’’ منشی چھوہارا اور ناقابلِ یقین بک فیر‘‘

31

(منشی چھوہارا سیریز)

کراچی میں دسمبر کی نرم دھوپ اور سرد ہوا میں عجیب سا سکون تھا۔ ایکسپو سینٹر کی تیاری عروج پر تھی، کیونکہ سالانہ انٹرنیشنل بک فیر صرف دو دن کی دوری پر تھا۔ شہر کے ہر ناشر اور مصنف کا ذکر تھا، لیکن ان سب کے بیچ منشی چھوہارا اپنے خوبصورت دفتر کی میز پر بیٹھے آرام سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔

منشی چھوہارا، جو خود کو ’’اردو ادب کا روحانی رہنما‘‘ سمجھتے تھے، ہمیشہ جلدی کام کرنے کے سخت خلاف تھے۔ ان کے’’ماہنامہ ناقابلِ یقین‘‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے قارئین ہمیشہ انتظار کی کوفت میں مبتلا رہتے، کیونکہ میگزین کبھی بھی وقت پر شائع نہیں ہوتا تھا… لیکن جب ہوتا تھا تو ناقابلِ یقین سرکولیشن کا حامل ہوتا، جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا۔

منشی چھوہارا چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی نئے آئیڈیا پر غور کررہے تھے کہ ان کے نائب مدیر لطیف نعمان ہانپتے کانپتے اندر داخل ہوئے۔

’’منشی چھوہارا یہ کیا کررہے ہیں؟‘‘

’’کیا کررہا ہوں! چائے پی رہا ہوں، اور کیا؟‘‘ منشی صاحب نے سکون سے جواب دیا۔

’’ارے صاحب، آپ نے بک فیر کے لیے اسٹال بک نہیں کروایا! دو دن رہ گئے ہیں بک فیر میں۔‘‘

چائے کا کپ ہلتے ہلتے رک گیا، منشی صاحب کی آنکھوں میں حیرت کا ایک طوفان ابھرا۔

’’دو دن…! یہ کیا بات کررہے ہو…! دسمبر تو ابھی آیا ہی نہیں۔‘‘

’’منشی صاحب، دسمبر آچکا ہے اور شروع بھی ہوچکا ہے۔‘‘

لطیف نعمان نے کانپتی آواز میں وضاحت کی۔

’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ منشی صاحب نے غصے سے میز پر ہاتھ مارا، یہ بک فیر ہمارے بغیر کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

دفتر میں بھونچال آگیا تھا، سب کو لگا جیسے کوئی قومی سانحہ پیش آگیا ہو۔ لطیف نعمان نے جلدی سے کتابوں کی فہرست تیار کرنی شروع کی، جس میں ہر کتاب کے نام کے ساتھ یہ لکھا گیا تھا:

’’ناقابلِ یقین کہانی… ناقابلِ یقین قیمت پر‘‘۔

منشی چھوہارا خود پبلسٹی پلان بنانے بیٹھ گئے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ بک فیر کی شان تب ہی بنتی ہے، جب ان کا اسٹال وہاں ہو۔

دو دن کے اندر انہوں نے ایک شاندار بینر اور اپنے ماہنامے کی پرانی اور نئی کاپیاں جمع کیں اور ایکسپو سینٹر پہنچ گئے۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی ان کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔ تمام اسٹال پہلے ہی بک ہوچکے تھے۔

منشی صاحب نے انتظامیہ کے نمائندے کو پکڑا اور اپنی مخصوص آواز میں کہا:’’یہ کیا بات ہوئی! ’’ناقابل یقین‘‘ کے بغیر بک فیر کیسا! یہ تو ایسے ہی ہے جیسے چائے بغیر شکر کے۔‘‘

انتظامیہ کے نمائندے نے بے بسی سے کہا: ’’منشی چھوہارا، آپ نے وقت پر بکنگ ہی نہیں کروائی۔‘‘

’’ہم وقت پر نہیں… یہ تو ناقابلِ یقین بات ہے۔ آپ کو یاد دلانا چاہیے تھا۔‘‘

جب انتظامیہ نے ان کی کوئی بات نہ مانی تو منشی صاحب نے منتظمِ اعلیٰ سے درخواست کی۔ منتظمِ اعلیٰ منشی چھوہارا سے واقف تھے، انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست پبلشر سے درخواست کی جن کے تین اسٹال تھے کہ منشی چھوہارا کو اپنے اسٹال میں شیئرنگ دے دیں۔ یوں منشی چھوہارا کو بھی جگہ مل گئی اور انہوں نے اپنا بینر لگا لیا۔ اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ منشی چھوہارا کا اسٹال ہال نمبر دو کے آغاز پر ہی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اسٹال کے قریب سے ہر گزرنے والے کو آواز دے کر کہتے:

’’کتابیں اندر جاکر دیکھو گے، یا یہاں سے ناقابلِ یقین قیمت پر لے کر جاؤ گے؟‘‘

لوگوں نے پہلے تو ہنسنا شروع کیا، لیکن پھر کچھ قارئین نے واقعی ان کی کتابیں خریدنی شروع کردیں۔

منشی چھوہارا کے اسٹال پر دیکھتے ہی دیکھتے رونق بڑھنے لگی، لوگ ہال نمبر دو میں داخل ہوتے ہی ان کی آواز سنتے اور مسکراتے ہوئے رکتے۔

’’یہاں ناقابلِ یقین قیمت پر… ناقابلِِ یقین کتابیں موجود ہیں، جلدی آئیں، جلدی پائیں، پیسے بچائیں، ادب کے چراغ کو روشن کریں۔‘‘ منشی چھوہارا نے ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے میں چائے کا کپ اٹھایا ہوا تھا، جیسے وہ کوئی انتخابی جلسہ کررہے ہوں۔

قریبی پبلشر، جو اُن کے ساتھ اسٹال شیئر کررہا تھا، پہلے تو حیران ہوا، پھر خفگی سے بولا: ’’منشی چھوہارا! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ لوگ میرے اسٹال پر آنے کے بجائے آپ ہی کی کتابیں لے جارہے ہیں۔‘‘

منشی چھوہارا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’بھائی، ادب کے لیے تھوڑی سی قربانی دینا پڑتی ہے… آپ بھی خوش رہیں، اور میں بھی۔‘‘

اتنے میں لطیف نعمان، جو دوڑ دوڑ کر کام کررہے تھے، ہانپتے ہوئے آئے: ’’منشی صاحب! میگزین کی کاپیاں ختم ہورہی ہیں۔‘‘

’’کاپیاں ختم ہورہی ہیں!منشی چھوہارا نے حیرت سے دہرایا۔

’’ارے بھائی، یہ تو خوشی کی بات ہے، جاکر مزید کاپیاں لے آؤ، ’’ماہنامہ ناقابلِ یقین‘‘ کو بک فیر کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔‘‘

لطیف نے فوراً رکشہ پکڑا اور دفتر سے مزید کاپیاں لے آیا۔ اتنی دیر میں وہاں منشی صاحب کے ’’ناقابلِ یقین‘‘ بینر کے نیچے چھوٹا سا مجمع جمع ہوچکا تھا۔ ایک صاحب نے مذاق میں کہا:’’منشی چھوہارا، آپ نے بک فیر کو بھی ناقابلِ یقین بنادیا ہے۔‘‘

’’صاحب، یہی تو ہمارا کمال ہے۔‘‘ منشی چھوہارا نے اطمینان سے جواب دیا۔

اچانک ایک مشہور ادبی شخصیت ہال میں داخل ہوئی۔ جیسے ہی ان کی نظر منشی صاحب کے اسٹال پر پڑی، وہ حیران ہوکر رک گئے۔

’’منشی چھوہارا، آپ یہاں!‘‘

’’جی ہاں، حضور! ادب کا سفر ہمیشہ جاری رہنا چاہیے، چاہے جگہ شیئر کرنی پڑے یا آواز لگانی پڑے۔‘‘

انہوں نے ایک میگزین اٹھا کر دیکھا اور کہا: ’’ویسے آپ کا یہ ماہنامہ واقعی منفرد ہے۔ یہ عنوانات اور سرکولیشن کی بات تو ناقابلِ یقین ہے۔‘‘

منشی صاحب نے جھک کر تعظیم دی۔ ’’حضور، یہ ادب کا معجزہ ہے… اور یہ سب آپ جیسے قدردانوں کی بدولت ہے۔‘‘

اچانک ایک نوجوان لڑکا ان کے پاس آیا اور کہا:’’منشی صاحب، آپ کی ’’ناقابلِ یقین کہانیاں‘‘ میرے والد پڑھتے تھے۔ میں نے سنا ہے آپ کے پاس پرانے شمارے بھی موجود ہیں۔‘‘

منشی چھوہارا نے خوش ہوکر کہا: ’’بیٹا، یہی تو اصل خزانہ ہے۔ ہمارے میگزین میں ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی محفوظ ہے۔ لو، یہ لے جاؤ اور والد صاحب کو میرا سلام کہنا۔‘‘

لڑکے نے پیسے نکالنے کی کوشش کی، لیکن منشی صاحب نے منع کردیا۔ ’’نہیں بیٹا! یہ تحفہ ہے۔ ہم ادب کے چراغ کو روشن رکھنے آئے ہیں، نہ کہ دولت سمیٹنے۔‘‘

اتنے میں ایک مقامی چینل کا رپورٹر اسٹال پر پہنچا۔

’’منشی چھوہارا!آپ تو اس بک فیر کے اسٹار بن گئے ہیں۔ کوئی خاص پیغام دینا چاہیں گے۔‘‘

منشی چھوہارا نے اپنی عینک سیدھی کی اور کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے: ’’یہ بک فیر ہے، لیکن ہمارے لیے یہ تہوار ہے… ادب کا تہوار… کتابوں کا جشن۔ میرا پیغام صرف اتنا ہے کہ کتاب پڑھو، سوچو، اور اپنی زندگی کو ناقابلِ یقین بنالو۔‘‘

کیمرے کے سامنے یہ جملہ بول کر منشی صاحب نے جیسے میدان مار لیا۔ قریب کھڑے ایک ناشر نے کہا:’’منشی چھوہارا واقعی ناقابلِ یقین آدمی ہیں۔‘‘

شام ڈھلتے ہی جب بک فیر کا پہلا دن ختم ہوا تو منشی چھوہارا نے اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے لطیف نعمان سے کہا: ’’دیکھا، ادب کے لیے جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ یہ صرف اسٹال نہیں تھا، یہ اردو ادب کی فتح تھی۔‘‘

لطیف نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’منشی چھوہارا! کل بھی یہی جنگ لڑنی ہے نا۔‘‘

’’کل نہیں بھائی! کل تو جشن منائیں گے… ناقابلِ یقین جشن۔‘‘

یوں منشی چھوہارا کا اسٹال، جو ایک عام سی جگہ پر لگا تھا، بک فیر کا سب سے مقبول مقام بن گیا۔ لوگ وہاں رک کر ہنستے مسکراتے ہوئے کتابیں خریدتے اور منشی چھوہارا کی شخصیت کو سراہے بغیر نہ رہ پاتے۔

حصہ