اللہ سب کا رازق

33

میرپور کے ایک چھوٹے سے گائوں میں احمد صاحب اپنی کٹیا میں اکیلے رہتے تھے۔ ان کی ایک ہی ساتھی تھی، اور وہ ان کی گائے تھی۔ ان کے پڑوسی سلیم میاں کا بکرا چوری ہوگیا تھا۔ ایک دن گائے چارا کھا رہی تھی کہ اسے آواز آئی: ’’بہن! میں بھوکی ہوں، مجھے کھانا دے دو۔‘‘

گائے نے دیکھا کہ ایک بھیڑ کھڑی ہے اور اس کے چارے کی جانب آرہی ہے۔

گائے زور سے بولی:’’ارے ارے رکو بہن جی! کون ہو تم اور تمہارا مالک کہاں ہے؟‘‘

بھیڑ نے کہا:’’میرا مالک مجھے مارتا تھا۔ میں اس سے بچ کے بھاگ آئی اور دو دن سے مجھے کھانا نہیں ملا، اسی لیے بہت بھوکی ہوں۔ خدا کے لیے کھانا دے دو، بہت دعائیں دوں گی۔‘‘

گائے بولی: ’’نہیں بہن! جائو کسی اور کے پاس۔ میں اپنا کھانا نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ میرے مالک نے مجھے دیا ہے۔‘‘

اتنے میں احمد صاحب آگئے اور سارا ماجرا سمجھ گئے، پھر انہوں نے بھیڑ کو بھی کھانے کے لیے دیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ رزق اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی لکھا ہوگا جبھی یہ یہاں آئی۔ جب ہم کوئی بھی چیز جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اُس میں سے کسی مجبور کو بانٹتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے زیادہ دیتے ہیں۔ اب گائے اور بھیڑ آپس میں دوست بن گئی تھیں۔ احمد صاحب نے فیصلہ کیا کہ سلیم میاں کا بکرا چوری ہو گیا ہے، تو کیوں نا یہ بھیڑ ان کو دے دیں! اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوں گے اور سلیم میاں کی مدد بھی ہوجائے گی۔

حصہ