آج ہر معاملہ انٹرنیٹ سے یوں جُڑ چکا ہے کہ الگ ہونے یا الگ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں انٹرنیٹ کی بندش کی بھی گنجائش نہیں اور یہ سُست رفتار بھی نہ ہو۔ ایسی کسی بھی کیفیت کے معاشی نقصانات بھی کم نہیں اور نفسیاتی و معاشرتی پیچیدگیاں بھی بہت زیادہ ہیں
ابوالحسن اجمیری
ہم انٹرنیٹ کے دور میں جی رہے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ ہم میں زیادہ جی رہا ہے۔ محض تین عشروں کے دوران انٹرنیٹ نے ہماری زندگی میں اس طور انٹری دی ہے کہ اب سبھی کچھ اُس کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ معاملات کبھی اِس حد تک پہنچیں گے یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ انٹرنیٹ ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ بن کر رہ گیا ہے۔
آج کی دنیا میں انٹرنیٹ کے بغیر ڈھنگ سے جینے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اب ہر معاملہ کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی حد تک انٹرنیٹ سے جُڑ چکا ہے یا جوڑا جاچکا ہے۔
خریداریاں اور ادائیگیاں انٹرنیٹ کے ذریعے ہورہی ہیں۔ معلومات کا حصول انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد سے تعلیم حاصل کی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ تفریحِ طبع کا بھی بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ مختلف علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی انٹرنیٹ ناگزیر ہے۔
ڈیڑھ دو عشرے قبل انٹرنیٹ کا معاملہ تعیش کا تھا۔ پھر یہ آسائش میں تبدیل ہوا۔ اور اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ سب کچھ اس قدر تیزی سے تبدیل ہوا ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ معاملات کو درست کیسے کیا جائے، یا قابو میں کیسے رکھا جائے!
انٹرنیٹ اب ہماری بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ بنیادی حق بھی ہے۔ آج دنیا کے ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ اُسے تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن میسر ہو۔ یہ سہولت اُس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہے۔ وہ زمانہ گزر چکا جب انٹرنیٹ فرصت کا مشغلہ تھا۔ اب یہ زندگی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے دینی اور دُنیوی دونوں طرح کی معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ انٹرنیٹ دوستی کا ذریعہ ہے۔ رشتوں کو مضبوط کرنے کی سبیل بھی یہی ہے۔ یہ مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ جس میں ہمت ہے وہ اِسے مثبت سرگرمیوں کے لیے بروئے کار لائے، اور جس کی ہمت جواب دے گئی ہے وہ اِسے منفی انداز سے چلنے دے اور تماشا دیکھتا رہے۔
ہمارے ہاں انٹرنیٹ کے حوالے سے کیا ہورہا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ جیسی بنیادی ضرورت کو بھی اہم دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں انٹرنیٹ کی سہولت کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ انٹرنیٹ نہ ہو تو زندگی ادھوری رہ جاتی ہے؟ شاید ہماری حکومت ہی یہ بات نہیں جانتی۔ یہی سبب ہے کہ انٹرنیٹ جیسی انتہائی بنیادی چیز یا سہولت کو بھی اب اپنی بات منوانے کے لیے اس طور استعمال کیا جارہا ہے کہ کروڑوں افراد کے معاملات الجھ جاتے ہیں۔
دس پندرہ سال پہلے معاملہ یہ تھا کہ سیکیورٹی کے نام پر فون کالز بند کردی جاتی تھیں۔ ٹیلی کام آپریٹرز کو ہر اہم موقع پر حکم دیا جاتا تھا کہ کال سروس بند کردیں۔ اب یہ معاملہ انٹرنیٹ کے ساتھ ہے۔ انٹرنیٹ کے بغیر کروڑوں افراد کے دھندے رُک جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی دونوں ہی حکومتیں اس حقیقت کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہیں۔ بات بات پر نوٹس لینے والی عدلیہ محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں انٹرنیٹ کا معاملہ دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی کشیدگی کے ماحول میں جب حکومت کا بس نہیں چلتا تو تان ٹوٹتی ہے انٹرنیٹ پر۔ جب مخالفین کو کنٹرول کرنے کا کوئی اور معقول طریقہ نہیں سُوجھتا اور صلاحیت و سکت جواب دے جاتی ہے تب انٹرنیٹ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
چار پانچ ماہ سے جاری سیاسی تناؤ میں حکومت جب کچھ نہیں کرپاتی تو انٹرنیٹ بند کرنے پر تُل جاتی ہے۔ اگر کبھی بند نہیں کیا جاتا تو اُس کی رفتار اِتنی گھٹادی جاتی ہے کہ اُس کے چلنے نہ چلنے کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اگر کبھی انٹرنیٹ کھلا بھی ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ سماجی رابطے کی بہترین اور مقبول ترین ویب سائٹس کو یا تو بند ہی کردیا جائے یا پھر اُن کے آپریشنز میں رخنہ ڈالا جائے۔
یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے۔ سوال صرف معاشرے میں پیدا ہونے والے انتشار کا نہیں بلکہ معیشت کا ہے۔ آج معیشت کا ہر شعبہ انٹرنیٹ سے جُڑا ہوا ہے۔ بینکوں کے سسٹم انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں۔ کاروباری ادارے انٹرنیٹ کے بغیر کام نہیں کرپاتے۔ میڈیا ہو یا بینکنگ… تعلیمی نظام ہو یا خوردہ فروشی… صنعتی معاملات ہوں یا برآمدی تجارت… سبھی کچھ انٹرنیٹ سے یوں جُڑا ہے کہ الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
کیا حکومت کو معلوم نہیں کہ انٹرنیٹ کی بندش سے کیا ہوسکتا ہے؟ یا مختلف ایپس اور ویب سائٹس کو بند کرنے کی صورت میں ملک بھر میں کتنے لوگ کتنے پریشان ہوتے ہیں؟ سیکیورٹی کے نام پر کنٹینرز لگاکر لوگوں کو پریشان کرنے والی کیفیت اب انٹرنیٹ کے معاملات میں بھی در آئی ہے۔ جب حکومت کی طاقت جواب دے جاتی ہے تو مخالفین کا سامنا کرنے کے لیے وہ انٹرنیٹ اور ٹیلی کام آپریشنز کو اپنے بہترین ہتھیار کے طور پر بروئے کار لاتی ہے۔
یہ نہیں سوچا جارہا کہ ایسے اقدامات سے دنیا بھر میں ملک کے حوالے سے انتہائی منفی تاثر ابھر رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار جب یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے یا کیا جاسکتا ہے تو وہ اپنی رائے پر نظرِثانی کرنے لگتے ہیں، بدک جاتے ہیں۔ وہ اپنے سرمائے کا بہترین نعم البدل چاہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ذہنیت ہر سرمایہ کار میں ہوتی ہے اور یہ امر حیرت انگیز نہیں کیونکہ فطری ہے۔
ملک کو آگے بڑھنے کے لیے معیشت کے بہترین بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ آج کی معیشت میں انٹرنیٹ بنیادی ڈھانچے کا سب سے اہم جُز ہے۔ اِس کے بغیر کچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر معیشت کے چند شعبے اپنے حصے کا کام کر بھی لیں تو انٹرنیٹ کے بند یا سست ہونے کی صورت میں اُن کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں اور ساری محنت پر پانی پھرنے لگتا ہے۔ جس طور ٹیلی کام آپریٹرز کو کام بند کرنے کا حکم دے کر معاملات درست کرنے کی کوشش لاحاصل ہے بالکل اُسی طور انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کو دباؤ میں رکھنا بھی فضول حرکت ہے کیونکہ اِس سے قومی معیشت کو نقصان ہی پہنچتا ہے اور عالمی برادری میں ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ بڑے کاروباری ادارے انٹرنیٹ کے سیٹلائٹ کنکشن لیتے ہیں مگر یہ کنکشن بہت مہنگے ہوتے ہیں اور بہت بڑے ادارے ہی اِنہیں افورڈ کرپاتے ہیں۔ عام آدمی کو اپنی معاشی سرگرمیوں کے لیے سستا اور تیز انٹرنیٹ درکار ہے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ عام آدمی کو معاشی سرگرمیوں کے لیے انٹرنیٹ جیسی سہولت معقول فیس کے عوض فراہم کرے۔
عدلیہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو انٹرنیٹ کے معاملے میں اب کھل کر بات کرنی چاہیے۔ کاروباری طبقہ اس حوالے سے انتہائی پریشان ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد انٹرنیٹ کے ذریعے کماکر گھر چلارہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بندش سے معاملات الجھ جاتے ہیں۔ بیسیوں کام انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جارہے ہیں اور عام آدمی گھر بیٹھے اِتنا کمالیتا ہے کہ کسی نہ کسی طور گھر چلالے۔ لاکھوں افراد کی روزی روٹی پر لات مارنا کسی بھی اعتبار سے کوئی معقول روش نہیں۔ لازم ہے کہ اس حوالے سے سنجیدہ ہوکر سوچا جائے، اور جو سوچا جائے اُس پر عمل بھی کیا جائے۔
ہمارے انٹرنیٹ کی رفتار کتنی؟
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کس ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار کیا ہے؟ جن ملکوں میں انٹرنیٹ کی رفتار زیادہ ہوتی ہے وہاں علمی، کاروباری اور معاشرتی سرگرمیاں تیزی سے پنپتی ہیں، فروغ پاتی ہیں۔
دنیا بھر میں کروڑوں افراد کا روزگار اب براہِ راست انٹرنیٹ سے وابستہ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہی لوگ خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، سیکھتے بھی ہیں، سکھاتے بھی ہیں۔
ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے باقی دنیا پر واضح سبقت لیے ہوئے ہیں۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے پیچھے ہیں جبکہ ایشیائی ممالک اس معاملے میں بہت بہتر حالت میں ہیں۔ 2018ء سے اب تک مزید ایک ارب 50 کروڑ افراد آن لائن آئے ہیں۔
جو ممالک آمدنی کے گراف میں بہت اوپر ہیں اُن کے لوگ پانچ گنا رفتار والا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، اور انٹرنیٹ کے استعمال میں وہ پس ماندہ یا کم آمدنی والے ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں 20 گنا آگے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں انٹرنیٹ کی رفتار 428.53 میگا بائٹ فی سیکنڈ، قطر میں 356.74، کویت میں 258.51، ڈنمارک میں 149.73، اور بلغاریہ میں 147.68 میگا بائٹ فی سیکنڈ ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت ڈاؤن لوڈنگ کی رفتار کے حوالے سے اوسطاً 100ویں مقام پر ہے۔ پاکستان میں ڈاؤن لوڈنگ کی عمومی رفتار 20.61 میگا بائٹ فی سیکنڈ ہے۔ براڈ بینڈ انٹرنیٹ کے معاملے میں پاکستان 15.6 میگابائٹ فی سیکنڈ کی ڈاؤن لوڈنگ اسپیڈ کے ساتھ 141ویں پوزیشن پر ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش سے نقصان
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر طفیل خان نے نیٹ بلاکس کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں صرف ایک گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ بند ہونے سے پاکستان کو 22 لاکھ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
نیٹ بلاکس ایک ایسا ادارہ ہے جو ورلڈ بینک، انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین اور یوروسٹیٹ سے ڈیٹا لیتا ہے۔ یہ ٹول نیٹ ورک کے استحکام کو ٹریک کرتا ہے اور حقیقی وقت میں انٹرنیٹ کی بندش کی نگرانی کرتا ہے۔
طفیل خان نے آج نیوز کے پروگرام’’اسپاٹ لائٹ‘‘ میں کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش ڈلیوری رائیڈرز، آئی ٹی سے وابستہ افراد اور آن لائن ٹیکسی چلانے والوں کو شدید متاثر کرتی ہے۔ حکومت وی پی این اور سوشل میڈیا فرینڈلی پالیسیاں بنائے۔
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ سائبر کرائم ترمیمی بل کے ذریعے ہم کسی بھی چیز پر پابندی نہیں لگانے والے۔ چیزوں کو منظم کیا جارہا ہے۔ قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔
رانا احسان افضل کا کہنا تھا کہ ہم وی پی اینز پر پابندی نہیں لگا رہے بلکہ انہیں ریگولیٹ کررہے ہیں۔ ہم دنیا کے ساتھ چلیں گے۔ قوانین کو تنہائی میں نہیں بنایا جانا چاہیے اور اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر نے واضح کیا کہ سیکیورٹی کی وجوہ سے انٹرنیٹ تک رسائی صرف مختصر وقت کے لیے محدود تھی۔ براڈ بینڈ انٹرنیٹ کو کبھی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور اس سے زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ غلط معلومات پر قابو نہیں پایا جارہا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس سست ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے مسئلہ دو ہفتوں میں حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے بتایا کہ انٹرنیٹ سست ہونے سے کم ازکم 50 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ای کامرس کے بہت سے ادارے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال
معروف وڈیو شیئرنگ سائٹ یوٹیوب نے 2024ء میں پاکستان کی ٹاپ ٹرینڈنگ وڈیوز کی فہرست جاری کردی ہے۔ اس سال کی فہرستیں تین کیٹگریز پر پھیلی ہوئی ہیں: ٹاپ ٹرینڈنگ وڈیوز، ٹاپ میوزک وڈیوز اور ٹاپ کریئیٹرز۔ پاکستان کے ڈیجیٹل لینڈ اسکیپ میں یوٹیوب نے نمایاں ترقی دیکھی۔ پاکستانی تخلیق کاروں نے پہلے سے کہیں زیادہ مواد اپ لوڈ کیا۔ گزشتہ سال مقامی تخلیق کاروں کے ذریعے اپ لوڈ کیے گئے مواد کے کُل گھنٹوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔
اس سال انٹرٹینمنٹ کا شعبہ سب سے آگے رہا جس میں ڈرامے اور ایکشن سے بھرپور فلمیں ٹاپ ٹرینڈنگ وڈیوز کی فہرست میں سب سے اوپر رہی ہیں۔
ٹاپ کریئیٹرز کی فہرست میں ایسے افراد شامل ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور جدت طرازی سے لاکھوں افراد کو متاثر کرتے رہتے ہیں اور روزانہ فیملی بلاگنگ سے لائف اسٹائل، ہیلتھ کیئر اور تعلیمی مواد تک ہر چیز کا احاطہ کرتے ہیں۔