گزرتے وقت کا سفر

97

وقت کی یہ خوبی ہے کہ جیسا بھی ہو،گزر ہی جاتا ہے، اور جاتے جاتے بہت کچھ سکھا جاتا ہے۔ وقت ایک ایسا معلم ہے کہ اس کا سکھایا سبق بہت سخت ہوتا ہے، جسے انسان کبھی نہیں بھولتا۔ ساری زندگی کسی مقصد کو پانے کی جدوجہد اور تگ و دو میں دوڑتا ہوا انسان کبھی کبھار چیزوں کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے مگر وقت سب کچھ آشکار کردیتا ہے۔ ایسے حقائق جنھیں انسان دیکھنا نہیں چاہتا مگر وہ آشکار ہوجاتے ہیں۔ ہر چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے اصل چہرے، ہر ڈسپلے کے پیچھے چھپی ہوئی ڈمی، ہر دکھاوے کے پیچھے کی سچائی کو وقت سامنے لے آتا ہے۔

برے وقت کا ایک احسان یہ ہے کہ کسی نہ کسی مخلص دل والے بے لوث انسان سے آپ کو ملوا دیتا ہے جسے آپ سے کوئی غرض وابستہ نہیں ہوتی، جو اپنے کسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ صرف آپ کو خوش اور مطمئن دیکھنے کے لیے آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ جسے آپ کے اسٹیٹس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ آپ کے پاس کوئی کرسی ہو یا نہ ہو، وہ اپنے پاکیزہ احساس کو خوشبو کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ رواں رکھتا ہے۔

وقت کا بڑا سبق یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ابن الوقت اور چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ جب آپ کسی مقامِ عروج پر فائز ہوں تو یہ اکثریت آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتی ہے، اور جب آپ کا عروج نہ رہے تو یہ اکثریت گرد و غبار کی مانند چھٹ جاتی ہے اور اس دھول میں کوئی اکا دکا مخلص انسان ہی باقی رہ جاتا ہے۔ وہ ایک انگلی جو رنج و کرب کے لمحات میں آپ کی آنکھ سے آنسو صاف کرے، اُن دس انگلیوں سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے جو آپ کی خوشی کے وقت تالیاں بجاتی ہیں۔ بسا اوقات سب لوگ آپ کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں صرف رب العالمین ہوتا ہے اور تنہائی ہوتی ہے۔ کسی کا قول پڑھا تھا کہ تم جسے مارنا چاہو، اسے تنہا کردو، اس کا ساتھ چھوڑ دو، وہ بغیر مارے ہی مر جائے گا۔ لوگ ایسے رویّے اپناتے ہیں جو انسانیت کے قاتل رویّے ہیں، مگر بظاہر بہت اچھے، نیک، متقی بنے رہتے ہیں، ان جیسوں کی حقیقت سے صرف وہی واقف ہوتا ہے جو ان کے رویوں کا شکار بن چکا ہو۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے عظیم الشان حکمران کا ایک ممتاز وصف یہ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کا حال جاننے کے لیے راتوں کو گلی محلوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔ انہوں نے سارے کام اپنے وزیروں، نائبین پر نہیں چھوڑ رکھے تھے جو انہیں ’’سب اچھا‘‘ کی بناوٹی رپورٹ دے کر غفلت میں مبتلا کیے رکھیں، بلکہ وہ اپنی ماتحت رعایا کی خود خبر گیری کرتے تھے تاکہ کوئی ساتھی ان کی بے خبری میں مارا نہ جائے۔

ہمارے ملک کا رواج ہی نرالا ہے، یہاں ہر ادارے میں ’’ڈنگ ٹپاؤ، چل چلائو‘‘ کی پالیسی ہے۔ ہر کوئی اپنی ذمے داری دوسروں کے سر ڈالتا نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ صرف سیاست میں ہوتی ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ہر ادارے، ہر تنظیم میں ایک اسٹیبلشمنٹ موجود ہے جس کے تحت کئی ’’قبضہ مافیا‘‘ چل رہے ہیں۔ ان کی مرضی نہ ہو تو کوئی قابل فرد کچھ کرنہیں پاتا۔ یہ چھوٹے چھوٹے آکٹوپس نظام کو اپنے شکنجے میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اجتماعیت ان کے سبب رو بہ زوال ہے۔ اسی لیے افرادی قوت ایک محدود سفر کے بعد ناکام ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں نے اس فرمانِ الٰہی کو پسِ پشت ڈال دیا ہے کہ ’’تعاون کرو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں، مگر گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون مت کرو۔‘‘ ( المائدہ)

یہاں کہیں خاندانی مخاصمت چل رہی ہے تو کہیں ذاتی تعصبات نے اندھا کر رکھا ہے، کہیں دوسروں سے آگے رہنے کی دوڑ ہے تو کہیں کسی کی قابلیت سے حسد و بغض نے دل سیاہ کررکھے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جب آپ کی ٹانگیں کھینچنے والے لوگ ٹانگیں دبانے والا رویہ اختیار کریں تو اس کا مطلب ہے کہ اُن کا اگلا کام آپ کی گردن دبانا ہوگا۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے فاصلہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ ایسے وقت میں خود کو سورۂ کہف کے نوجوانوں کی مانند کسی کہف (غار) میں رکھنا ہی بہتر ہے جس وقت ظالموں کا سکہ چل رہا ہو، حتیٰ کہ قدرتِ الٰہی سے وقت پلٹا دیا جائے اور کسی خدا ترس فرمانروا کا دور آجائے۔ وقت کا سبق ہے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔

بس کر میاں محمد بخشا، موڑ قلم دا گھوڑا

ساری عمر دکھ نئیں مکنے، ورقہ رہ گیا تھوڑا!

حصہ