یہ ہمارے چوکنا ہونے کا ہی نتیجہ تھا کہ ہم نے اپنی اپنی کولڈ ڈرنک اور پانی کی بوتلوں کو ان سیلڈ محسوس کرتے ہی سب کے سامنے اس راز کا انکشاف کیا۔ شاید یہ بات اتنی بھی محسوس کی جانے والی نہ ہوتی اگر کچھ اور مہمانوں کی، یا سب مہمانوں کی بوتلیں ان سیلڈ ہی ہوتیں۔
چودھری صاحب! دشمن اگر ایسی غلطیاں نہ کرے تو کیسے پکڑا جا سکتا ہے! ہمیں اندازہ ہے کہ پینے کے پانی اور دیگر مشروبات میں کسی نہ کسی ایسی دوا کی ملاوٹ ضرور کی گئی ہوگی جو ہمارے لیے بہرحال نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہوگی، اسی لیے ہم نے سب کے نمونے اپنے پاس موجود چھوٹی چھوٹی سرنجوں میں اتنی خاموشی کے ساتھ بھر لیے کہ شاید ہی دشمن کو خبر ہوسکی ہو۔ یہ سب نمونے ہمارے جسم کے ساتھ اس انداز میں چسپاں ہیں کہ بغیر ایکسریز کے ان کو دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ اب یہ تو لیبارٹری ہی کا تجزیہ بتا سکے گا کہ ان میں کس قسم کا کیمیکل شامل ہے۔‘‘
چودھری صاحب ان تینوں نوجوانوں کو بت بنے دیکھے جارہے تھے۔
’’واقعی تم سب لائقِ تحسین ہو۔ اللہ تعالیٰ تم سب کی حفاظت فرمائے۔‘‘ ان کی گفتگو سن کر چودھری صاحب بس اتنا ہی کہہ سکے۔
فاطمہ، جمال اور کمال جس زیر زمین تہ خانے میں تھے، واقعی یہاں طرح طرح کی کھانے کی خشک اشیا اتنی بڑی تعداد میں موجود تھیں کہ مہینوں رہا جا سکتا تھا، جس طرح چودھری صاحب فرما رہے تھے کہ میں نے ایسی پناہ گاہیں بھی بنا رکھی ہیں جہاں کئی کئی مہینوں رہا جا سکتا ہے، ان کا یہ فرمانا درست ہی تھا۔
ابھی وہ ان سب باتوں پر گفتگو کر ہی رہے تھے کہ توقع کے مطابق جمال کو پیغام وصول ہوا کہ وہ جہاں بھی ہیں فوراً باہر آجائیں۔
’’کہاں آئیں؟‘‘ جمال نے مخصوص کوڈ میں پوچھا۔
’’وہیں جہاں سے ہمیں چار بے ہوش مجرم ملے تھے۔ وہاں ان کی گاڑی بھی کھڑی ہوئی ہے۔ اس کو ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی اپنی رہائش گاہوں میں واپس آ جائو‘‘۔ پیغام موصول ہوا۔
چودھری صاحب نے ہمیں جس جگہ پناہ دی ہوئی ہے، وہ اس مقام کو کسی کے بھی علم میں نہیں لانا چاہتے، اس لیے ایک تو یہ یقین دلایا جائے کہ وہاں ادارے کا بھی کوئی آدمی موجود نہیں ہوگا، اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم ان کی گاڑی کو بالکل بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس میں کیا کیا انسٹرومنٹ نصب ہوں، اس لیے ہمارے لیے کوئی اور گاڑی اسی مقام پر بھیج دی جائے اور لانے والے سے کہا جائے کہ وہ گاڑی چھوڑ کر واپس چلا جائے۔ ڈرائیور کے واپس پہنچ جانے کی اطلاع کے بعد ہی ہم چودھری صاحب کی پناہ گاہ سے باہر آئیں گے۔‘‘ جمال نے کئی چھوٹے چھوٹے پیغامات کے ذریعے اپنی بات مکمل کی۔
’’او کے‘‘، جواب میں بس اتنا کہا گیا۔
تقریباً 15 منٹ بعد پیغام موصول ہوا کہ ’’سب کچھ آپ کے پیغامات کے مطابق ہوچکا ہے۔‘‘
چودھری ایاز علی بہت ہی توجہ کے ساتھ یہ ساری کارروائی دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے سے اطمینان اور خوشی کے تاثرات چھلکتے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔
جس زینے کے ذریعے نیچے اترے تھے اسی کی جانب وہ بڑھنے لگے تو چودھری صاحب نے انھیں اشارے سے منع کیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
وہ تینوں اُن کے پیچھے دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو ان کو احساس ہوا کہ اس کمرے سے آگے بھی ایک کمرہ اور ہوگا جس کا دروازہ ان کو صاف نظر آرہا تھا۔ اس کمرے میں رسّی کی ایک سیڑھی لٹکی ہوئی تھی۔
چودھری ایاز علی نے کہا کہ اس کے ذریعے آپ کو اوپر جانا ہوگا۔ وہ جو گول سا ڈھکنا آپ کو نظر آرہا ہے اس کو جیسے ہی کھولیں گے ایک نالہ نما راہداری نظر آئے گی۔ وہ روشن ہوگی، کیونکہ اس کے اختتام پر جالی والا ایک ایسا دروازہ سا ہوگا جیسے برسات کے پانی کی نکاسی کے لیے بنایا جاتا ہے۔ جیسے ہی اسے کھولو گے تہ خانے سے باہر نکل جائو گے۔ قریب میں سایہ دار درخت ہوگا، وہاں ایک ایک کرکے جمع ہوتے رہو۔ میں آخر میں سب دروازے بند کرتا ہوا آئوں گا۔