مہک کا راز

30

کچھ توقف کے بعد انھوں نے درخواست کرنے کے انداز میں کہا کہ آپ مجھے جس طرح چاہیں پابند کرلیں لیکن آپ کو قانون کا واسطہ ان بچوں کو اپنے ہمراہ نہ لے جائیں۔ ایک تو یہ کہ یہ بچے ہیں اور دوئم یہ کہ یہ میرے مہمان بھی ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میرے مہمان یہاں سے پکڑ کر تھانے لے جائے جائیں۔

انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ مجبوری ہے۔ ان کو ساتھ لے جانا ضروری ہے۔ البتہ آپ کی سفارش پر میں اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ ان بچوں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ یہاں سے لے جائوں۔ آپ بالکل بھی فکر نہ کریں، اگر یہ آپ کے مہمان ہیں تو ہمارے لیے آپ ہی کی طرح قابلِ احترام ہیں۔

انسپکٹر حیدر علی کا جواب سن کر چودھری ایاز علی کے چہرے کی طمانیت بہت حد تک بحال ہوچکی تھی۔

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک گہرے نیلے رنگ کی کار باہر آکر رکی جس پر پولیس لکھا ہوا صاف دیکھا جا سکتا تھا۔

جمال اور کمال صاف پہچان چکے تھے کہ یہ ایک بلٹ پروف کار ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک باوردی ڈرائیور اندر داخل ہوا اور اس نے حیدر علی سے کہا ’’کار آچکی ہے۔ کوئی حکم؟‘‘

’’ٹھیک ہے، باہر کار ہی میں انتظار کرو‘‘۔ حیدر علی نے کہا۔ پھر مڑ کر دو اہل کاروں کو حکم دیتے ہوئے کہا ’’ان تینوں کو ساتھ لے کر ان کے کمروں تک جائو۔‘‘

’’اور ہاں‘‘، انسپکٹر حیدر علی نے ان تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’تم سب اپنے اپنے کمروں میں جائو۔ آتے جاتے کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے۔ آپ لوگ جو جو سامان لے کر آئے ہیں اس کے کاغذ کا بھی کوئی ٹکڑا یہاں نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

تھوڑی دیر میں چودھری ایاز علی کی زمینوں سے ایک قافلہ فی الحال نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہورہا تھا۔ چودھری صاحب کو بحفاظت اُن کی ذاتی رہائش گاہ بھجوا دیا گیا تھا اور ان کی رہائش گاہ کو تاحکمِ ثانی سب جیل قرار دے کر ان کو عمارت کی حدود کے اندر ہی رکے رہنے کی ہدایت کردی گئی تھی۔

اس قافلے میں ایک بلٹ پروف کار، ایک قیدیوں والی وین اور ایک بکتر بند گاڑی شامل تھی جس میں بقول انسپکٹر حیدر علی، نہایت خطرناک پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس کا ایک مجرم اور دو اور سہولت کار ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کے ساتھ بند تھے۔ قیدیوں کی وین میں بھی درجن بھر اور قیدی تھے جن کے متعلق خیال یہی تھا کہ وہ کسی نہ کسی لالچ کی بنیاد پر بہت سارے جرائم میں سہولت کاروں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جو باوردی اہلکار بلٹ پروف کار لے کر آیا تھا وہ تو قیدیوں کی وین ڈرائیو کررہا تھا جبکہ انسپکٹر حیدر علی بلٹ پروف کار خود چلا رہے تھے۔

’’انکل!‘‘ کمال نے انسپکٹر حیدر علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آپ اس بلٹ پروف کار کو خود کیوں ڈرائیو کررہے ہیں؟ جبکہ اسے تو ایک باوردی ڈرائیور لے کر آیا تھا!‘‘

’’اس کی وجہ بھی تم تینوں ہی ہو‘‘۔ انسپکٹر حیدر علی نے جواب دیا۔

’’ہدایت کی گئی تھی کہ تمہاری پولیس سے شناسائی یا اہمیت کا احساس کسی بھی صورت میں آپریشن میں شامل کسی بھی اہل کار یا وہاں موجود لوگوں کو نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک فرض شناس پولیس آفیسر کی حیثیت سے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جس لہجے میں بات کی وہ نہایت ناشناسائی والا لہجہ تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے اس لب و لہجے کی وجہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ میرے ساتھ آئے اہل کاروں یا وہاں موجود چودھری صاحب سمیت کوئی شک میں مبتلا ہوجائے، لیکن جس انداز میں تم تینوں کی جانب سے رسپونس ملا وہ قابلِ ستائش ہے۔ میں تمہارا جواب سن کر خود بھی شک میں پڑ گیا کہ تم تینوں فاطمہ، جمال اور کمال ہو یا ان کی ڈمیاں؟ ویسے بھی مجھے یقین تھا کہ میرے مخاطب ہوتے ہی تم سمجھ جائو گے کہ میں اس موقع کی مناسبت سے تم لوگوں سے کیا چاہتا ہوں‘‘۔ انسپکٹر حیدر علی نے کہا۔

’’آپ کی ساری باتیں درست سہی، لیکن جن حفاظتی اقدامات کے ساتھ ہم اپنی منزل کی جانب جارہے ہیں کیا وہ بہت ہی پُرخطر ہے؟ بلٹ پروف کار، مجرموں کے لیے بکتربند گاڑی، اور پھر آگے پیچھے پولیس اور فوج کے اسلحہ بردار جوان… یہ سب کیا ہے؟‘‘ جمال نے سوال کیا۔

’’ایک اور بات کیا تم نے محسوس کی؟‘‘ انسپکٹر حیدر علی نے جواب دینے کے بجائے جمال سے پوچھا۔

جمال نے غور کرنے کے بعد کہا ’’بالکل، لیکن کیوں میں کسی ہیلی کاپٹر کی آواز کو بھی سن رہا ہوں؟‘‘

’’ٹھیک‘‘، انسپکٹر حیدر علی نے جواباً کہتے ہوئے بات جاری رکھی ’’جس کیس میں کوئی غیر ملکی ایجنٹ شامل ہو اُس میں کوئی بھی بات کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ بس اسی لیے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ قافلہ بھی کسی اچانک پیدا ہونے والی ہنگامی صورتِ حال سے محفوظ رہے اور ہم اپنے اُس مقام پر بھی ساتھ خیریت سے پہنچ جائیں جہاں ہمیں جانا ہے۔‘‘

جہاں آکر یہ قافلہ رکا تھا یہ ایک چھائونی تھی۔ یہ وہ چھائونی تھی جہاں متعدد بار جمال اور کمال کو بلایا جاتا رہا ہے لیکن فاطمہ پہلی بار یہاں آئی تھی۔ ویسے تو ’’پربت کی رانی کا انجام‘‘ والے کیس میں فاطمہ کو بھی ایک اہم اجلاس میں بلایا گیا تھا لیکن وہ مقام اور تھا۔ یہاں پر جمال کی ٹیم سے بہت سارے ثبوت و شواہد حاصل کرلیے گئے تھے، جس میں وہ کیمیکل بھی شامل تھا جو قیدی نمبر 1103 کو دیا جاتا تھا۔ وہ تصاویر بھی جو اُن خنجروں کی تھیں جو دشمنوں نے ثبوت مٹانے کے لیے اپنے ہی بے ہوش ساتھیوں کے سینوں میں اتار دیے تھے۔ اس مقتول کی خون آلود مٹی کے نمونے بھی تھے جس کو پولیس کی رپورٹ کے مطابق قیدی نمبر 1103 نے قتل کیا تھا، اور پانی و کولڈ ڈرنک کے وہ نمونے جو چودھری صاحب کی اہم میٹنگ میں ان کو چالاکی سے پلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جیلر کے کمرے میں فراہم کی جانے والے پانی اور سوفٹ ڈرنک کی بوتلیں جس سے انھیں مہک آتی محسوس ہورہی تھی، ان سب کو فوری طور پر لیبارٹری روانہ کردیا گیا تھا جس کی رپورٹ چار گھنٹوں بعد آنے کی توقع تھی۔

انسپکٹر حیدر علی کو کسی اور عمارت میں بھیج دیا گیا تھا جبکہ جمال کی ٹیم کو ایک اچھے سے فلیٹ میں یہ ہدایت دے کر بھیج دیا گیا تھا کہ جونہی لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹیں آجائیں گی، ہم انھیں پوری معلومات کے لیے طلب کرلیں گے۔ اُس وقت تک یہ آرام کریں اور جو کچھ بھی انھیں کھانے پینے یا کسی اور ضرورت کے لیے درکار ہو وہ باہر کھڑے خدمت گاروں سے طلب کرنے پر فراہم کیا جا سکتا ہے۔

اس سب کارروائی کے دوران اس بات کا سخت اہتمام کیا گیا تھا کہ جو اہم عہدیدار فاطمہ، جمال اور کمال کو دیکھ چکے ہیں ان کے سوا کسی کی بھی نظر ان پر نہ پڑ سکے۔(جاری ہے)

حصہ