ہم سفر

30

مریم کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد بن گئی تھی۔ شوہر امجد کے دیارِ غیر جانے کے بعد وہ اکیلے ہی گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ ہر روز نئے مسائل اس کے سامنے آکھڑے ہوتے، کبھی بجلی کے بل کی لائن، کبھی راشن کے لیے دھکے، اور کبھی خراب موٹر کی پریشانی۔ ان سب کے بیچ بچوں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کا چیلنج سب سے بڑا تھا۔
ارحم اور فاطمہ، دونوں بچے، مریم کے دل کا سکون تھے، لیکن ان کی دیکھ بھال کے لیے جو وقت اور توانائی درکار ہوتی وہ مریم کے لیے مزید مشکلات پیدا کردیتی۔ امجد کو دیارِ غیر میں رہتے دو سال ہوچکے تھے، لیکن مریم کو ہر دن ان کی غیر موجودگی کا شدت سے احساس ہوتا تھا۔
ایک شام جب موٹر کی مرمت کے جھنجھٹ اور فاطمہ کی طبیعت خراب ہونے کے بعد مریم بری طرح تھک چکی تھی، ارحم کے ایک جملے نے اس کی دنیا بدل دی:
’’امی، ابو کو کہیں نا کہ وہ واپس آجائیں۔‘‘
ارحم کے معصوم چہرے اور درد بھرے الفاظ نے مریم کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ وہ اپنے شوہر کو ہر روز حوصلہ دیتی تھی کہ ’’ہم ٹھیک ہیں، فکر نہ کریں۔‘‘ لیکن سچائی یہ تھی کہ ان سب قربانیوں کا مقصد کیا تھا، اگر سکون اور خوشی گھر کے اندر ہی نہ ہو؟
اگلی صبح مریم نے ایک فیصلہ کرلیا۔ اس نے امجد کو فون کیا لیکن اِس بار اُس کے لہجے میں شکایت نہیں تھی بلکہ نرمی اور محبت تھی:
’’امجد! میں جانتی ہوں کہ تم نے یہ سب ہمارے لیے کیا، لیکن شاید ہماری اصل ضرورت پیسے سے زیادہ تمہاری موجودگی ہے۔ بچوں کو بھی تمہاری ضرورت ہے اور مجھے بھی۔ کیوں نا ہم کم میں خوش رہنے کی کوشش کریں، لیکن اکٹھے رہیں؟‘‘
امجد دوسری طرف خاموش تھا، لیکن اس خاموشی میں ایک عزم تھا۔ اس نے کہا ’’مریم! میں بھی تم سب کے بغیر ادھورا ہوں۔ میں جلد واپسی کی تیاری کرتا ہوں۔‘‘
چند ہفتوں بعد امجد گھر واپس آگیا۔ ان کی زندگی شاید مالی طور پر اتنی آسان نہ رہی، لیکن محبت اور ساتھ کی برکت نے ان کے دلوں کو سکون دے دیا۔ مریم نے محسوس کیا کہ مضبوط خاندان ہی مستحکم معاشرے کی بنیاد ہے۔ اگر ایک گھر کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں تو دنیا کی ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
امجد اور مریم کے گھر کا آنگن پھر سے ہنسی اور خوشیوں سے بھر گیا۔ ارحم اور فاطمہ نے اپنے والد کے ساتھ کھیلتے ہوئے زندگی کی اصل خوشیوں کو سمجھا اور مریم کو یہ یقین ہوگیا کہ سچی خوشی اکٹھے رہنے میں ہے۔

حصہ