قرآن حکیم،مقصد،پیغام اور تقاضے

109

(تیسرا اور آخری حصہ)

فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ ج اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ o (الزخرف ۴۳: ۴۳-۴۴) ’’اے پیغمبر‘ جو کچھ تمھاری طرف وحی کیا گیا ہے‘ اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقیناً ایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپرس ہوگی۔

امام شاطبی ؒ نے بجا فرمایا ہے:
جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہمدم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا ۔ (الموافقات ‘ ج ۳‘ ص۳۴۶)

(۴) قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط (البقرہ ۲:۱۲۱) ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے‘ وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے‘‘۔

اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں‘ یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے‘ ادب سے مطالعہ کیا جائے‘ ترتیل سے پڑھا جائے اور خوش الحانی سے پڑھا جائے وغیرہ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔ قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزر جایا جائے‘ بلکہ اس کی گہرائیوں میں اترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے:

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo (یونس ۱۰:۲۴) ’’غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں‘‘۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَا ٓ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ o (الانبیا ۲۱:۱۰) ’’لوگو‘ ہم نے تمھاری طرف کتاب اتار دی ہے‘ جس میں تمھارا ذکر ہے‘ کیا تم غور نہیں کرتے!‘‘

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْآ اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (ص ۳۸:۲۹) ’’اے پیغمبر‘ یہ قرآن برکت والی کتاب ہے‘ جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے‘ تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ وہ اس سے نصیحت پکڑیں‘‘۔

یہی صحابہ کرام ؓ کا طریقہ تھا کہ وہ قرآن پاک کی آیات کو سمجھ سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکر کرتے تھے۔

(۵) قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی ہو نہیں سکتا‘ کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذ باللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے‘ مگر ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے‘ کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے دس آیتیں سیکھ لیتا تھا‘ تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا‘ جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘ (ابن کثیر‘ جلد اول‘ ص ۵)۔

پھر قرآن کوسمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ اس مبارک ہستی ؐ کو ماننا‘ جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔
اس سلسلے میں رسول ؐاللہ کے اسوئہ حسنہ سے سرموانحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔

قرآن: ایک تحریک
اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے‘ اسے پھیلانے‘ اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بہت سچ لکھا ہے کہ:

فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا‘ جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے‘ جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے‘ کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصور مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میںاس کے سارے رموز حاصل کر لیے جائیں… یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفرو فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے‘ ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے‘ ایک ایک فتنہ جُو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فرد واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافت الٰہیہ کے قیام تک پورے ۳۰ سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔

اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفر و دیں اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی منزل کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو‘ اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے‘ اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں‘ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ‘ حبشہ اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے اور سابقین اولین سے لے کر مولفتہ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا ’’سلوک‘‘ ہے‘ جس کو میں ’’سلوک قرآنی‘‘ کہتا ہوں۔اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے‘ قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھیں۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں‘ لیکن یہ ممکن نہیں کہ قرآن اپنی روح کواس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔

پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام‘ اس کی اخلاقی تعلیمات‘ اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین‘ آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے‘ جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ مقدمہ‘ ص ۳۳-۳۴)۔

یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا لیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھر جاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔

قرآن کی طرف دعوت
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہو سکتا ہے‘ جب ہم قرآن کے پیغام کوسمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے‘ ان سے نکلنے‘ ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے اور صادق برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی تلقین کی تھی:

رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی‘ یارسول ؐاللہ!
رسول ؐ اللہ: اللہ کی کتاب
٭ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں
٭ تم سے بعد ہونے والی باتوں کی خبر ہے
٭ اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے
٭ اور یہ ایک دو ٹوک بات ہے‘ کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں
٭ جو سرکش اسے چھوڑے گا‘ اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا
٭ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ اسے گم راہ کر دے گا
٭ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے
٭ ‘یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے
٭ یہی بالکل سیدھی راہ ہے
٭ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں
٭ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں
٭_ اہل علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا
٭ اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی
٭ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں
٭ جس نے اس کی سند پر کہا‘ سچ کہا
٭ جس نے اس پر عمل کیا‘ اجر پائے گا
٭ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا‘ اس نے انصاف کیا
٭ جس نے اس کی دعوت دی‘ اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔
یہی وہ سیدھی راہ ہے جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے!

حصہ