ایک مصافحہ، ایک تصویر:
لبرل حکمرانوں کی اپنے دین و مذہب کے ساتھ نام کے سوا کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ ہم اُن کے حق میں دُعا کرتے ہیں کہ کاش وہ عمرے، وہ تسبیحات جو یہ کرتے نظر آتے ہیں اُن کے دل میں بھی اُتر جائیں۔ لبرل اقدار کے فروغ کے باوجود پاکستا ن آج 2025ء میں بھی اسلامی معاشرت والے ممالک کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ غزہ سے لے کر ناموسِ رسالت سمیت عالمِ اسلام کا کوئی معاملہ ہو، پاکستانی معاشرہ اُمت کی نمائندگی کرتا رہتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کی عرب امارات کے بادشاہ سے اِنتہائی ’گرمجوش مصافحہ‘ کی تصویر سوشل میڈیا پر اہم موضوع بن گئی۔ اگر وزیراعلیٰ یا اُن کے عقل مند مشیر سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تصاویر جاری ہونے سے روک دیتے تو علانیہ منکر کے دائرے سے باہر آجاتے اور ذمہ داری صرف چچا پر ہوتی۔ عورت کی حکمرانی پہلے ہی ایک مسئلے کے طور پر ہمارے ہاں موجود ہے، اُس کے مضمرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس ہفتے عرب امارات کے بادشاہ اور اُس کے شہزادے نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے وزیر خارجہ کے ساتھ ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا، گلے ملے، گال چومے، ہاتھ ملائے… کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ 2 ارب ڈالر کا قرض وفاقی تھا، صوبائی نہیں تھا جس کی مدت میں اضافہ کرایا گیا۔ اس میں وزیراعلیٰ کی شرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
مدیراعلیٰ جسارت شاہنواز فاروقی نے اپنے مضامین میں ’شریف خاندان‘ کی اسلام دشمنی کے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلی یہ تصویر اس خاندان کے دیے ہوئے تازہ زخم کی مانند تھی۔ تصویر نے سوشل میڈیا پر سیاسی ہی نہیں مسلم اقدار اور روایات پر بھی سوالات اٹھائے۔ چند دن قبل ہی ڈاکٹر ذاکر نائیک کو حکومت نے بلایا تھا۔ اُنہوں نے بھی یہ مباحث زندہ کیے تھے، یعنی نامحرم سے قربت، مخلوط اجتماع و دیگر۔
کیا مریم نواز وزیراعلیٰ کی حیثیت میں دیگر ساتھی مرد اسٹاف سے مصافحہ کرتی ہیں جیسے کوئی مرد وزیراعلیٰ کرتا ہے؟ نامحرم بادشاہ کے ساتھ مصافحہ سوال کیوں نہ بنے گا؟ عوام نے سوشل میڈیا پر اس عمل کو اسلامی روایات کے خلاف قرار دیا۔ تصویر کے ساتھ میڈیا پر یہ خبر جاری ہوئی کہ ’’عرب امارات نے پاکستان کے2 ارب ڈالر قرض کی واپسی کی تاریخ میں توسیع کردی ہے‘‘۔ اس کا کیا مطلب لیا جائے گا؟ مسلم اقدار و اسلامی ثقافت میں نامحرم مردوں کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی رابطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارک میں ’’سر پر کیل ٹھونکنے‘‘ کے مصداق قرار دیا ہے۔ سید مودودیؒ تفہیم القرآن میں حدیثِ مبارکہ کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں ’’ایک مرتبہ مسجدِ نبوی کے باہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورتیں گڈمڈ ہورہے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: ’’ٹھیر جائو، تمہارے لیے سڑک کے بیچ میں چلنا درست نہیں ہے، کنارے پر چلو‘‘۔ یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہوکر دیواروں کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں (ابو دائود)۔ ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط مجلس، اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائرکھتی ہے۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پر بھی دونوں صنفوں کو خلط ملط نہیں ہونے دیتا، اس کے متعلق کون تصور کرسکتا ہے کہ وہ کالجوں میں، دفتروں میں، کلبوں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا!‘‘(سورۃ النور حاشیہ 49)
مریم نواز کا اس طرح مصافحہ کرنا نہ صرف اُن کی شخصیت بلکہ اُن کی سیاسی حیثیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ عوامی رائے میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اس طرح کی حرکات مسلم اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں ا ور معاشرت میں بری مثال بن کر لبرل اقدار کو ٹھونسنے کا سبب بنتی ہیں۔مریم نواز کے اس عمل نے اُن کے حامیوں میں تقسیم پیدا کردی ہے۔بہت سے لوگوں نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اُن کی مذہبی شناخت اور اصولوں کے خلاف ہے، جب وہ نیب میں پیش ہوتی ہیں تو انہیں نا محرم مردوں کے سامنے آنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔سوشل میڈیا پر عوام نے سرکاری علماء سے دریافت کیا کہ اس عمل کے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے متعلق فتویٰ ضروری ہے یا نہیں؟
میٹا پالیسی:
میٹا، فیس بک اور انسٹاگرام کی مدر کمپنی ہے، اُس کا مالک مشہور یہودی مارک زکربرگ ہے۔ اُس نے 7 جنوری کو اعلان کیا کہ وہ امریکا میں اپنے تیسرے فریق کے حقائق کو جانچنے والے پروگرام کو ختم کردے گا۔ اُس کا مقصد اپنے پلیٹ فارمز پر ’’زیادہ مباحث‘‘ کو فروغ دینا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ غزہ کے علاوہ بھی فیس بک کی بہت سخت پالیسیاں رہی ہیں۔ مسلمانوں کے حوالے سے تو ہم زیادہ جانتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ دیگر مذاہب و گروہوں کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو۔ فیس بک کی اس سنسر پالیسی کے تحت لاکھوں پوسٹیں ختم کی گئیں، پہنچ(reach) ختم کی گئی، اکائونٹ معطل کیے گئے۔
مارک زکر برگ نے کہا کہ پچھلا ’’حقائق کی جانچ کا نظام‘‘ سنسرشپ کا ایک اہم ذریعہ بن گیا تھا اور اس نے صارفین کے درمیان اعتماد کو کمزور کردیا تھا۔ انہوں نے حقائق کی جانچ کرنے والوں پر سیاسی جانب داری کا الزام لگایا اور اشارہ دیا کہ اس طریقہ کار نے جائز سیاسی بحث و مباحثے کی ضرورت سے زیادہ نگرانی کی۔ نیا نظام صارفین کو پوسٹس پر نوٹس یا اصلاحات شامل کرنے کی اجازت دے گا۔ اس تبدیلی کا مقصد مواد کی نگرانی میں محسوس ہونے والی جانب داری کو کم کرنا اور آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے خیالات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
یہ فیصلہ ٹرمپ کے صدر بننے کے تناظر میں ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فیس بک نے کیپٹل ہل کے کیس میں صدر ٹرمپ کا 2021ء میں فیس بک اکائونٹ معطل کیا تھا۔ ٹرمپ نے مارک زکر برگ کو الیکشن 2024ء سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے الیکشن میں کوئی مداخلت کی تو زندگی بھر جیل میں رہے گا۔ اس کے بعد نومبر 2024ء میں دونوں نے ایک کھانے پر ملاقات کی۔کہا جاتا ہے اُس میں فیس بک کی سنسر پالیسیوں پر خاصی گفتگو ہوئی، کیونکہ اُس کے بعد ٹرمپ الیکشن جیت گیا جیسا نظر آرہا تھا۔ ابھی حلف ہونا باقی ہے، اس لیے فیس بک نے شاید حالات دیکھ کر پینترا بدل لیا ہے۔ ویسے بھی اُس کا کاروباری حریف یعنی ایلون مسک صدرِ امریکا کا چہیتا بنا ہوا ہے۔ مارک کو بھی ضرورت تھی کہ وہ بھی طاقتور صدر کے قریب ہوسکے۔ یہی نہیں، اُس نے ایک ملین ڈالر کا چندہ بھی ٹرمپ کو الیکشن مہم کے لیے دیا۔
امریکا میں میٹا کے مواد کے حقائق کی جانچ 10ادارے کرتے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام میٹا کے پلیٹ فارم پر غلط معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ مگر اب یہ عمل تو اس کا لازمی تقاضا ہوگا۔ اے آئی کے بعد جو جعلی خبروں اور ڈیپ فیک کا خوفناک سیلاب آرہا ہے، بلکہ آچکا ہے وہ انتہائی ہولناک اور خطرناک موضوع ہے۔ اب جھوٹی یا جعلی خبر بھی سوشل میڈیا پر کمرشل نوعیت کی بن چکی ہے۔ یہ انتہائی خوفناک صورتِ حال ہوگی۔ اس ہفتے کئی ڈیپ فیک تصاویر اور وڈیو مین اسٹریم میڈیا کی خبروں میں شامل رہیں۔ اس موضوع پر اگلے ہفتے تفصیل سے بتائیں گے۔
3خبریں:
امریکا سے مزید 3 بڑی خبریں سوشل میڈیا پر چھائی رہیں۔ ایک تو بدترین سرد موسم کے اثرات… جس کی وجہ سے 7 ریاستوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا، 40 ریاستوں میں 250 ملین یعنی 25 کروڑ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔ بجلی، پانی، کاروبار، سڑک، سب بند۔ یہ گزشتہ 10 سال کی سب سے شدید برف باری کہی جارہی ہے۔ امریکا میں سرد موسم ہمیشہ آتا ہے، مگر اُن کی اپنی موسمیاتی رپورٹ کے مطابق 1980ء سے تبدیلی کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری خبر کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ کی ہے جو اس تحریر تک 3 ہزار سے زائد ایکڑ زمین کو برباد کرچکی ہے۔100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چل رہی ہے اور آگ پھیلارہی ہے۔2000 سے زائد گھر، عمارتیں،گاڑیاں جل کر خاک ہوچکے۔ 5 ہلاکتوں کی اطلاع جمعرات تک تھی۔ ہالی ووڈ کے بڑے بڑے فلمی ستاروں کے محل نما گھر جل گئے۔ پانی کم پڑگیا ہے، آگ نہیں بجھ رہی۔ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کروا دی گئی۔ 50ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
شاید تحریر سے تباہی کی شدت سمجھ میں نہ آئے، سوشل میڈیا پر آنے والی تصویروں سے آگ کی شدت و نقصانات سمجھے جا سکتے ہیں۔ 2024ء میں امریکا نے آگ لگنے کے 8ہزار واقعات رپورٹ کیے، صرف ایک سال میں 10 لاکھ ایکڑ زمین جل گئی۔ امریکی ادارے آگ کی بڑی وجہ انسانی کوتاہی بتاتے ہیں، تاہم اُس کے پھیلنے کی وجہ اُن کے نزدیک کچھ خاص ہوائیں ہیں، جن کو وہ مختلف نام دیتے ہیں۔ کیلی فورنیا والی آگ کی ہوا کو SantaAna کا نام دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکا کی تباہی کے یہ مناظر دیکھ کر مجھے غزہ، افغانستان، عراق میں تباہی یاد آئی کہ وہاں تو امریکا نے بم برساکر تباہی مچائی مگر یہاں اُن مظلوموں کی آہیں جہاں جارہی ہیں وہاں سے صرف ہوا آتی ہے اور کام پورا کردیتی ہے۔ اب آپ بہتر جانتے اور مانتے ہوں گے کہ ہوا کہیں بھی چلے، کیسی بھی چلے، یہ کون چلاتا ہے؟کس کے حکم سے چلتی ہیں؟ یہ الگ سے بتانے، سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
تیسری خبر بھی امریکا سے آئی ہے کہ صدر جوبائیڈن نے امریکا کے ساحلی پانیوں میں آف شور تیل اور گیس کے نئے کنوئوں کی کھدائی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد ماحولیاتی تحفظ اور عوامی صحت کو یقینی بنانا ہے۔ یہ پابندی 1953ء کے ایکٹ کے تحت لگائی گئی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سمندری وسائل کے استحصال کو روکنے اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کئی مزید قوانین بنائے گئے ہیں مگر یہ دُنیا ویسے ہی تباہ کی جا رہی ہے، جیسے قانون بننے سے پہلے تھی، وگرنہ موسمیاتی تباہی اس صورتِ حال پر نہ پہنچتی۔
آف شور ڈرلنگ:
آف شور ڈرلنگ، ساحل سے دور بیچ سمندر میں کی جاتی ہے۔ اس عمل نے دُنیا بھرمیں پھیلی مادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1947ء میں امریکا سے جدید دور کی آف شور ڈرلنگ کا آغاز خلیج میکسیکو میں کنویں کی کھدائی سے ہوا۔ سرمایہ دارانہ صنعتی دور کا انحصار مشینوں پر ہے۔ مشین چلانے کے لیے ایندھن درکار ہوتا ہے۔ اُس کے لیے تیل و گیس کو بطور ایندھن نکالا اور استعمال کیا گیا۔ زمین، پہاڑ، سمندر سب کھود دیے گئے۔ صنعتی ترقی دیگر ملکوں میں پھیلنا شروع ہوئی تو تیل کی طلب میں اضافہ ہوا۔ مختلف ممالک نے سمندری ذخائر کی تلاش شروع کردی۔ تیل اور قدرتی گیس بجلی گھروں، صنعتی مشینوں، اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہوتی ہے۔ تیل کو مختلف کیمیکل اور پلاسٹک بنانے، نیز دیگر صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
نتیجہ:
ترقی خوب ہوئی ہے، لوگ تیل کے عادی بن چکے ہیں، اس کے بغیر زندگی سوچ سے باہر ہے۔ تباہی کے اثرات زمین اور سمندر دونوں پر ظاہر ہورہے ہیں۔ تیل جس ملک میں نکلا وہاں کی معیشت مضبوط ہوگئی، مگر دنیا کا ماحول تباہ ہوگیا۔ گرمی،سردی سب کی شدت بڑھ چکی۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق ڈرلنگ کے دوران زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، جو فضا کو آلودہ کرتی ہیں۔ زمین سے نکلنے والی گیس کو جلانے سے فضا میں خطرناک مادے شامل ہوجاتے ہیں جو انسانی صحت اور ماحول دونوں کے لیے مضر ہیں۔ یہی نہیں، سمندر میں تیل کے اخراج سے سمندری حیات مستقل متاثر ہورہی ہے۔ تیل کی تلاش اور نکاسی کے لیے زمین کی کھدائی اور دیگر سرگرمیاں زمین کی ساخت اور زرخیزی کو متاثر کرتی ہیں۔ بڑے بڑے اجلاس ہورہے ہیں، سب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، مگر یہ ایک متنازع اور ناقابلِ حل کوشش نظر آتی ہے،کیونکہ لوگ کوئی سہولت چھوڑنے پرآمادہ نہیں۔