لالہ صحرائی کی یاد میں

73

صدارتی ایوارڈ یافتہ لالہ صحرائیؒ سے راقم کی ملاقات1999میں سعودی عرب کے پرفضا شہر الطائف میں ہوئی تھی،کلیات لالہ صحراوی 1076 پر مشتمل ہے۔

حضرت لالہ صحرائی (چودھری محمدصادقؒ) خاصانِ خدا میں سے تھے۔ ان کی ذاتِ پاک بابرکت اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ بہت ہی معصوم زندگی، صاف ستھرا کردار، وضع داری اور انکسار، دردمندی، دل نوازی، سادگی اور بے ریائی ان کی نمایاں خصوصیت تھیں۔ ان سب خوبیوں کو آب و رنگ دیا تھا محبتِ رسول ؐنے۔ محسن انسانیت رسول کائنات حضرت احمد مجتبیٰ ؐکی نعت کہنا جس قدر اہم اور پاکیزہ مشغلہ ہے اسی قدر دشوار اور پُرخطر بھی ہے۔ یہ بات خود سوچنے کی ہے کہ جس عظیم و مقدس ہستی کی مدحت و توصیف ساری دنیا کے خالق و مالک نے فرمائی ہو اس کی مدحت و توصیف بھلا انسان کیسے کرسکتا ہے! لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سے حرا کے غار سے رسالت کا آفتابِ عالم تاب طلوع ہوا اُس وقت سے آپ ؐ کی نعت کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی ہر زبان میں رسولِ کائناتؐ سے محبت و عقیدت رکھنے والوں نے اپنی حیثیت و صلاحیت کے مطابق مدح و توصیف کے پھول کھلائے ہیں

لالہ صحرائی ؒ سے میری ملاقات 1999ء میں سعودی عرب کے شہر الطائف میں ہوئی تھی۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی اُن کا خاندان جہانیاں ضلع ملتان منتقل ہوچکا تھا۔ اوائل عمری سے کتب و رسائل کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے جاری رہا، اور یوں اعلیٰ درجے کا ادبی ذوق تخلیق پاتا رہا۔ جلد ہی آپ نے لکھنا شروع کردیا اور سال ہا سال تک ملک کے معتبر علمی و ادبی جرائد میں آپ کی تحریریں چھپتی رہیں۔ پیرانہ سالی میں جب کئی بار حج و عمرہ کی سعادت پائی اور روضہ رسول ؐ پر حاضری نصیب ہوئی تو نعت گوئی کی آرزو دل میں چٹکیاں لینے لگی، اور پھر ایسے بھرپور انداز میں پوری ہوئی کہ اس کا فیضان آخری وقت تک جاری رہا۔ ان کے 15 حمدیہ و نعتیہ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مجموعہ ’’غزوات رحمت اللعالمینؐ‘‘ ایک منفرد مجموعۂ سخن ہے جس میں لالہ صحرائی نے تمام غزوات کو مستند و معتبر مورخین کی تحریروں کے مطالعے کے بعد منظوم کیا ہے۔ انہوں نے ہر غزوہ کا پس منظر، جزیات، دورانِ معرکہ حضور اقدسؐکا طریقہ عمل، فرمودات، ہدایات اور حکمت عملی کو پیش نظر رکھا اور یہ سب کچھ شعری محاسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ان کی حمد و نعت ایک چمن ہے جس میں سدا بہار پھول کھلتے ہیں۔ لالہ زار نعت سے لے کر نعت شفق تک ان کے ہاں حُبِ نبویؐ کی روشنی اور سیرت پاکؐ کی خوشبو موجزن محسوس ہوتی ہے۔ ان کی تخلیق کردہ حمدیہ و نعتیہ شاعری میں اللہ کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت اور ادب و احترام کے تمام عناصر جگمگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں حمد و نعت کے درخشاں راستے پر گامزن رہتے ہوئے قدم بقدم قرآن کریم و حدیثِ پاک سے براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ یہ ان کی نعت کا امتیازی پہلو ہے۔ انہوں نے مدحت کے ایسے دریا بہا دیے ہیں جو عشق و اطاعت کی موجوں میں ایک تلاطم بپا رکھیں گے۔ وہ عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے سارے نعتیہ کلام کا محور حضور پاکؐ کی محبت، اطاعت اور طلبِ شفاعت ہے۔ ان کی نعت پڑھنے والے کو عمل پر اکساتی ہے۔ ان کی معروف تصنیفات میں ’’قلم سجدے‘‘، ’’لالہ زارِ نعت‘‘، ’’بارانِ نعت‘‘، ’’غزواتِ رحمت اللعالمینؐ‘‘، ’’پھولوں کے لیے پھول‘‘، ’’گل ہائے حدیث‘‘، ’’نعت ستارے‘‘، ’’نعت دھنک‘‘، ’’نعت سویرا‘‘، ’’نعت صدف‘‘، ’’نعت چراغاں‘‘، ’’نعت کہکشاں‘‘، ’’نعت چمن‘‘، ’’نعت بلارے‘‘، ’’نعت شفق‘‘ اور ’’حرمتِ قلم‘‘ شامل ہیں۔

مکہ مکرمہ میں شاعر کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید احمد نے مجھے ’’کلیاتِ لالہ صحرائی بطور خاص میری رہائش گاہ پر دورانِ ملاقات عنایت فرمایا تھا۔

شاعر پر کچھ تبصرے
پروفیسر خورشید احمد:

نعت کے میدان میں لالہ صحرائی نے اپنی عمر کے آخری دور میں جو خدمت انجام دی ہے، وہ محیرالعقول ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت ہر ہر مصرع سے عیاں ہے۔ وہ عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے سارے نعتیہ کلام کا محور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کی اطاعت ہے۔

احمد ندیم قاسمی:
لالہ صحرائی کی نعتوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ جس شگفتگی اور والہیت کا اظہار ہوا ہے اس کا حصول ایمان کی پختگی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس پختگیِ ایمان کا نتیجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں انتہا کی سادگی اور بے ساختگی ہے، اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشعار لالہ صحرائی کے دل و دماغ سے چشمے کی طرح پھوٹے ہیں۔

حفیظ تائبؔ:
لالہ صحرائی اپنی نعتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ساتھ آپؐ کی پیروی پر زیادہ زور دیتے ہیں، قرآن و حدیث سے استفادہ ان کی نعت کا طرہ امتیاز ہے۔

ڈاکٹرجاوید احمد ابن محمد صادق:
میرے والد لالہ صحرائیؒ نصف صدی سے زائد مدت تک اردو ادب کی تقریباً سبھی اصناف میں لکھتے رہے۔ ان کی تحریریں مؤقر ملکی جرائد و رسائل میں چھپتی رہیں۔ حرمین شریفین حاضری کے موقع پر رب کریم کے حضور دعا کی قبولیت کے صدقے غیر شاعر ہوتے ہوئے بھی نعت گوئی کی توفیق عطا ہوئی جس کی اطلاع انہوں نے طائف میں بسلسلہ ملازمت مقیم اپنے بیٹے کو اپنی دو نعتوں کی کاپی کے ہمراہ بذریعہ خط دی۔ خط میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ غیر شاعر ہوتے ہوئے یہ نعتیں شعری اسلوب کے تقاضے بھی پورے کرسکیں گی۔ پھراللہ کا کرنا یہ ہوا کہ یہ خط نعتوں کے ساتھ پہلے مدینہ منورہ پہنچا، اس پر مدینہ منورہ پوسٹ آفس کی مہر ثبت ہوئی، اور پھر اپنی منزل طائف پہنچا۔ اس روح پرور واقعے سے والد لالہ صحرائیؒ کو ذہنی یکسوئی ملی، اور یوں نعت گوئی کا یہ سلسلہ سیلِ رواں کی طرح وفات سے چند روز پہلے تک جاری رہا۔ حمد و نعت پر مشتمل پندرہ مجموعہ جات زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔ لالہ صحرائی فاؤنڈیشن نے ان تمام مجموعوں کو یک جلدی شکل میں 1076 صفحا ت پر مشتمل ’’کلیات لالہ صحرائی‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ لالہ صحرائی فاؤنڈیشن کے زیراہتمام لالہ صحرائی کی نثری تحریریں ’’نگارشاتِ لالہ صحرائی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ لالہ صحرائی نے انگریزی کلاسیکی ادب کے ممتاز افسانوں کا اردو ترجمہ بھی بہت عمدگی اور روانی سے کیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا ہے۔ ان تراجم کو بھی ’’منزل سے قریب‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد جنگ کی ہولناکیوں اور تباہیوں کے بارے میں ایک جرمن سولجر نے ناول تحریر کیا تھا جس کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے، لالہ صحرائی نے 23 برس کی عمر میں 1943ء میں اس ناول کے انگریزی ترجمے”All Quiet on Western Front” کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو حال ہی میں لالہ صحرائی فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ’’خموش محاذ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔

کلیاتِ لالہ صحرائی پر معروف ادباء کے تبصرے:
ڈاکٹر ریاض مجید:
لالۂ صحرائی معاصر نعتیہ منظر نامے کی وہ بڑی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی عمر کا ایک نمایاں حصہ اس صنف کی آبیاری میں صرف کیا، خصوصاً پایان عمر کی منزلوں میں ان کی زیادہ توجہ نعت گوئی کی طرف رہی۔ انھی سالوں میں دوسری ادبی و علمی مصروفیات کے ساتھ انھوں نے زیادہ تر نعت ہی کو اپنے قلبی مشاہدات و واردات کا حصہ بنایا اور اس ضمن میں کتابوں پر کتابیں لکھیں۔ ان کی نعتیہ شاعری کا نمایاں محرک اُن کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا تبار سے عقیدت اور آپؐ کے پیغام و تعلیمات سے محبت کا جذبہ ہے۔ دوسرے نعت گو شاعروں سے لالۂ صحرائی کی انفرادیت اسی جذبے کے وفور کے سبب ہے۔

حمد: قلم سجدے
نعت: لالہ زار نعت، بارانِ نعت، غزوات رحمۃ للعالمینؐ (صدارتی ایوارڈ یافتہ)، پھولوں کے لیے پھول، گلہائے حدیث، نعت ستارے، نعت دھنک، نعت سویرا، نعت صدف، نعت چراغاں، نعت کہکشاں، نعت چمن، نعت ہلارے، نعت شفق

منظومات: حرمت ِ قلم:
یہ کلیات عقیدت نگاری کے حوالے سے پندرہ سولہ مجموعوں اور ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں کلیات عام طور پر تین طریقوں سے مرتب کیے جاتے ہیں:

-1 کسی شاعر کی چھپنے والی کتابوں کی ترتیب سے، یعنی جس طرح شاعر کی کتابیں چھپتی ہیں، انھیں بعینہٖ اسی طرح تاریخی ترتیب سے جمع کردیا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کے کلیاتِ اردو اور فارسی میں یہی ترتیب روا رکھی گئی ہے۔

-2 صنف وارترتیب: یعنی شاعر کی کتابوں میں سے حمد، نعت، غزل، نظم، رباعیات وغیرہ کو جداگانہ طور پر علیحدہ کرکے مرتب کردیا جاتا ہے۔ یوں کلیات میں شاعر کے کلام کی صنف وار جمع آوری کردی جاتی ہے۔

-3 کتاب وار اور صنف وار جمع آوری کے علاوہ کلیات کی ایک اور ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اس میں شاعر کے تخلیقی اثاثے کے ساتھ اس کی شخصیت اور فکر وفن کے حوالے سے ملنے والے مضامین کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔

زیر نظر کلیات پہلی طرح کا کلیات ہے جس میں شاعر کے شعری مجموعوں کو ان کی اشاعتی ترتیب کے لحاظ سے جمع کردیا گیا ہے (سوائے حمدیہ کتاب ’قلم سجدے، کے، کہ عقیدت نگاری کی مسلمہ روایت کے مطابق اسے پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے)۔ ان کے ساتھ کتابوں کے حوالے سے دستیاب اہلِ قلم کی آرا، مضامین اور دیباچوں کو بھی متعلقہ کتابوں میں حسبِ سابق شامل کرلیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے اس کلیات کا پایہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ لالۂ صحرائی کے اسکالرز کو جہاں ان کے مجموعہ ہائے کلام دستیاب ہوں گے، وہاں ان کے حوالے سے کچھ تنقیدی و تحقیقی مواد بھی مل جائے گا۔ واضح ہو کہ لالۂ صحرائی کے فکر وفن کے بارے میں حال ہی میں ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’یاد نامہ لالۂ صحرائی‘‘ چھپی ہے جسے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں لالۂ صحرائی کے حوالے سے مختلف تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان مضامین کو لکھنے والی شخصیات میں وہ اہلِ قلم بھی ہیں جنھوں نے لالۂ صحرائی کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ گزارا۔ ان میں اُن کے معاصر نعت گو بھی ہیں، اساتذۂ فن اور اہلِ علم بھی۔ ان کی تحریریں وہ معاصر گواہیاں ہیں جن کی روشنی میں لالۂ صحرائی کا مطالعہ ایک معیار آشنا اسلوب اور وقار آمیز مقام و مرتبے کا حامل قرار پاتا ہے۔

لالۂ صحرائی کی زندگی جس انداز میں بسر ہوئی وہ ہم جیسے نعت کاروں کو نصیب ہوجائے تو خوش قسمتی کی بات ہے۔ دینی شعائر کا احترام، اپنی تحریروں میں اسلام کے عقائد اور سربلندی کے لیے تگ و دو، اور اپنے قلم کو اسی مقصد اور مشن کے لیے مصروفِ کار رکھنا ان کے شخصی اوصاف میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے نعت گوئی میں انھی سرمدی مقاصد کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت اصلاحی اور مقصدی اندازِ نعت کا رنگ ڈھنگ رکھتی ہے۔

ڈاکٹر خورشید رضوی:
جناب محمد صادق لالۂ صحرائی کے نتائجِ قلم پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خاموشی سے کام کرنے والے کیسے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو کے مصداق ہیں۔

نثر میں اُن کے اشہبِ قلم کی یہ جولانیاں اہلِ نظر سے داد پاتی رہیں۔ مگر ستر برس کی عمر کے بعد جب انھیں حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو انھوں نے بار بار یہ دعا مانگی کہ انھیں نعت کہنے کی توفیق ارزانی ہو۔ دعا مستجاب ہوئی اور 1991ء کی ایک صبح یکایک نعت کا چشمہ جیسے اُن کے قلب میں جاری ہوگیا۔ ایک ہی دن میں دس نعتیں تک کہنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور آئندہ دو سوا دو برس کے عرصے میں تقریباً ایک ہزار حمدیہ اور پانچ ہزار نعتیہ اشعار ہوگئے۔ آمد کا یہ دور 2000ء میں اُن کی وفات تک تسلسل سے جاری رہا، جو پندرہ مجموعوں کی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔

’’غزوات رحمت اللعالمین‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعے میں جناب لالۂ صحرائی نے بقول جناب حفیظ تائب غزوات کے اسباب و علل، واقعات کی تفاصیل اور نتائج وعواقب کو حکیمانہ نظر سے جانچ پرکھ کر نہایت سادہ، برجستہ اور بلیغ انداز میں نظم کیا ہے۔ غزوات کی یہ شاعری جناب احمد ندیم قاسمی کی نظر میں نعت نگاری ہی کا ایک رخ ہے۔ قاسمی صاحب فرماتے ہیں کہ محمد صادق صاحب نے ’’غزواتِ رحمت اللعالمین‘‘ میں محض جذبے کے وفور سے کام نہیں لیا بلکہ مستند اور معتبر مؤرخین کی تحریروں کا مطالعہ کیا اور غزوات کی باریک سے باریک تفصیل کو بھی اشعار میں سمیٹ لیا ہے۔ اس لحاظ سے اُن کی یہ کاوش نہ صرف ایک شعری کمال ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ سیرتِ پاک کے ایک رُخ کا مصدقہ بیان بھی ہے اور اس لحاظ سے ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔‘‘

جناب لالۂ صحرائی کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ نثری تحریروں کو ڈاکٹر زاہرہ شمار صاحبہ نے کمال سلیقے سے یکجا کرکے ’’نگارشات لالۂ صحرائی‘‘ کے عنوان سے مرتب کردیا ہے جو اُن کی کلیاتِ نثر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمیں مرحوم کے فرزندان ڈاکٹر جاوید احمد صادق اور ڈاکٹر نوید احمد صادق کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے ’’پسر تمام کند‘‘ کے مصداق قدرِ بزرگوار کے مذکورہ بالا حمدیہ و نعتیہ مجموعوں کے ساتھ متفرق قومی و ملّی موضوعات پر اُن منظومات کو بھی شامل کرلیا جنھیں ڈاکٹر عاصی کرنالی مرحوم نے ’’حرمتِ قلم‘‘ کے عنوان سے مرتب کردیا تھا اور ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اس ضخیم مجلہ کی اشاعت کا اہتمام کیا جو آج ’’کلیاتِ لالۂ صحرائی‘‘ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ یہ کلیات جناب لالۂ صحرائی کی شعری متاع کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ ایوانِ ادب میں اس موقر دستاویز کی پذیرائی میرے لیے موجبِ اعزاز ہے۔

حصہ