ٹیلنٹ کے حصول کی جنگ

66

باصلاحیت اور انتہائی باصلاحیت افراد دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ باصلاحیت افراد سے کبھی خالی نہیں رہا۔ پاکستان کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جن کے نوجوان غیر معمولی سطح پر باصلاحیت ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں باصلاحیت نوجوان معقول تعداد میں ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ صرف باصلاحیت افراد یا نوجوانوں کے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی نوجوان کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کرنے کا نظام موجود ہے یا نہیں؟ یہ نکتہ بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ کوئی بھی باصلاحیت نوجوان یا پختہ عمر کا فرد محض باصلاحیت ہونے کی بنیاد پر کچھ نہیں کرسکتا۔ کوئی نہ کوئی صلاحیت تو قدرت نے ہر انسان میں رکھی ہی ہوتی ہے۔ اُس صلاحیت کو پروان چڑھانا، نکھارنا اور سنوارنا بھی تو ہوتا ہے۔ کوئی بھی نوجوان محض باصلاحیت ہونے کی بنیاد پر ڈھنگ کی زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ لازم ہے کہ اُس کی صلاحیت کو شناخت کرکے پروان چڑھایا جائے، نکھارا جائے تاکہ وہ اپنے شعبے میں آگے بڑھنا چاہے تو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انتہائی باصلاحیت افراد سے دنیا کا کوئی بھی خطہ یا حصہ خالی نہیں رہا۔ جنہیں آج ہم انتہائی پس ماندہ خطوں کے طور پر جانتے ہیں، کبھی وہاں بھی بے مثال نوعیت کی مادّی ترقی ممکن بنائی گئی تھی اور اُن خطوں کے اذہانِ رسا نے ایک دنیا کو حیران کیا تھا۔ افریقا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مغربی ایشیا (مشرقِ وسطیٰ) اور وسطِ ایشیا نے کبھی خود ترقی کی تھی اور علم و فن میں اُن کا مقام خاصا بلند رہا۔ چین بھی ماضی میں ایک انتہائی سنہرا دور گزار چکا تھا۔ وہ برّی، بحری قوت بھی رہا اور ایک تہذیب کے طور پر بھی اُس کا مقام بلند رہا۔

ہر خطے اور ہر ملک نے مادّی ترقی کا ایک نہ ایک بھرپور دور تو گزارا ہی ہے۔ بھارت کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اُس نے دو ہزار سال قبل خاصا خوش حالی کا دور گزارا تھا اور پھر مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں بھی بھارت باقی دنیا میں خاصا نمایاں رہا۔ اگر بھارت خوش حال نہ ہوتا اور علمی و فنی بنیادوں پر مضبوط نہ ہوتا تو یورپی اقوام اُس کا رُخ نہ کرتیں، اُس پر قبضہ نہ کرتیں، اُس کی دولت نہ لُوٹتیں۔

اسلام کی آمد کے بعد خطۂ عرب نے بھی بھرپور ترقی کا دور گزارا۔ اُس سے قبل رومن سلطنت اور ایرانی سلطنت نے بھی بے مثال ترقی اور خوش حالی کا دور دیکھا تھا۔ اب دنیا کم و بیش پانچ صدیوں سے یورپی اقوام کا دورِ عروج دیکھ رہی ہے۔ یورپ کی متعدد اقوام نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے ہوش رُبا نوعیت کی ترقی یقینی بناکر اپنے لیے ایسے امکانات پیدا کیے جن کے ذریعے وہ پوری دنیا کو مٹھی میں لینے کے قابل ہوسکی ہے۔

مغرب میں شمالی امریکا اور یورپ شامل ہیں۔ اصولی طور پر تو جنوبی امریکا کو بھی مغرب ہی کا حصہ گرداننا چاہیے، مگر وہ چونکہ پس ماندہ خطہ ہے اِس لیے یورپ اور شمالی امریکا نے اُسے اپنے ساتھ رکھنا گوارا نہیں کیا ہے۔

یورپ بہت سے معاملات میں ہمیشہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ تنازعات دراصل تضادات کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ یورپ کا رقبہ بہت کم ہے۔ رقبے کے اعتبار سے آبادی زیادہ ہے۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے یورپ پانچ صدیوں سے دنیا کی قیادت کررہا ہے۔ یورپ میں فطری علوم و فنون کو زندگی کی بنیادی قدر قرار دینے کا سلسلہ پندرہویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا۔

ایک طویل مدت تک یورپ بھر میں پاپائیت بامِ عروج پر رہی۔ مذہبی طبقے نے زندگی کے ہر معاملے اور پہلو کو اپنی گرفت میں لیے رکھا بلکہ شکنجے میں یوں کَس کر رکھا کہ لوگ مذہب ہی سے بیزار ہوگئے۔ مذہب سے بیزاری دراصل مذہب کے نام پر اپنی تجوریاں بھرنے والوں سے بیزاری تھی۔ رفتہ رفتہ خود مذہب بھی لپیٹ میں آگیا۔

جب یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کا دور شروع ہوا تب تعقل کو بنیادی قدر کا درجہ حاصل ہوا اور مذہب کو خیرباد کہنے پر زور دیا جانے لگا۔ فطری علوم و فنون میں نمایاں پیش رفت نے یورپ کو باقی دنیا سے ممتاز کردیا۔ یورپی اقوام فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی راہ پر بڑھتی گئیں، زندگی کا حلیہ تبدیل ہوتا گیا اور فطری طور پر یورپ کی سوچ باقی دنیا پر اثرانداز ہوتی گئی، کیونکہ مادّی ترقی صرف یورپی تحقیق کی بدولت ممکن ہو پائی تھی۔

آج کا یورپ انتہائی عجیب اور نازک موڑ پر ہے۔ یورپ میں پیدائش کی شرح گر رہی ہے۔ معمر آبادی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں معیشت پر بھی شدید نوعیت کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یورپ کے پالیسی ساز انتہائی الجھن کا شکار ہیں۔ باصلاحیت افراد اور بالخصوص باصلاحیت نوجوانوں کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا کو بھی کچھ ایسے ہی بحران کا سامنا ہے مگر چونکہ اُس کی اپنی آبادی غیر معمولی ہے، اس لیے وہ بہت کچھ تنِ تنہا بھی کرسکتا ہے۔ یورپ میں بڑی آبادی والے ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں۔ درجنوں یورپی ممالک کی آبادی بہت کم ہے جس کے باعث اُن کے لیے ترقی کی دوڑ میں شامل رہنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ یورپ کی چھوٹی اقوام فطری علوم و فنون کے حوالے سے قابلِ قدر ترقی یقینی بنانے میں کامیاب تو رہی ہیں تاہم اب اُن کے لیے اِس سلسلے کو آگے بڑھانا، ترقی برقرار رکھنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔

امریکا اور یورپ کا مخمصہ بہت عجیب ہے۔ ایک طرف تو دونوں کو دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے اور دوسری طرف وہ کہیں اور سے آنے والوں کو مکمل طور پر قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اجنبی کو ہر حال میں اجنبی گرداننے کی روش بھی یہ دونوں خطے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا اور یورپ میں تارکینِ وطن سے بیزاری، بلکہ نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا میں اس حوالے سے عمومی سطح پر بہت زیادہ اشتعال پایا جاتا ہے۔ یورپ میں لوگ اس معاملے میں قدرے مہذب ہیں، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں بھی عمومی سطح پر میلانِ طبع یہ ہے کہ تارکینِ وطن کو آسانی سے قبول نہ کیا جائے۔

تارکینِ وطن کو قبول نہ کرنے کے رجحان کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کو بڑے پیمانے پر باصلاحیت نوجوان بھی درکار ہیں۔ دنیا بھر کے پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک کے باصلاحیت نوجوان بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں امریکا اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی اور خلیجی ریاستوں میں دنیا بھر کے باصلاحیت نوجوانوں کی کھپت کی گنجائش ہے، تاہم یہ گنجائش امریکا اور یورپ کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔

امریکا اور یورپ کے لیے معاملات بہت الجھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں خطوں کی آبادی میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو تارکینِ وطن کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ دونوں ہی خطوں میں نوجوانوں کی واضح کمی واقع ہورہی ہے۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند ہونے اور علاج کی بہترین سہولتیں میسر ہونے کی بدولت اب مغربی معاشروں میں سینئر شہریوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ کیفیت بعض معاشروں میں خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بزرگ شہریوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ حکومت سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ دس پندرہ سال میں معاملات کیا ہوں گے۔ پریشانی میں مستقل نوعیت کا اضافہ کرنے والی بات یہ ہے کہ جاپان میں شرحِ پیدائش بہت گرچکی ہے۔ نئی نسل شادی کرکے فیملی شروع کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی۔

بعض یورپی معاشروں میں ایسی ہی کیفیت پائی جارہی ہے۔ شرحِ پیدائش میں کمی اور سینئر شہریوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ حکومتوں کے لیے مستقل دردِ سر کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تارکینِ وطن سے نفرت میں اضافے کے باوجود یورپ کے بیشتر آجر دنیا بھر سے باصلاحیت افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے اپنے معاشروں میں اِتنا دم خم نہیں کہ معیشت کے لیے درکار جواں سال افرادی قوت فراہم کرسکیں۔ تارکینِ وطن سے نفرت یا بیزاری عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ آجر تو سب سے سستی افرادی قوت چاہتا ہے اور وہ بھی بلند معیار کے ساتھ۔ یورپ کے آجر بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اپنے معاشرے کے نوجوانوں کی نسبت بیرونی خطوں اور معاشروں سے آنے والے باصلاحیت نوجوان سستے بھی پڑیں گے اور کام بھی زیادہ اور معیاری کریں گے۔ پس ماندہ خطوں کے نوجوان جب ترقی یافتہ خطوں کی معیشتوں میں رُو بہ عمل ہوتے ہیں تو خوب کام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ معاشرے میں کام کرنے کی صورت میں اُنہیں ایک ماہ کی محنت کا اِتنا معاوضہ ملے گا جتنا وہ اپنے معاشرے میں ایک سال میں بھی نہیں کما سکتے۔ زیادہ کمائی کی صورت میں اُنہیں زیادہ کام کرنے اور ہر کام کو پوری دل جمعی کے ساتھ ختم کرنے کی تحریک ملتی ہے۔

امریکا، کینیڈا اور یورپ کو اب بھی باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ یہی سبب ہے کہ تارکینِ وطن کے حوالے سے پائی جانے والی شدید بیزاری کے باوجود یہ تمام معاشرے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہیں جن کے ذریعے دنیا بھر سے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے۔

امریکا اور یورپ کو باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد اس لیے بھی درکار ہے کہ متعدد ممالک ترقی کے زینوں پر تیزی سے چڑھتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کے اپنے نوجوان ملکی حدود ہی میں کھپ رہے ہیں۔ بھارت، چین، انڈونیشیا، ترکی اور برازیل کی معیشتیں تیزی سے پنپ رہی ہیں جس کے نتیجے میں اِن ممالک کے نوجوانوں کو دوسرے ملکوں یا خطوں کی طرف دیکھنے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ بھارت میں بہت سے نوجوان ملک ہی میں اِتنا کما رہے ہیں کہ کہیں اور جانے کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ انتہائی غریب طبقے کے نوجوان کسی نہ کسی طور امریکا اور یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اِن کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے اور پروفیشنل سطح پر کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ نوجوان مزدوری والے عام کام کرتے ہیں۔

تمام ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اعلیٰ ذہن درکار ہیں۔ انتہائی باصلاحیت اور کام کرنے کی حقیقی لگن سے متصف نوجوان کس معیشت کی اوّلین ترجیح نہیں؟ بھارت، چین، جاپان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، برازیل، ترکی وغیرہ اپنے ہاں بہتر امکانات پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ایسے میں وہاں کے نوجوان امریکا، کینیڈا اور یورپ جاکر پُرکشش معاشی امکانات تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ ایسے میں یورپی معاشروں کے درمیان بھی ٹیلنٹ کے حصول کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ غیر ہنرمند افراد کا معاملہ تو خیر اب زمین پر آچکا ہے مگر تعلیم و تربیت یافتہ ذہین اور محنتی نوجوانوں کے لیے یورپ اور شمالی امریکا کے دروازے اب بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا، یورپ اور کینیڈا کو اب بھی اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ پروفیشنلز کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے۔ اگر کوئی باصلاحیت نوجوان اپنے پسندیدہ شعبے میں اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے پر بھی بہتر یا پُرکشش مواقع حاصل کرنے میں ناکام ہے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، مغربی دنیا اُس کی منتظر ہے۔ جاب ایکسپلوریشن کے ذریعے بہت آسانی سے اچھی طرح معلوم کیا جاسکتا ہے کہ معقول جابز کہاں زیادہ آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

ہمارے ہاں آج بھی امریکا اور یورپ جانے کے لیے غیر قانونی طریقے بروئے کار لانے کا رجحان عام ہے۔ جو لوگ امریکا اور یورپ میں جاکر کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں آباد ہونے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں وہ جتنی رقم انسانی اسمگلرز کو ادا کرکے امریکا یا یورپ پہنچنے کی خاطر غیر قانونی طریقے اپناتے ہیں اُس سے کہیں کم رقم میں یورپ جانے کے قانونی طریقوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یورپ کی کوئی بھی بڑی زبان سیکھنا آج بھی فائدے کا سودا ہے۔ یورپی ممالک اُن لوگوں کو ورک پرمٹ یا ایسی ہی کوئی اور دستاویز دینے میں دیر نہیں لگاتے جو متعلقہ زبان جانتے ہوں۔

یورپی معاشرے اور امریکا و کینیڈا زیادہ سے زیادہ باصلاحیت افراد کو اپنے ہاں بسانے اور کھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ معیشتوں کو مضبوط حالت میں رکھنے کے لیے دنیا بھر سے باصلاحیت نوجوانوںکو بلایا جائے اور کھپایا بھی جائے۔ یورپ، امریکا اور کینیڈا کی کوشش ہے کہ دنیا پر یہ بات کھل کر ظاہر بھی نہ ہونے دی جائے کہ اُنہیں جواں سال اور انتہائی باصلاحیت افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تارکینِ وطن کے خلاف پائی جانے والی بیزاری اور نفرت کے باوجود دنیا بھر سے باصلاحیت نوجوانوں کو قبول کرنے کی پالیسی ہرگز رُو بہ عمل نہ ہوتی۔

پاکستان جیسے ممالک کے لیے اب بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں کھپانے کے لیے باصلاحیت اور پُرجوش نوجوانوں کو مختلف شعبوں کے لیے قابلِ رشک حد تک تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مغربی دنیا کو معیاری افرادی قوت بہت بڑے پیمانے پر درکار ہے۔ سینئر شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور گرتی ہوئی شرحِ پیدائش یورپ میں افرادی قوت کی کمی کا بحران پیدا ہی نہیں کررہی بلکہ اُس کی شدت میں اضافہ بھی کررہی ہے۔ لازم ہے کہ اِس حوالے سے ہماری بھی آنکھ کھلے، ہم معاملات کا پوری دیانت سے بھرپور جائزہ لیں اور ایسی حکمتِ عملی مرتب کریں جس کے نتیجے میں ہماری نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔

حصہ