امین الامت

53

حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح نے خدا کے محبوب دین کی کیسی کیسی خدمت کی۔ اسلام کو انھوں نے اُس وقت سینے سے لگایا تھا جب اسلام کی طرف بڑھنے کے معنی ساری دنیا جہان سے کٹ جانے کے تھے۔ خطرات طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے اور اسلام کی طرف پیش قدمی کرنے والوں کو پیچھے دھکیل دینے کی بے پناہ کوشش ہورہی تھی، مگر یہ پیش قدمی کسی طرح رکتی نہ تھی۔ لوگ تھے کہ آخرت کا گھر بسانے کے لیے اپنی حیاتِ دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا ولولہ دکھا رہے تھے۔ اسی کاروانِ شوق میں حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے جو اپنے دونوں ہاتھوں سے دنیا کو ہٹا ہٹا کر خدا کی سمت میں مصروفِ سفر تھے۔ حق اور باطل میں گھمسان کا رن پڑ رہا تھا اور اہلِ حق خون کی طغیانی میں ایمان کا سفینہ کھے رہے تھے۔ جس وقت جنگِ بدر میں حق و باطل کے درمیان پہلی مسلح کشمکش کا تاریخی بگل بجا اور حضرت ابوعبیدہؓ جہاد و عزیمت کے محاذ پر سر سے کفن باندھے ہوئے آئے تو دیکھا کہ ان کے مقابل میں جو شخص ننگی تلوار کھینچے ہوئے سامنے آکھڑا ہوا ہے وہ خود ان کا ’’باپ‘‘ ہے۔ کافر باپ کا خون اگرچہ مومن بیٹے کے لیے سفید ہوچکا تھا مگر مومن بیٹے کی نظر میں وہ بہرحال اس کا باپ تھا۔ باپ کی کوشش تھی کہ خدا کے آگے جھکے ہوئے بیٹے کا سر اتارے، مگر بیٹے کی آرزو تھی کہ میری تلوار میرے باپ کی زندگی کو کفر پر ختم کرنے کا سبب نہ بنے تو اچھا ہے۔ اس مومنانہ احساس سے وہ حملہ آور کو طرح دیتے اور پہلو بجاتے رہے، مگر جونہی ان کو محسوس ہوا کہ یہ درحقیقت ایک باپ کا حملہ بیٹے پر نہیں بلکہ ایک باغی بندے کا حملہ اپنے حقیقی خدا پر ہے تو بے اختیار حضرت ابوعبیدہؓ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ پھر بجلی کی طرح لپک کر انھوں نے ایک ہی فیصلہ کن وار میں اپنے خدا کے لیے اپنے باپ کی گردن صاف کردی۔

جنگِ احد میں حضرت ابوعبیدہؓ نے جب یہ دیکھا کہ کفر و شرک کے درندوں نے اللہ کے رسولؐ کو گھائل کر ڈالا ہے اور ان ہولناک حملوں کے نتیجے میں خود کی آہنی کڑیاں عارضِ رسالت میں گھس کر رہ گئی ہیں تو حضورؐ کی یہ کیفیت ان سے ایک پل کے لیے بھی نہ دیکھی گئی۔ وہ والہانہ درد کے عالم میں آگے بڑھے اور اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو باہر کھینچ لانا چاہا۔ یہ کڑیاں دھیرے دھیرے باہر نکل رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ اس سخت کوشش میں حضرت ابوعبیدہؓ کے دانٹ ٹوٹ رہے تھے اور منہ سے خون کی تلوار چھوٹ رہی تھی، لیکن دانتوں کے پاش پاش ہونے کا جاں گسل درد اس خوشی کے احساس میں گم ہوکر رہ گیا تھا کہ حضورؐ کے نازک رخسار ان آہنی کڑیوں سے نجات پا چکے ہیں۔

یوں تو وہ ہر اُس جگہ سینہ سپر دیکھے گئے جہاں کہیں اور جب کبھی اندھیروں نے اجالوں پر چڑھائی کی اور جھوٹ نے سچائی کو تباہ کردینا چاہا، لیکن حضورؐ کی وفات کے فوراً ہی بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں جب خلیفۂ اوّل کے انتخاب کا مسئلہ اٹھا تو یہ وقت تھا جہاں اللہ والوں کو اللہ کے لیے خود اپنے نفس سے جنگ… خوں ریز جنگ کرنا تھی۔ یہ وہ نازک گھڑی تھی جب منافقین حضورؐ کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کی آخری چال کھیل رہے تھے۔ جہاں شیطانی سازش یہ تھی کہ قربانی کے دیوانوں کو حقوق طلب کرنے کی راہ سے مشتعل کردیا جائے اور اس طرح ایمانی اخوت کی اس سدا بہار کھیتی کو جلا کر خاک کردیا جائے جس کو23 سال تک خدا کے رسولؐ نے اپنے خون اور آنسوؤں سے سینچا تھا۔ آج اسلام کی ہمیشہ مدد کرنے والے انصار اسلام سے اپنے لیے خلافت کا حق مانگ رہے تھے اور مہاجرین کا یہ دعویٰ تھا کہ اس کا حق انھیں ملنا چاہیے جنھوں نے اسلام کے لیے اپنا گھربار اور سب کچھ سب سے پہلے چھوڑا تھا۔ یہاں حقوق کی بحث ایک بار پھر ایثار و قربانی کی آواز دے رہی تھی، مگر جذبات کے زبردست شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ حقوق کی یہ طوفانی بحث کیا، اب کسی طرح بھی آخری قربانی کی طرف موڑی جا سکے گی یا نہیں؟ ٹھیک اس وقت ایک درد بھری آواز آئی… آخرت کے خوف اور امید سے کانپتی ہوئی آواز … قربانی کے لیے بے تاب چیخ… سراپا سوز… ہمہ تن کرب و درد!… خدا کے لیے سب کچھ تج دینے کی نوائے دردناک:

’’اے انصار! تم وہ ہو جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی دست گیری کی، پس ایسے نہ بنو کہ تمہاری وجہ سے اسلام میں سب سے پہلی جماعتی پھوٹ پڑے‘‘۔

یہ حضرت ابوعبیدہؓ کی آواز تھی، جہاں لوگوں کے کانوں میں خود اپنے دلوں کی صدا نہ آرہی تھی وہاں یہ نوائے درد کام کرگئی، دل سے نکلی ہوئی پکار نے اللہ والوں کے دل دہلا دیے۔ اختلافات کے خونیں بادل گرد کی طرح صاف ہوگئے، جو انصار ابھی بھی اپنا حق طلب کررہے تھے، ان کے درمیان سے قربانی کے لیے بے تاب ایک بجلی سی چمکتی ہوئی نکلی۔ یہ حضرت زیدؓ بن ثابت تھے جو تڑپ کر آگے بڑھے اور بیک جنبش زبان و دل اس خوفناک بحث کا خاتمہ کردیا:

’’آنحضرتؐ مہاجر تھے۔ اس لیے خلیفہ بھی مہاجر ہوگا، اور ہم جس طرح آپ کے انصار تھے اس طرح آپ کے خلیفہ کے انصار رہیں گے‘‘۔

’’دیکھو!‘‘ اس عظیم جذباتی موڑ پر حضرت صدیق اکبرؓ نے کھڑے ہوکر معصومانہ اعلان کیا: ’’یہ عمرؓ ابن خطاب ہیں جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان کی برکت سے خدا نے اسلام کو چار چاند لگائے، اور یہ ابوعبیدہؓ بن الجراح ہیں جن کو رسولؐ ِخدا کی بارگاہِ عالی سے ’’امین الامت‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔ آؤ اور ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو، بیعت کرلو‘‘۔

یہ اعلان اس بات کا ثبوت تھا کہ اسلام کی سب سے بڑی خدمات انجام دینے والا اسلام کے لیے سب سے بڑی قربانی پیش کررہا ہے، اور سچائی کو سب سے پہلے قبول کرنے والا سب سے پہلے اپنے حقِ خدمت سے اس طرح دست بردار ہورہا ہے کہ وہ جی جان سے خود کو دوسروں کی ماتحتی میں دینے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان اس بات کا شان دار موقع تھا کہ حضرت عمرؓ ہوں یا حضرت ابوعبیدہؓ… دونوں اپنی اپنی جاں نثاریوں کے صلے میں خلافت کا اعزاز حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر وہاں دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ خلافت کے لیے نامزد ہوتے ہی حضرت عمر فاروقؓ بے تابانہ اٹھے اور حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے یہ اعلانِ شوق کیا:

’’آہ! اے رفیقِ غار! آپ کے ہوتے ہوئے اور کون دوسرا اس کا حق دار ہوسکتا ہے؟‘‘

ادھر حضرت ابوعبیدہؓ کا یہ عالم ہوا کہ مجمع کو چیرتے پھاڑتے یہ کہتے ہوئے تیر کی طرح جھپٹ رہے تھے:

’’دیکھو پہلے میں بیعت کروں گا… دیکھو پہلے میں…‘‘

لاذقیہ کی فتح کے بعد سپہ سالارِ اسلام حضرت ابوعبیدہؓ کو پتا چلا کہ قیصرِ روم ایک ٹڈی دل فوج کے ساتھ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھنا تھا، مگر بڑی دقت یہ تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد عورتوں کی تھی اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کو کہاں چھوڑا جائے!

’’لاذقیہ میں چھوڑ دیا جائے‘‘کسی نے رائے دی۔

’’نہیں‘‘ دوسرے نے اختلاف کیا۔ ’’یہ مناسب نہیں کہ عیسائیوں کے اس شہر میں ہم عورتوں کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں‘‘۔

پھر کیا کیا جائے؟ سب لوگ سوچ میں تھے۔ اب تیسری شکل یہی ہوسکتی تھی کہ اس بستی کو عیسائیوں سے خالی کرا دیا جائے تاکہ وہاں مسلمان عورتوں کے لیے ان سے خطرہ نہ رہے۔ نہایت سادہ لوحی کے ساتھ یہی تجویز حضرت ابوعبیدہؓ کی زبان پر آگئی۔

’’یہ کیسے ہوسکتا ہے!‘‘ ایک لشکری نے سپہ سالار پر قدرے گرم ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہم ان عیسائیوں کو امن کے لیے زبان دے چکے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس مجبوری کے تحت اپنی بات سے پھرجائیں!‘‘

اگرچہ عورتوں کی حفاظت کے مسئلے نے یہاں اضطرار کی سی شکل اختیار کرلی تھی اور اس اضطراری حل کے خلاف ایک معمولی سپاہی سپہ سالار کے سامنے بول پڑا تھا۔ لیکن حضرت ابوعبیدہؓ کے سامنے اس وقت نہ ضرورت کا اضطرار تھا اور نہ سپاہی کا معمولی ہونا۔ وہ محسوس کررہے تھے کہ کہنے والے نے ایک بھاری بات کہی ہے جو حق ہے۔ ایک منٹ بھی کسی تاویل پر ضائع کیے بغیر وہ فوراً اس بات کے آگے عاجزانہ جھک گئے اور بڑی ندامت و تشکر کے ساتھ بولے:

’’بے شک میں ہی غلطی پر تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن عیسائیوں کو ہم نے وعدۂ امن دے دیا ہے، اب اپنے اس وعدے سے پھر جائیں! واقعی یہ میری غلطی تھی‘‘۔

جنگ ِ یرموک کی تیاریاں کرنے میں سپہ سالاری کی عظیم پوزیشن میں حضرت ابوعبیدہؓ ہمہ تن مصروف تھے۔ اتنے میں حضرت خالدؓ ان کی خدمت میں پہنچے۔

’’اگر آپ (حضرت خالدؓ نے عرض کیا) تمام فوجوں کی کمان میرے ہاتھ میں دے دیں اور فوج کو حکم جاری کردیں کہ وہ میری پوری اطاعت کرے تو مجھے امید ہے کہ ہم فتح یاب ہوجائیں گے‘‘۔

اسلامی فتح کی محض ایک امید دلائی جارہی تھی اور اس امیدکی قیمت یہ تھی کہ انتہائی تجربہ کار سپہ سالار سپہ سالاری کے اعزاز سے دست برداری دے دے۔ اُس وقت حضرت ابوعبیدہؓ کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ فتح کا نقشہ بنانے کے لیے میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ کسی قسم کی پس و پیش کیے بغیر انھوں نے اسلام کی فتح کی ’’امید‘‘ کو سینے سے لگا لیا اور سپہ سالاری کا تمام اعزاز ہاتھوں ہاتھ پیش کردیا۔ حضرت خالدؓ جس خلوص سے یہ ’’اعزاز‘‘ طلب کررہے تھے، اسی خلوص سے حضرت ابوعبیدہؓ یہ اعزاز چھوڑ رہے تھے۔ دلوں کا یہ خلوص خدا کے فضل سے رومیوں کی ٹڈی دل فوجوں پر بھاری ثابت ہوا۔ دو دلوں کی دھڑکنوں کے آگے آہن و فولاد میں ڈوبی ہوئی رومی فوجیں نہ ٹھیر سکیں۔ میدانِ جنگ میں اپنے سپاہیوں کی لاکھوں لاشوں کو روندتی ہوئی یہ فوجیں الٹے پاؤں بھاگ رہی تھیں اور خدا کے یہ دونوں نیک بندے ادائے شکر سے مسکرا رہے تھے۔

……٭٭٭………

قبیلہ قضاعہ کی تادیب و سرکوبی کے لیے تین سو مجاہدین کا دستہ حضرت عمروؓ بن العاص کی سرکردگی میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کمک بھیجی گئی اس کے سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح بنائے گئے۔ یہ بڑی عزت افزائی کی بات تھی کہ اس امدادی دستے میں شیخینؓ جیسی ہستیاں بھی حضرت ابوعبیدہؓ کے پیچھے چل رہی تھیں، لیکن جب یہ فوج محاذ پر پہنچی تو حضرت ابوعبیدہؓ کو ان کے خدا نے آزمایا۔ حضرت عمروؓ بن العاص نے کہا:

’’آپ لوگ میری مدد کے لیے بھیجے گئے ہیں اس لیے ساری فوج کی کمان میرے ہاتھ میں رہے گی‘‘۔

’’ بے شک‘‘ حضرت امین الامت نے ارشاد فرمایا: ’’آپ جس فوج کے افسر ہیں اس کے افسر رہیں گے لیکن یہ امدادی دستہ میری ہی ذمہ داری اور میری ہی کمان میں بھیجا گیا ہے۔ اس لیے آپ اپنی جگہ افسر رہیں اور میں اس امدادی دستے کا نگران رہوں‘‘۔

لیکن حضرت عمروؓ بن العاص نے یہ بات نہیں مانی۔ قریب تھا کہ اختلافِ رائے جھگڑے کی شکل اختیار کرلے کہ اچانک حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنی تمام بزرگی اور منزلت کے باوجود بخوشی ہتھیار ڈال دیے اور سپہ سالاری کی جگہ سے چپکے سے ہٹ کر ماتحتی میں کام کرنے کو تیار ہوگئے۔

………٭٭٭………

فتوحات کی عظیم الشان کثرت کے بعد جب ہر طرف دولت کی ریل پیل ہورہی تھی اور قدرتی طور پر لباس اور کھانے پینے میں مسلمانوں کا معیارِ زندگی اونچا ہورہا تھا، اُس وقت حضرت ابوعبیدہؓ جو فاتح شام تھے، روٹی کے سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو بھگو کر کھا رہے تھے۔ سفرِ بیت المقدس کے موقع پر حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے ازراہِ خوش طبعی و بے تکلفی کہا:

’’بھئی آج تو ہماری دعوت کردو نا!‘‘

ایک لمحے کے لیے انھوں نے کچھ سوچا۔ سوچ یہی تھی کہ خلیفۂ وقت کے سامنے اپنا موٹا جھوٹا کھانا لانا مناسب ہے کہ نہیں؟ آخر اندر گئے اور وہی روٹی کے سوکھے ٹکڑے پیش کرتے ہوئے معذرت چاہی کہ:

’’میری تو یہی خوراک ہے۔ روٹی کے یہ ٹکڑے سوکھے ہوئے ہیں مگر پانی میں تر کرکے ان کو دو وقت کھا لیا کرتا ہوں‘‘۔ عقیدت و احترام فقر سے حضرت عمر فاروقؓ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ فقر کا دلدادہ فقر کے دلدادے کو رشک کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔

’’ اے ابو عبیدہؓ!‘‘ انھوں نے سرد آہ کھینچتے ہوئے کہا: ’’شام میں آکر سب ہی بدل گئے مگر ایک تم ہو کہ اپنی اسی وضع پر قائم ہو!‘‘

فلسطین کے مشہور شہر عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے شام، مصر اور عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہزارہا انسان موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ٹھیک اسی خطرناک علاقے میں حضرت ابوعبیدہؓ اطمینان سے فروکش تھے۔ تقدیر پر ان کا ایمان ’’شدید‘‘ تھا اور اس شدت میں ایسے خطرات سے بچتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں تقدیر پر ایمان کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ خطرناک حالات معلوم ہوئے تو حالات کا معائنہ کرنے کے لیے موقع پر تشریف لائے اور بڑی التجا کے ساتھ حضرت ابوعبیدہؓ سے کہا کہ اس مقام سے دور چلیے۔

’’کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟‘‘ بندۂ مومن نے جوشِ ایمان میں پلٹ کر جواب دیا۔

’’ہاں، خدا کی تقدیر سے خدا کی تقدیر ہی کی طرف بھاگتا ہوں‘‘۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حکمت کے ساتھ جواب دیا۔

مگر یہ بات حضرت ابوعبیدہؓ کے دل کو نہ لگی اور وبائی علاقے سے جان بچاکر جانا ان کو تقدیر پر ایمان کے خلاف محسوس ہوا۔ حضرت عمر فاروقؓ تڑپ رہے تھے کہ اجتہادی خطا کی بدولت ایک بڑی قیمتی جان خطرے میں ہے۔ مگر پاسِ ادب سے کچھ نہ کہہ سکے اور بڑے اضطراب کے عالم میں واپس مدینہ تشریف لائے۔ ہر وقت ان کا دل حضرت ابوعبیدہؓ میں اٹکا ہوا تھا۔ آخر ایک تدبیر سوجھی اور ان کو خط لکھا کہ آپ سے مجھے ایک کام ہے اس لیے ذرا مدینہ ہوجائیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ مطلب سمجھ گئے، اس لیے اس خط کا جواب یہ پہنچا کہ:

’’میں اسلامی لشکر کو یہاں چھوڑ کر محض اپنی جان بچانے کے لیے تمہارے پاس نہیں آسکتا، جو کچھ خدا کو منظور ہے وہ تو ہوکر ہی رہے گا‘‘۔

یہ خط پڑھ کر بیچارگی کے ساتھ حضرت عمرؓ رو پڑے۔ آخر مجبور ہوکر انھوں نے یہ درخواست کی کہ اسی علاقے میں کسی بہتر مقام پر منتقل ہوجائیے اور لشکر کو بھی ساتھ لے جائیے۔ یہ بات حضرت ابوعبیدہؓ نے مان لی۔ لیکن دوسرے مقام پر پہنچتے ہی ان پر طاعون کا حملہ ہوگیا اور ہنسی خوشی امین الامت زندگی کی امانت سے سبک دوش ہوگئے۔ اس خبر کو پاکر حضرت عمر فاروقؓ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور فرمایا کہ حضورؐ اور حضرت صدیق اکبرؓ کے بعد یہ میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ہے۔

کتنا بلند و بالا تھا وہ انسان، جس کے متعلق حضرت عمر فاروقؓ یہ کہا کرتے تھے کہ ’’اگر میری موت کے وقت تک ابوعبیدہؓ زندہ رہے تو میں خلافت کے لیے ان کو نامزد کروں گا اور خدا سے عرض کردوں گا کہ تیرے رسولؐ نے جس شخص کو امین الامت قرار دیا تھا، خلافت کی امانت میں اس کو سونپ آیا ہوں‘‘۔

یہ اُس آدمی کے الفاظ تھے جو اپنے بعد کسی کو خلافت کے لیے نامزد کرنے کے خیال ہی سے لرزتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے اعمال کی ذمہ داری اور جواب دہی میرے حصے میں آجائے۔ یہ اُس شخص کے الفاظ تھے جس نے اپنی اولاد پر بھی خلافت کے منصب کا حق ادا کرنے کا اعتماد نہ کیا تھا اور یہ وصیت چھوڑی تھی کہ جس کو چاہو منتخب کرو مگر خلافت کا کوئی حق آلِ عمرؓ کے لیے نہیں ہے۔

دیکھو! یہ حق میں نے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔ ہاں وہی شخص اس کی آرزو رکھتا تھا کہ کاش اپنے بعد خلافت کے لیے میں ابوعبیدہؓ کو نامزد کرتا۔ڈ

کیسے خوش نصیب تھے ابوعبیدہؓ جنھوں نے خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنے آپ کو خاک میں ملا دیا۔ فوجیوں کے کمانڈر تھے مگر خدا کی زمین پر کیسے ڈرتے ڈرتے چلتے تھے۔ جو فاتح شام تھے مگر اپنی فتوحات کے عہدِ زریں میں جو سوکھی روٹی کے ٹکڑے کھا کھا کر خدا کے وعدۂ جنت پر راضی تھے۔ آزمائش کی یہ کڑی منزلیں سر ہوگئیں اور ان کا تمام دکھ درد تاریخ میں رہ گیا، مگر ان مجاہدات کا لافانی انعام اِن شا اللہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ کتنی معقول اور کس قدر پُر معنی تھی ان کی خوشی، جو دائمی سکون کے انتظار میں دنیا کے عارضی دکھ جھیل رہے تھے۔ لیکن خدا جانے کتنی بڑی تباہی ہے اُن کے لیے جن کے لیے عیشِ دنیا بس ہے، خواہ آخرت یکسر تباہ ہوکر رہ جائے! جو چار دن کی چاندنی پر مگن ہیں، مگر ذرا فکر نہیں کہ کہیں قبر میں گھپ اندھیرا نہ پڑا رہ جائے۔

حصہ