کے ساتھ کچل کر رکھ دیا تھا اور اپنی عسکری، علمی اور سائنسی برتری کا سکہ بٹھاکر اپنی تہذیب، زبان، ادب، ثقافت اور ملکی قوانین کو اعلیٰ و برتر ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کا ریاستی جبر اور ہتھکنڈے استعمال کیے۔ نتیجتاً علماء کرام نے اسلام کو نظامِ حیات ماننے کے بجائے اسے چند عبادات کا مجموعہ سمجھ کر خود کو مساجد اور خانقاہوں میں مقید کرلیا اور زمانے کی تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے والے عصری علوم، سائنسی ایجادات اور دریافت کو حرام قرار دے کر انہیں خیرباد کہہ دیا۔ ایک دوسرا طبقہ جو دورِ غلامی کے جدید علوم سے وابستہ ہوا وہ انگریزی تہذیب و ثقافت سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اپنے ماضی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے سے گریزاں ہوگیا۔

یہ مجموعی صورتِ حال شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ مگر اسلام دینِ فطرت ہے اور فی زمانہ باطل سے کشمکش اور اُس کو شکست سے دوچار کرنے کی قوت رکھتا ہے۔

باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
(علامہ اقبالؒ)

باطل ہر دور میں بہروپ بھرتا ہے مگر حق ازل سے اپنی اصل پہچان کے ساتھ راہِ حق کے مسافروں کو نشانِ منزل کی طرف بلاتا ہے اور فتح و نصرت کی نوید دیتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اس لیے کہ باطل کو مٹنا ہی ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل)

اسلام کی فطرت میں مزاحمت کی بے پناہ قوت موجود ہے، اس کے ماننے والے وقتی طور پر تو ہار جاتے ہیں مگر مزاحمت سے باز نہیں آتے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سقوطِ غرناطہ کے بعد جو عظیم تباہی ہوئی اُس کے بعد بدر بن مغیرہ، اور اُس کے بعد اُس کے جانشین 300 سال تک لڑتے رہے۔ مسلمانوں کا سواد اعظم ہمیشہ سے باطل کی برتری کو تسلیم کرنے سے نہ صرف گریزاں رہا بلکہ اس کے خلاف مزاحم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی اقوام کی عسکری اور علمی برتری اور جدید تہذیبی فکر کے غلبے کے بعد سنوسی تحریک، بدیع الزماں نورسیؒ، حسن البناؒ اور مولانا مودودیؒ نے فکری محاذ پر مزاحمت شروع کی، بلکہ جہاں جہاں مواقع میسر ہوئے عسکری مزاحمت کا بھی آغاز کیا۔ یہ شدید ردعمل 1923ء میں ترک خلافت کے خاتمے کے بعد آیا۔ جب پوری دنیا کا شیرازہ بکھر گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہوگئے تو عالم اسلام میں شدید بے چینی پھیلی اور برصغیر میں مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی سربراہی میں خلافت بحالی تحریک کا آغاز ہوا، اور ہزاروں ہندوستانی مسلمان ہجرت کرکے افغانستان چلے گئے۔ تیتومیر اور دودو بھائی نے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ ’’ریشمی رومال‘‘ تحریک چلی جس میں ہزاروں علما شہید ہوئے۔ جمال الدین افغانی نے Pan Islamism کے لیے پوری مسلم دنیا میں بھاگ دوڑ کی۔ لیکن عام مسلمانوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے اوپر انگریزوں کے مسلط کردہ حکمراں کاسہ لیس کا غلامانہ کردار ادا کرتے رہے۔

1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ دہلی سے لے کر سونی پت تک جی ٹی روڈ کے دونوں طرف مسلمانوں کی لاشیں درختوں سے لٹکا دی گئی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر کے تینوں بیٹوں کی گردنیں کاٹ کر دہلی کے داخلی دروازے پر لٹکا دی گئیں، جس کا نام ’’خونیں دروازہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ بھارت کی متعصب حکومت اس دروازے کا رنگ روغن کراتی رہتی ہے حالانکہ مغلیہ دور کے بہت سے محلات اور عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ مگر مسلمانانِ برصغیر نے مزاحمت اور عسکری و سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

1906ء میں ڈھاکا میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور بالآخر برصغیر کے مسلمانوں نے 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر برہمن اور انگریزی سامراج سے مملکتِ خدادداد پاکستان کو کلمہ لا الٰہ الااللہ کی بنیاد پر حاصل کیا، جو آج عالمِ اسلام کا ایٹمی طاقت کا حامل واحد ملک ہے۔

1914ء کی عالمی جنگ جس میں ترکی جرمنی کا اتحادی تھا، اُس کے شکست سے دوچار ہونے کے بعد خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ دوسری جانب 1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد وسط ایشیا کے تمام مسلم ممالک میں اسٹالن کی سربراہی میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ چیچنیا کی پوری آبادی کو سائبیریا کے یخ بستہ علاقوں میں دھکیل دیا گیا جہاں لاکھوں چیچن ٹھٹھر کر مر گئے۔ امام شاملؒ کے سپوتوں نے کبھی بھی مزاحمت ترک نہیں کی اور دنیا نے دیکھا کہ 1996ء میں جعفر دودائیف کی سربراہی میں چیچنوں نے روس کو شکست دی اور گروزنی کو آزاد کرا لیا۔

برطانیہ جس کو مسلم دنیا میں مسلمانوں کے مفادات اور آزادی کا دشمن تصور کیا جاتا ہے اور جو اب بوڑھے شیطان کا کردار ادا کررہا ہے، کی سازشوں سے 1917ء میں 67 الفاظ پر مشتمل لکھے گئے ایک خط نے مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ بدل کر رکھ دی، جس کو ’’معاہدہ بالفور‘‘ کہا جاتا ہے، اس سے یہودیوں کی ناجائز حکومت کا قیام ممکن ہوا جو عالم اسلام کے لیے ایک ناسور ہے۔

اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک کوئی ماہ و سال ایسا نہیں گزرا کہ فلسطین کے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں بے دخل نہ کیا گیا ہو، اور 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی بدترین شکست کے بعد مسجد اقصیٰ سے لے کر گولان کی پہاڑیوں تک، صحرائے سینا سے لے کر غربِ اردن تک اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ لیکن اہلِ فلسطین نے مزاحمت ترک نہیں کی، اور آج 19 جنوری 2025ء کو جب یہ کالم تکمیل کے مرحلے میں ہے، پندرہ مہینوں کی خوف ناک جنگ اور 47 ہزار سے زائد بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کی شہادت کے بعد اہلِ غزہ اور حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور وہ حماس کی شرائط پر جنگ بندی پر راضی ہوا ہے، جب کہ غزہ میں کوئی عمارت، اسپتال، اسکول، کالج، مسجد باقی نہیں رہی۔ ہر طرف تباہی کی خوف ناک داستان ہے اور ملبے کا ڈھیر ہے، مگر قائم ہے تو غزہ کے غیور اور جانبازوں کی للہیت اور مزاحمت کی عظیم داستانِ عزیمت۔ اور لعنت و پھٹکار ہے مسلمانوں کے 57 ملکوں کے بے غیرت اور کفر کے کاسہ لیس حکمرانوں کی بے حسی اور نام نہاد انسانی حقوق کا ڈھول بجانے والوںپر ،اور اقوام متحدہ کی مسلم دشمن قراردادوں پر۔ لیکن اللہ مومنوں کو ستانے والوں کو نہیں بخشتا، اور حالیہ عالمی طاغوت کی بربادی اور آگ اس پر دلالت کرتی ہے جس کا وعدہ اللہ نے سورہ البروج میں کیا ہے

: ’’بے شک جنہوں نے ایمان دار مردوں اور ایمان دار عورتوں کو ستایا پھر توبہ نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلانے والا عذاب ہے۔‘‘

جو المیہ مسلم دنیا کو درپیش ہے وہ مسلم حکمرانوں کی کفر کی کاسہ لیسی اور جرنیلوں کی بزدلی ہے۔

بھلا کر نصِ قرآنی یہودی و نصرانی
شیاطینِ زمانہ کا یہ پیروکار ہے آقا
بھلا کر آپ کی بخشی ہوئی تیغِ ہلالی کو
یہ دشمنوں سے مانگتا تلوار ہے آقا

حصہ