’’سوری دیپالی دی‘‘۔ یاسمین نے کہا ۔واقعی میں بہت مسرور ہوں۔ ساری دنیا اب میرے قدموں میں ہے۔ کایاب کریر۔ اَن گنت مداح۔ گلیمر، پبلسٹی، شہرت، ان بے چاری دیپالی دیدی کو کیا ملا؟ اور جہاں آراء آپا کو…؟ محض مایوسی… لیکن مجھے روزی سانیال کی طرح اپنی کامیابی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔ گو میں نے اپنی کامیابی کی بھاری قیمت ادا کی۔ اپنے ابا کو ڈیفائی کیا، مگر آرٹسٹ کی لگن…‘‘ اس نے باآواز بلند اضافہ کیا۔
’’بَوش…‘‘ دیپالی بولی، پھر اچانک چپ ہوگئی۔
شاید یہ مجھ سے جلنے لگی ہیں۔ انہیں اب کون جانتا ہے! مجھے ساری دنیا جاننے لگی ہے۔ جیرلڈ کہتا ہے اگر کوشش کی جائے تو میں اپنے ’’موڈرن اورنٹیل بیلے‘‘ کا نیویارک میں باقاعدہ اسٹوڈیو قائم کرسکتی ہوں۔ مگر ابھی یہ بات ان کو نہیں بتائوں گی، اور جل جائیں گی۔ کیا پتا لاشعوری طور پر متعصب بھی ہوں۔ بہرحال ایسٹ پاکستان سے ان کو نکلنا ہی پڑا… نہیں… پرانی مارکسسٹ ہیں۔ متعصب تو شاید نہیں ہیں۔ اتنی پرانی دوست ہیں۔ اگر ان کو یہ بتادوں کہ ہینڈسم، مشہور انگریز فیشن ڈیزائنر جیرلڈ بلمونٹ سے شادی کرنے والی ہوں تو شاید اور حسد کریں۔ نہیں بتائوں گی، نظر لگ جائے گی۔ پری زاد جیرلڈ ایک طرف… بے مثال یونانی مجسہ۔ اور ایک طرف ان بے چاری کے موٹے کالے للت موہن سین۔ وہ تو جہاں آراء آپا کے میاں سے بھی گئے گزرے ہیں۔
سرسوتی اور خیر النساء گھاس پر بیٹھی ایک اجنبی زبان میں گفتگو کررہی تھیں۔ شونو نے بنگلے کے برآمدے میں آکر آواز دی… ’’دیدی… آپ کا فون…‘‘ دیپالی پھر اُٹھی اور عمارت کی طرف چلی گئی۔
سرسوتی نے آہستہ سے پوچھا ’’مس صاحب! ہمارا میم صاحب رو کیوں رہا تھا؟ ہم نے دیکھا ہے۔ وہ کبھی کبھی ایسے ہی بیٹھے بٹھائے رونے لگتا ہے‘‘۔
’’معلوم نہیں۔ مسٹریس سرسوتی۔ شاید… شاید ان کو اپنا کنٹری یاد آتا ہے…اور…اور‘‘۔
’’اور کون…؟‘‘
یاسمین نے جلدی سے بات بنائی ’’وہ… مسٹریس سرسوتی ادھر ڈھاکہ میں دیدی کا ایک فرینڈ تھا جہاں آراء بیگم…‘‘
’’جہاں آرا بیگم…!‘‘ مسٹریس خیر النساء نے خوشی سے دہرایا۔ ’’بادشاہ کا بیٹی؟‘‘
’’نہیں، ایک معمولی سے نواب کا بیٹی…‘‘
’’پھر کیا ہوا… کیا ہوا…؟‘‘ دونوں عورتوں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’جہاں آرا بیگم کا لَو اسٹوری بہت ٹریجک تھا۔ اُسی کو یاد کرکے تمہارا میم صاحب دُکھی ہوجاتا ہوگا۔‘‘
’’کیا ہوا؟… کیا ہوا؟… عاسکی معسوکی…؟‘‘ سرسوتی نے پوچھا۔
خیر النساء نے سوال کیا ’’عسک مجاجی تھا یا عسک حکیکی…؟ ہیرو کون تھا…؟‘‘
یہ عورتیں بے حد سینما دیکھتی تھیں۔
’’کیر النساء! شاید عسک مجاجی اور حکیکی دونوں تھا۔ جہاں آراء آپا اپنے کزن کو لَو کرتا تھا۔ وہ اُس کو‘‘۔
’’سمجھ گیا‘‘۔ مسٹریس سرسوتی نے طمانیت سے کہا۔
’’پھر اُن کا کزن اُن کو چھوڑ کر بھاگ گیا‘‘۔
’’کیوں…؟ چچ چچ۔ ہائے ہائے۔ ہائے رے‘‘۔
’’آئیڈیالوجی کی خاطر…‘‘
’’آئیڈیالوجی…کیا…؟‘‘ خیرالنساء نے دریافت کیا۔
’’مطلب… مطلب… ایسا کہ… غریب امیر سب برابر ہونا چاہیے۔ ہیرو امیر لوگ کو HATE کرتا تھا… ہیروئن بہت امیر تھا… اُس زمانے میں خیرالنساء! لڑکا لڑکی آئیڈیا لوجی کی خاطر ایک دوسرے کو چھوڑ دیتا تھا۔‘‘
’’تب تو وہ پاگل لوگ تھا‘‘۔ سرسوتی نے کہا۔
’’ہاں… ایک دم پاگل… اور اگر سوچو تو… تو ہم بھی پاگل ہے۔ ہم نے آئیڈیالوجی کی خاطر ڈانس سیکھا کہ ہمارا دیش میں کلچر خوب پھلے پھولے۔ ہم نے اس کے لیے بہت محنت کیا۔ بہت کوشش کیا۔ ہمارا ایک انکل کا دوست سینٹرل منسٹر تھا۔ اس نے ہمیں فارم ٹور پر بھجوایا… پاکستان گورنمنٹ نے…‘‘
’’کون گورنمنٹ…؟‘‘ سرسوتی نے پوچھا۔
’’ہمارا اپنا پاکستان گورنمنٹ۔ تم لوگ تو ابھی برٹش کولونی ہے‘‘۔
’’کولونی ہے تو ٹھیک ہے۔ آرام سے ہے‘‘۔
’’آہا تمہاری مینٹیلٹی اب تک کولونیل ہے‘‘۔ یاسمین نے حقارت سے کہا۔ بے چاریاں غلاموں کی اولاد۔ خود غلام۔
’’اور تمہاری مینٹیلٹی کیا ہے؟‘‘ سرسوتی نے چمک کر پوچھا۔ نیو ورلڈ میں پیدا ہوکر ہندی نژاد مزدور بھی نڈر ہوجاتے ہیں اور بے ادب۔ اب ان جاہلوں سے کون بحث کرے! وہ چُپ ہوگئی۔
دیپالی واپس آئی۔ ’’میرے شوہر کا فون آگیا کہ تم سے کہہ دوں۔ انہوں نے کل رات کو تمہارے ڈانس کا پروگرام گورنمنٹ ہائوس میں رکھوا دیا ہے، گورنر جنرل کے لیے…‘‘
’’گورنر جنرل کے لیے؟‘‘ یاسمین نے خوشی سے اُچھل کر دہرایا۔ مسٹریس سرسوتی زیر لب مسکرائی۔ قہوے کی ٹرے اُٹھا کر بنگلے کی طرف چلی۔ یاسمین نے اس کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھی اور جھینپ گئی۔
’’اچھا اب ہم بھی چلتا ہے…‘‘ خیرالنساء نے کہا۔ سرخم کرکے مسکرائی اور کپڑوں کی ٹوکری اُٹھا کر شاگرد پیشے کی سمت روانہ ہوگئی۔
’’عجیب مسخری عورتیں ہیں‘‘۔ یاسمین نے اظہارِ خیال کیا۔ ’’تم کن لوگوں میں آپھنسیں‘‘۔
’’بہت بھلے لوگ ہیں‘‘۔ دیپالی نے جواب دیا۔ ’’انہیں یقیناً ہم اور تم مسخرے لگتے ہوں گے۔ اپنی سرزمین کو چھوڑے انہیں سو سال سے اوپر ہوگئے۔ اب تک اسے یاد کرتے ہیں۔ یہ خیرالنساء اور سرسوتی ان دونوں کے پُرکھے یوپی کے ضلع اعظم گڑھ سے آئے تھے سوسال پہلے۔ جب انگریزوں نے یہاں اپنے نیگرو غلاموں کو آزاد کیا تھا، تب ان کی جگہ اپنے نئے ہندوستانی غلام یہاں منگوائے تھے۔ اب یہ آدھے اسپینش آدھے ایسٹرن یوپی کے ہندو یا مسلمان، آدھے برٹش ہیں۔ سترہویں صدی کے انگریزی الفاظ یہاں رائج ہیں۔ سچ پنچ میل زبانیں۔ یہ بے چارے اب تک بُش قلی کہلاتے ہیں۔ مگر یہ بڑے ذہین لوگ ہیں، انہیں معمولی مت سمجھنا‘‘۔
’’دیدی! کہاں سے کہاں بات نکل گئی۔ کچھ دیر ہوئی میں نے آپ سے پوچھا تھا… کیا ہوا تھا؟ اس کا جواب تو دیجیے۔ مجھے اب تک معلوم نہیں، کیا ہوا تھا۔ ذرا سوچنے کی بات ہے۔ 24ء کے بعد آپ سے اب ملاقات ہوئی ہے… اور اس اجنبی دور افتادہ جگہ… آخر ہوا کیا تھا؟‘‘
دیپالی نے ایک برڈ آف پیراڈائز کو دیکھ کر کہا’’دیکھو یہ کتنے خوبصورت پرندے ہیں‘‘۔
’’دیدی! پلیز… بات مت ٹالیے‘‘۔ یاسمین، بھئی تم تو ہمیشہ کی نوزی پارکر ہو!‘‘
’’پوری بات بتائیے نا۔ آپ سن بیالیس میں جب جہاں آراء آپا کی شادی ہوئی اس کے بعد کبھی اُن سے ملی کیوں نہیں؟ وہ جب بھی دیناج پور سے ڈھاکہ آتیں آپ کے لیے معلوم کراتیں۔ اطلاع ملتی کہ شانتی نکیتن میں ہیں یا ریڈیو پروگرام کے لیے کلکتہ گئی ہوئی ہیں‘‘۔
’’نہیں، میں چند ایک بار جہاں آراء سے ملی تو تھی۔ دراصل اس سے نظریں چار کرتے ہوئے مجھے احساسِ جرم ستاتا تھا۔‘‘
’’آخر کیوں…؟ کیا ہوا تھا؟‘‘
دیپالی ہنس پڑی۔ ’’کیا ہوا تھا؟‘‘ اُس نے دہرایا۔ کچھ بھی نہیں، جہاں آراء کی شادی کی اطلاع کا جب تمہارا خط آیا اُس سے صرف دو روز قبل اُدما رائے شانتی نکیتن پہنچیں۔ مجھ سے بہت میلوڈرامیٹک انداز میں کہا… ریحان اپنی کزن کا بچپن کا منگیتر ہے، تم بیچ میں آگئیں، بڑے شرم کی بات ہے۔ تم اپنی سہیلی کی زندگی برباد کررہی ہو۔ اپنے نیک دل باپ کو صدمہ پہنچا رہی ہو۔ جہاں آراء اور ڈاکٹر سرکار دونوں کہیں تمہاری وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
جب سے میں نے بالکل غیر متوقع جہاں آراء کی الماری میں ریحان کی تصویر رکھی دیکھی تھی، میں بھونچکی تھی۔ اور احساسِ جرم مارے ڈال رہا تھا۔ اس کے بعد میں نے ریحان سے بات نہیں کی۔ ان کے بہت اصرار پر جب اُن کو وجہ بتائی، انہوں نے پورا قصہ سنایا، کس طرح ان کی نسبت ٹوٹی۔ اور وہ ان سے میری ملاقات سے پہلے کی بات تھی۔ پھر بھی مجھے تشفی نہیں ہوئی، بہت سمجھا بجھا کر ریحان نے مجھے ان سے بیاہ کرلینے پر راضی کرلیا۔ لیکن اب شانتی نکیتن پہنچ کر ادما دیبی کہنے لگیں: جہاں آراء اب تک یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ ریحان شاید ارجمند منزل واپس آجائے اور نواب اس سے شادی کردینے کے لیے تیار بھی ہوجائیں۔ اگر تم نے ریحان سے بیاہ رچایا تو جہاں آراء غریب شاید زہر کھالے۔ پردہ نشین محمڈن لڑکیوں کے ایسے ٹریجک قصے سنے ہیں۔ علاوہ ازیں ریحان ایسا ناقابل اعتبار شخص ہے، جب اس نے اپنی کزن سے بے وفائی کی جس کے باپ کے روپے سے وہ ولایت پڑھنے گیا، تو وہ بھلا تمہارا کب تک ساتھ دے گا؟ تم کو بھی چھوڑے دے گا… پھر تم کیا کرو گی؟ چندر کنج کے دروازے بھی تمہارے لیے بند ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔ میں کم سن تھی اور ناتجربہ کار۔ یہ سب سن کر دہل گئی۔ ادما رائے کے واپس جانے کے بعد اسی رات میں نے ریحان کو بڑا کڑا خط لکھا کہ آئندہ مجھ سے کبھی نہ ملیں۔ اسی رات میں نے وہ خط پوسٹ کردیا۔ اس کے دوسرے روز تمہارا خط ملا جس میں تم نے اطلاع دی تھی کہ بیچاری جہاں آراء کی شادی دیناج پور کے کسی زمیندار سے ہوگئی۔ اگر تمہارا وہ خط مجھے دو روز پہلے مل گیا ہوتا تو میں اُدما رائے کے بھرّے میں نہ آئی ہوتی اور پروگرام کے مطابق ریحان سے سول میرج کرنے کلکتہ چلی جاتی۔ مگر ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
ریحان کلکتہ جاچکے تھے۔ میرا عقاب نامہ موصول ہونے کے بعد انہوں نے مجھ سے ملنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ میں نے ان کو بہت ہی سخت خط لکھا تھا، آئیڈیالوجی کی خاطر، یعنی یہ کہ انسان انسان کا دل نہ دُکھائے۔ اور وہ جہاں آراء کا دل دُکھا رہے تھے، اور میں اپنے والد کا‘‘۔
’’دیپالی دیدی! ایک بات بتائوں۔ ہم سب پاگل لوگ تھا۔ بقول مسٹریس سرسوتی صرف اُدما دیبی صحیح الدماغ تھیں۔ اور ریحان بھائی کے بارے میں آگے میں بتائوں؟ سنیے۔ سن پینتالیس میں آل انڈیا پاکستان سبھا کی طرف سے ایک لوک گیت کانفرنس ہوئی تھی۔ یاد ہے؟ لوک گیت منڈلیاں سارے ملک سے آئی تھیں۔ اس کانفرنس میں ریحان بھائی میرے پیچھے لگ لیے‘‘۔
’’راسکل…!‘‘ دیپالی نے قہقہہ لگایا۔
’’آپ اُس میں نہیں آئی تھیں‘‘۔
’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ ریحان اور اُدما وہاں جانے والے ہیں اس لیے نہیں گئی تھی‘‘۔
’’مسلمان فوک سنگرز بہت بڑی تعداد میں آئے تھے۔ کیونکہ بنگالی کی فوک میوزک زیادہ تر مسلمانوں کی تھی… یہ دراصل مجھے اب مشرقی پاکستان بننے کے بعد اندازہ ہوا۔ ریحان بھائی ان فوک سنگرز کے انچارج تھے۔ ایک دستہ منی پور سے آیا تھا۔ گارد ہلز سے مس ایلس بارلو کو انہوں نے بھگا دیا تھا۔ کیا زمانہ تھا کہ منی پور کے راجا کا بھائی کمیونسٹ لیڈر تھا! آج یہ سب قصے اتنے عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ پیپلز تھیٹر کے لوگ تھے۔ کیا جوش و خروش تھا۔ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ شونار بنگال عنقریب تقسیم ہونے والا ہے۔ بس صرف یہی خیال تھا کہ انگریز کو نکالتے ہی ملک میں دودھ کی ندیاں بہہ جائیں گی۔
اور کتنی جنگجو اصطلاحات تھیں! ہماری ٹولیاں اسکواڈ کہلاتی تھیں… چاٹگام اسکواڈ۔ سُرما دیلی اسکواڈ۔ منی پور اسکواڈ۔ پیپلز تھیٹر اسکواڈ… دیدی وہاں اڑیہ اسکواڈ نے ایک گیت سنایا تھا۔ اس پیٹ کی خاطر میں بنگال گیا۔ پاپڑ بیلے۔ دھان کوٹے۔ دھان کاٹی۔ چاکری کی۔ پیٹھ پر کوڑے کھائے۔ ناچا۔ چرخہ کاتا۔ گالیاں دیں۔ یم راج سے ملا۔ اس پیٹ کی خاطر…‘‘
’’اور ہم ڈھاکہ سے ٹرینیڈاڈ آگئے۔ اس پیٹ کی خاطر‘‘۔ دیپالی بولی۔
یاسمین کہتی رہی ’’ایک گونڈ گیت تھا۔ میں نے گائے بیچ کر جنگل کا ٹیکس دیا۔ بیل بیچ کر… اب بھی کافی نہیں۔ انگریز کے راج میں ہم بھوکے رہتے ہیں۔ ہمیں اُس وقت ایسا پکا یقین تھا کہ اپنے قومی راج میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا… اور وہ حیدر آباد اسکواڈ… ہم سرخ سپاہی شانِ وطن…‘‘
’’ریحان کے متعلق بتائو یاسمین‘‘۔
’’ہاں دیدی! تو وہ اس کانفرنس میں میری بہت سرپرستی کرتے رہے۔ میں نے ان کو بتایا میں دیپالی سرکار کی دوست ہوں۔ ان پر مطلق اثر نہ ہوا۔ اچانک میں بہت بور ہوگئی۔ طبیعت بیزار ہوگئی۔ پارٹیشن سے ذرا پہلے میں اپنے کٹر مذہبی قدامت پرست مولوی والد اور سارے گھر والوں سے بغاوت کرکے ایک اسکالر شپ پر بھرت ناٹیم سیکھنے مدراس چلی گئی، اور وہاں سے ایک سال بعد اپنے ایک روشن خیال رشتے دار کے پاس سیدھی کراچی۔ وہ بہت بارسوخ آدمی تھے۔ انہوں نے ایک بنگالی سینٹرل سینٹر کے ذریعے کوشش کرکے مجھے باہر بھجوانے کا بندوبست کیا۔ اُنہی دنوں ڈھاکہ سے جہاں آراء آپا نے لکھا کہ آپ لوگ چندر کنج فروخت کرکے کلکتہ اور وہاں سے ٹرینیڈاڈ جاچکے ہیں۔ جہاں آراء آپا کو بڑا افسوس تھا کہ جاتے وقت آپ ان سے ملی نہیں۔ خط تک نہ لکھا۔ ان کو صدمہ زیادہ یہ تھا کہ شاید ہندوستان پاکستان کی سیاست کی تلخی آپ دونوں کے درمیان آگئی۔‘‘
(جاری ہے)