میرے درویش اباجی

ابا جی کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے 12 سال کا عرصہ بیت گیا۔ دسمبر کا مہینہ نہ صرف ہمیں بلکہ پوری قوم کو غم دے گیا۔ ابا جی کی جدائی کا کرب ہر سانس کے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں بسے ہوئے ہیں۔ ہمارے اردگرد اپنی تروتازہ خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے ابا جی کی خدمات بے حساب ہیں۔ وہ معتبر سیاست دان تھے، جو ذمے داری ان کے سپرد کی گئی ایک معمار کی طرح محنت، مشقت اور ایمان داری سے اس کا حق ادا کیا۔

ابا جی 26 دسمبر 2012ء کو اپنی بے داغ زندگی گزار کر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ابا جی کی زندگی میں بھی ان کا چہرہ روشن، پُرسکون اور مطمئن نظر آتا تھا۔

ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں الحمدللہ ہر طرف خوشی اور سکون کا بسیرا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر طرف اللہ کی رحمت برس رہی ہو۔ ابا جی شفیق انسان تھے، کبھی انہیں تیز آواز میں باتیں کرتے نہیں سنا۔ ان کا لہجہ ہمیشہ دھیما اور شفقت سے بھرپور ہوتا تھا۔ ابا جی نے نہ صرف ہم پر بلکہ ہمارے بچوں پر بھی اپنا بھرپور پیار نچھاور کیا۔ امی کے گھر جاتے تو سب بچے خوب شور مچاتے، لیکن ابا جان نے کبھی کسی کو کچھ نہ کہا، ہمیشہ مسکرا کر سر پر ہاتھ رکھتے اور کہتے ’’جیتے رہو‘‘۔

ابا جی کی تاریخ پیدائش 11 جون 1927ء ہے، ان کا بچپن نینی تال میں گزرا۔ یتیم تھے، والد کا انتقال کم عمری میں ہوگیا تھا۔ تنگ دستی اور سختی کی زندگی گزاری۔ 23 سال کی عمر میں جماعت اسلامی سے رشتہ جڑا، جسے اپنی زندگی کی آخری سانس تک نبھایا۔ پوری زندگی جماعت کی خدمت کی۔ اباجی نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ دوسرے سیاسی حلقوں میں بھی بے انتہا مقبول تھے۔

میری والدہ بھی ایک عظیم خاتون تھیں جو کہ اباجی کی اطاعت گزار تھیں۔ انہوں نے اباجی کی خدمت دل و جان سے کی۔ امی نے اباجی کو کبھی شکایت کا موقع نہ دیا۔ ہر خاندانی فریضہ دل و جان سے نبھایا اور اباجی کو ہمیشہ گھر کے معاملات میں بے فکر رکھا۔ انہوں نے کبھی اباجی کی صحت کے معاملے میں کوتاہی نہیں برتی۔ امی کا دایاں ہاتھ تکلیف کی وجہ سے ٹھیک سے اٹھ نہیں پاتا تھا، اس کے باوجود وہ ابا کے لیے روٹیاں پکاتیں۔ انہوں نے ہر مشکل گھڑی میں ابا کا ساتھ دیا۔ اللہ پاک انہیںغریقِ رحمت کرے، آمین۔

اباجی اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود گھر اور خاندان سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے عمل کے ذریعے ہماری تربیت کی۔ اباجی نماز مسجد میں ادا کرتے۔ اگر گھر پر کوئی مہمان نماز کے وقت آجائے تو اباجی اُسے بھی مسجد ساتھ لے جاتے۔

ابا جی نے اپنی کسی اولاد میں کوئی تفریق نہیں برتی، البتہ وہ بیٹیوں کو زیادہ چاہتے تھے۔ جب بھی بیٹیوں کے گھر جاتے موسم کے لوازمات لے کر جاتے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی وراثت کی تقسیم کردی اور خود امی کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہوگئے۔ یہ اولاد کے لیے ان کی بہت بڑی قربانی تھی۔

اباجی دین و دنیا ساتھ لے کر چلتے۔ کوئی دعوت دیتا تو قبول کرتے اور مصروفیت کے باوجود ضرور شریک ہوتے۔ وقت کے پابند تھے، اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو قیمتی جان کر اس کی قدر کرتے۔ انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود 8 کتابیں تصنیف کیں۔

ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ جب 1970ء کے انتخابات ہورہے تھے تو سب کو امید تھی کہ جماعت اسلامی کامیابی حاصل کرلے گی۔ اس انتخاب میں والد صاحب تو جیت گئے لیکن جماعت اسلامی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ابا جی نے اپنی جیت کی مبارک باد قبول نہیں کی اور کمرے کی لائٹ بند کرکے سو گئے۔

اباجی اپنے بچوں سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ مجھے اور میری بڑی بہن (مرحومہ) کو حساب پڑھایا کرتے تھے، ہمارے لیے کھلونے اور سبق آموز کہانیوں کی کتابیں لایا کرتے تھے۔ وہ اکثر ہمیں تحفے بھی دیا کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ انہوں نے مجھے ایک گھڑی تحفے میں دی تھی، افسوس کہ میں اسے سنبھال کر رکھ نہ پائی۔ ابا جی ہماری کوئی خواہش رد نہ کرتے۔

ابا جی نڈر انسان تھے، انہیں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا، حق بات کہنے سے کبھی نہیں جھجکے۔ وہ ہمیشہ باوضو رہتے اور ہمیں بھی اس کی تلقین کرتے اور کہتے: کیا تمہیں اچھا لگے گا کہ تمہیں اچانک اللہ پاک اپنے پاس بلا لے اور تم اللہ کے حضور بے وضو پیش ہو؟

مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جاتے۔ اگر گھر میں کوئی چائے لے کر جانے والا نہ ہو تو خود باورچی خانے سے چائے کی ٹرے اٹھاکر مہمان خانے لے جاتے اور پھر واپس باورچی خانے میں رکھ آتے۔
امی کی رحلت کے بعد اباجی کی صحت بھی آہستہ آہستہ گررہی تھی، خوراک نہایت کم کردی تھی۔ اپنے انتقال سے چھ ماہ قبل ہمیں آگاہ کردیا تھا کہ وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے والے ہیں۔ میں ان کی یہ بات سن کر رونے لگی تو مسکرا کر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’اچھا نہیں کہوں گا، ہنستی ہوئی اپنے گھر جائو۔‘‘
انتقال سے ایک ہفتہ قبل میں ابا سے ملنے گئی۔ وہ اُس وقت بھی مسکرا رہے تھے۔ علالت کی وجہ سے بات کم کرتے تھے، اُس دن پوری ہمت اور طاقت جمع کرکے میرا سر نہایت مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اور ڈھیروں دعائیں دیتے چلے گئے۔ میں آج تک ان کی دعائوں کے حصار میں ہوں۔
ابا جی نے اس ملک و قوم کے لیے جو قربانیاںدی ہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہر انسان اس سے فیض یاب ہو۔ ابا جی کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا، اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔