وہ دونوں اور ۔۔۔۔ہم!

100

ماموں… معتصم … اور واثق باللہ کے عہد میں جب بدعت اور ظلم کے سیاہ ہاتھ دین کا چہرہ بگاڑنے کی مہیب کوشش میں اس عظیم فتنے تک جا پہنچے تھے جو تاریخ میں ’’فتنہ خلق قرآن‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ جب انتہائی قہرمانیت کیش حکومت نے اعلائے کلمۃ الحق کرنے والی زبانیں کاٹ کاٹ کر ’’حق گوئی اور موت!‘‘ کا ہوّا کھڑا کردیا تھا۔ جب ایک سر پھرے اقتدار نے کوڑوں کی بوچھاڑ، آنسوئوں اور خون میں نہائے ہوئے رسن و دار، اور فولادی زنجیروں کی بھرمار سے پوری آبادیوں پر بادشاہ کی ایسی دہشت بٹھا دی تھی کہ ’’خوفِ خدا‘‘ کی شاہراہ ہی سنسان ہوکر رہ گئی تھی۔ جب جہاد و عزیمت کے سالار بزدلوں کی سہمی ہوئی بھیڑ بن گئے تھے اور جب علما کو گوشۂ سکوت میں سر چھپائے ہوئے دیکھ کر مومن مگر حیات سوختہ عوام ترس رہے تھے کہ کہیں سے تو اس باطل کو باطل اور ظلم کو ظلم کہنے والی کوئی ہلکی ہلکی سسکی سنائی دے جاتی!

ایک ایسے عزیمت شکار اور لرزہ خیز محاذ پر… سائیں سائیں کرتے ہوئے میدانِ جہاد میں خدا کا ایک عظیم بندہ سر سے کفن باندھے ہوئے اس خون آشام اور ایمان کُش اقتدار پر اعلائے کلمۃ الحق کی بجلیاں گراتا ہوا اٹھا۔ اس بندۂ خدا کا پاکیزہ نام تھا احمد بن حنبل۔ امام احمد ابن حنبل جس نے ظلم و سفاکی کی خوفناک ترین آندھیوں میں حق پرستی اور حق گوئی کا چراغ اشک و لہو سے جلانا سکھایا۔ وہ ایک نہتا انسان تھا مگر ظالم ترین حکمرانوں سے تنہا جنگ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ خدا کے خوف سے سرشار ہوکر اٹھا تھا تاکہ ’’بادشاہ کے خوف‘‘ کے دیوپیکر بت کو بیک ضربِ کلیم پاش پاش کر ڈالے، خواہ اس ایک ضربِ بے پناہ کے فوراً ہی بعد اس کے پورے وجود کے پرخچے اڑتے ہوئے کیوں نہ نظر آئیں۔

اقتدار کی مکروہ پیشانی پر قہر و انتقام کے جاں ستاں بل پڑے۔ ایک زبردست گھن گرج سی ہوئی اور دوسرے ہی لمحے ایک تنہا مومن اور طاقتور حکومت کے درمیان تاریخ کی انتہائی خوفناک اور ایمان کی انتہائی خوبصورت جنگ شروع ہوگئی۔ منوں لوہے کی زنجیروں کی جھنکار پتا پانی کرتی ہوئی بلند ہوئی اور وقت کا عظیم ’’امام‘‘ پابجولاں کرکے بادشاہ کے قہر و غضب کی زد میں لایا گیا۔ ٹھیک اُس وقت جب اوسان خطا کردینے کے لیے موت و ہلاکت امام پر یورش کررہی تھی، حضرت امام بن حنبل کے چہرے پر کوئی اور ہی پراسرار جذبہ کھیل رہا تھا جس کا تعلق کسی اور ہی دنیا سے تھا۔ کیا یہ شہادتِ حق کی وہ آرزو تھی جو ہر مومن کے دل میں ہوتی ہے، مگر کم ہی مومنوں کے چہروں پر اس کا بے حجاب حسن و جمال نظر آتا ہے؟ کیا یہ غیرتِ بندگی کا وہ عاجزانہ جلال تھا جس کو مٹانے والے ہمیشہ خود ہی مٹتے آئے ہیں، مگر اس کو کبھی نہ مٹا سکے؟ کیا یہ خدا کو خوش کرنے کی وہ جاں نثار تڑپ تھی جو ساری دنیا کو خفا کرتی ہوئی آتی ہے؟ اس جذبۂ بے پناہ کا چاہے جو نام بھی رکھ لو، وہاں تو دیکھنے والے یہ دیکھ رہے تھے کہ احمد ابن حنبل کا جسم عقوبت گاہِ دنیا میں اس طرح کھڑا ہے جیسے اس کی روح اس وقت دنیا میں کہیں بھی نہ تھی۔ وہ خدا کے لیے اس طرح جی اٹھے تھے کہ ساری دنیا اور اس کی آرزوئوں کے لیے موت آنے سے پہلے ہی مر گئے تھے۔

سخت امتحان تھا!… کتنی زبردست کامیابی تھی! رمضان المبارک کا صبر آزما مہینہ تھا اور فولادی عزیمت کا پیکر بے آب و دانہ ایک طرف روزوں پر روزے رکھ رہا تھا تو دوسری طرف خون کی چھینٹیں اڑاتے ہوئے کوڑے ایسے کھا رہا تھا کہ اگر ہاتھی کی کمر پر بھی برس پڑتے تو وہ بلبلا اٹھتا۔ ایک جلاد تھک جاتا تو دوسرا تازہ دم جلاد کوڑوں کی بوچھاڑ کرنے کے لیے آجاتا، مگر احمد بن حنبل نہ تھکا نہ ڈگمگایا! ٹھیک اُس وقت جب اس بھاری ابتلا کے خوں آشام جبڑے اس کی ہڈیاں تک چبائے لے رہے تھے وہ ایسا مظلوم ثابت ہوا جس کے ہونٹوں سے ایک کراہ نہ نکلی… نہ کوئی چیخ تھی، نہ کوئی تڑپ اور نہ کوئی بددعا! جیسے اس درد سے کراہنا بھی اسے اپنے درد کی توہین محسوس ہوتا تھا۔ کوڑوں کی شائیں شائیں میں اگر گھائل ہوتے ہوئے جسم میں سے کوئی آواز رہ رہ کر سنائی دیتی تھی تو وہ صرف یہ تھی:

’’کتاب اللہ… اور … سنتِ رسولؐ اللہ…‘‘

’’ہاں ہاں کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ خونچکاں مظلوم پر خود بادشاہ جھک پڑتا۔ ’’خدا کی قسم! مجھے تمہاری عظمت سے پیار ہے! میں منتظر ہوں کہ تم محض اتنا ہی کرلو کہ اس معاملے میں چپ ہوجائو۔ تائید نہیں کرسکتے تو تردید بھی نہ کرو، اور پھر دیکھو کہ میں کس طرح اسی دم خود اپنے ہاتھ سے تمہاری یہ زنجیریں کھولتا ہوں۔‘‘

روح فرسا مظالم کے بوجھ تلے ہانپتا ہوا مظلوم ایک باشاہ کے یہ الفاظ سنتا مگر اس پیش کش کو چھوڑ کر اچانک اس کی اشک آلود آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتیں، جیسے اس کی روح بادشاہ کے کرم کی نہیں اپنے خدا کے فضل کی متلاشی ہو۔ پھر وہی نظریں زمین پر جھک جاتیں جیسے قبر اور برزخ کی دنیا میں جھانک کر اپنی مظلومیت کے حسین ترین انجام کو ایک نظر دیکھ لینے کی کوشش کررہی ہوں، اور پھر یہ آنکھیں بادشاہ کی آنکھوں سے اس طرح چار ہوتیں جیسے بادشاہ بادشاہ نہیں، محض ایک پرچھائیں تھا اور یہ دنیا… بے رحم دنیا ایک خوابِ پریشاں سے زیادہ اور کچھ نہ تھی! پھر وہی آواز اس کے ہونٹوں سے نکلتی جس کے اندر اس کی روح کا سارا گداز اور اس کے جسم کا تمام درد و کرب سمٹ آتا تھا، تو شاہی تاج و تخت میں زلزلہ سا آنے لگتا اور ادائے بندگی کے سامنے مغرور شہنشاہیت کا سارا وقار گرد ہوکر رہ جاتا تھا۔

’’میں نہ اور کچھ کہتا ہوں، اور نہ کچھ سننا چاہتا ہوں‘‘۔

روح سے ٹوٹے ہوئے الفاظ اس کی زبان پر آتے ’’میرا صرف ایک مطالبہ ہے کہ خلق قرآن والی بات مجھے کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ اللہ سے سمجھا دو، بس اسی لمحے میں اپنی ہار مان لوں گا۔ اسی وقت تمہاری بات میرے سینے سے لگی ہوئی ہوگی‘‘۔

’’آخر تمہیں ضد کیوں ہوگئی ہے؟‘‘ قہر اور ہمدردی کی ملی جلی کیفیت میں بادشاہ پکار اٹھتا۔ ’’آخر دوسرے علما بھی تو ہیں جنہوں نے شرعی رخصت کی راہ اختیار کرکے چپ سادھ لی ہے‘‘۔

’’یہ کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔ امام صاحب بے چین ہوجاتے ہیں۔ ’’میں دلیل چاہتا ہوں۔ مجھے تم کو نہیں اپنے خدا کو جواب دینا ہے‘‘۔

اور…

بادشاہ یہ بات سن کر پھر قہر و غضب کے عالم میں تیز قدم اٹھاتا ہوا چلا جاتا، اور پھر وہی کوڑوں کی بوچھاڑ ہونے لگتی جن میں رہ رہ کر ’’کتاب اللہ … اور … سنت رسولؐ اللہ!‘‘ والی وہی بے قرار ہوک سنائی دیتی تو خود جلاد کا کلیجہ بھی منہ کو آنے لگتا۔

کوڑوں نے کمر کی کھال اڑا دی تھی۔ زنجیروں نے جسم پر خونچکاں حلقے ڈال دیے تھے۔ بے آب و دانہ روزوں سے بھوک اور پیاس کی اذیت ایک قیامت بن چکی تھی۔ یہ سب کچھ تھا مگر امام کے پائے ثبات میں جنبش تک نہ تھی۔ فیصلے میں کوئی لچک نہ تھی۔ وہ اسی قوت و استقلال کے ساتھ بادشاہ اور باطل کے خلاف جہاد کررہے تھے۔ پوری بستی میں ایک کہرام تھا۔ علم و فضل کے حلقوں میں امام کی ستم رسیدگی پر صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ضبط و غم سے پھٹتے ہوئے سینے اور آتشِ غم سے سرخ آنکھیں لیے ہوئے علما کے وفد حضرت امام کے پاس چلے آرہے تھے۔

’’خدا کے لیے خود پر اور ہم پر رحم کیجیے!‘‘ ان لوگوں نے التجائیں کیں۔ شریعت میں ایسے نازک مواقع پر رخصت اور رعایت بھی تو ہے۔ اس سے فائدہ اٹھالیجیے۔‘‘

’’مت بھولو‘‘ حضرت امام ؒ زخموں کے درمیان ارشاد فرماتے: ’’شریعت میں صرف رخصت ہی نہیں، عزیمت بھی ہے۔ اگر میں بھی رخصت کی راہ پکڑلوں تو آخر اس حدیث پر کون چلے گا جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار صحابہ کرامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شدید مصائب کی فریاد کی تو آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے سروں پر آرے چلائے جاتے تھے اور جسم لکڑی کی طرح چیر ڈالے جاتے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ سخت تکالیف بھی ان کو سیدھی سچی راہ سے نہ ہٹا سکیں۔ کیا یہ بھی حدیث نہیں ہے؟‘‘

ان علما اور حضرت امام دونوں کو زندگی اور عافیت کی تلاش تھی مگر فرق یہ تھا کہ یہ علما شرعی رخصتوں کی آڑ میں پناہ لے کر اس آنی جانی دنیا میں چند روز خیریت سے جینا چاہتے تھے مگر امامؒ طے کر چکے تھے کہ زندگی اور عافیت تو محض آخرت کی زندگی اور عافیت ہے۔ رہی یہ دنیا… تو یہاں موت سے کوئی مفر نہیں، اور ایک نہ ایک آرزو کے خون سے ہر آدمی کا کفن رنگین ہونا یقینی ہے۔ لوگوں کو امام کی مظلومیت پر ترس آرہا تھا، مگر امام کا دل ان لوگوں کی حالت پر خون کے آنسو روئے دیتا تھا جو راہِ سفر کی ڈھلتی چھائوں کو حاصل کرنے کے لیے منزل کی قرارگاہ کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔ پھر وہ سب لوگ چلے گئے اور امام احمد بن حنبل نے دیکھا کہ صرف خدا ہی ان کے ساتھ رہ گیا ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ جہاں جہاں بدن پر زخم لگ رہے ہیں وہاں وہاں خدا کی رحمت اُن کے اِن زخموں کو بوسے دے رہی ہے، پیار کررہی ہے۔

اسی طرح ایک دن اندھا دھند کوڑے ان کی کھال ادھیڑ رہے تھے اور یہی تھا وہ دن جب کہ چند گھونٹ پانی پی کر انھوں نے رمضان شریف کا روزہ رکھ لیا تھا۔ اس دن نقاہت حد سے بڑھی ہوئی تھی اور کوڑے کھاتے کھاتے حضرت امام پر غشی طاری ہوگئی تھی۔ وہ غش کھا کر زمین پر گرے اور جان ہونٹوں تک آگئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کچھ لوگ ٹھنڈا پانی لیے کھڑے تھے اور عرض کررہے تھے:

’’شریعت میں اس کی گنجائش ہے کہ ایسے موقع پر پانی پی لیا جائے اور جان بچالی جائے‘‘۔

’’مگر میں روزہ توڑ نہیں سکتا‘‘۔ اپنے خدا کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرنے والے نے کہا۔ زخموں سے چکناچور بدن لیے ہوئے وہ اٹھے اور بے تابانہ سر اپنے خدا کے قدموں میں رکھ دیا۔ نماز شوق ادا کی، آخر، آخر۔

ایک عام شہری اور بادشاہِ وقت کے درمیان ہونے والی جنگ اپنے اس انجام کو پہنچ گئی کہ وہی کمزور جیتا جس نے اللہ کی طاقت پر بھروسہ کیا تھا، اور اس حکومت کو شکستِ فاش ہوئی جس کو اپنی فوجوں اور اپنے ہتھیاروں پر ناز تھا۔ خدا نے موت کے فرشتے کو بھیجا اور وہ بادشاہ کے جسم سے اس کی جان نکال کر لے گیا تھا۔ آہنی پہرے اور فولادی حلقے کے درو دیوار دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ دوسرا بادشاہ موکل تخت نشین ہوا اور دلوں کو پھیرنے والے خدا نے اُس کا دل امامؒ کی عقیدت و محبت سے لبریز کردیا۔ زنداں کا دروازہ کھلا، زنجیریں کھول دی گئیں، کوڑوں کی بوچھاڑ بند ہوگئی اور حضرت امامؒ فاتحانہ مگر پھر بھی عاجزانہ، زنداں سے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جس شاہی محل سے عتاب کی آندھیاں اٹھ رہی تھیں، وہیں سے اب تعظیم و تکریم کے جھونکے چلے۔ قدم قدم پر عقیدت کیشوں کی آنکھیں بچھی ہوئی تھیں۔ دیدہ و دل فرشِ راہ تھے۔ خوشی کے ابلتے ہوئے آنسوئوں اور خوشی کی چیخوں کے درمیان امام صاحبؒ دوگانہ شکر ادا کرنے جا رہے تھے۔

بادشاہِ وقت کے دل میں امام صاحبؒ کے لیے جذبۂ عقیدت ابل رہا تھا۔ لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خوشی ابل رہی تھی، مگر امام صاحبؒ! کیا وہ بھی اطمینان کے سانس لے سکے؟ نہیں! وہاں تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ شاہی عتاب پر وہ اتنے بے چین نہ تھے جتنے اُس وقت ہوئے جب تاج و تخت کی طرف سے ان پر دنیاوی عزت و دولت کی بارش شروع ہوئی۔ بے چینی بڑھ رہی تھی اور بڑھتے بڑھتے خوف میں تبدیل ہوگئی۔

’’آپ خوف زدہ نظر آتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا ’’حالانکہ بادشاہ آپ پر مہربان ہے‘‘۔

لیکن اس سوال پر امام صاحبؒ اتنے حیران ہوئے کہ سوال کرنے والوں کی حیرت بھی پیچھے رہ گئی۔

’’یہ معاملہ!‘‘ آخر انھوں نے انکشافِ راز کردیا ’’یہ تو پہلے معاملے سے بھی سخت تر ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ دنیا جسے ستم سے دبا نہیں سکتی اُس کو کرم سے خریدنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ دین کا فتنہ تھا اور یہ دنیا کا فتنہ ہے… دنیا کا فتنہ!‘‘

یہ بات کہتے ہوئے وہ ماضی کی کسی گہری یاد میں ڈوب گئے۔ شاید یہ اُس وقت کی یاد تھی جب یہ دنیا بن سنور کر، مجسم ہوکر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل لبھانے کے لیے بڑھی تھی اور آنحضرتؐ نے دونوں ہاتھوں سے اس کو دھکے دے دے کر نکالا تھا۔ دنیا نے اُس وقت کہا تھا ’’آپ مجھ سے بچ کر نکل جائیں تو نکل جائیں لیکن آپ کے بعد والے لوگ… وہ شاید ہی مجھ سے بچ سکیں‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت امامؒ شاہی نوازشوں سے خائف ہو ہوکر بھاگ رہے تھے۔ وہ بادشاہ کے نہیں، خدا کے شکر گزار تھے، اور خدا کے بعد جس شخص کو وہ بے پناہ تشکر و امتنان کے ساتھ یاد کرتے تھے وہ دنیا کا کوئی گمنام شخص ابوالہیثم تھا۔ امام صاحبؒ کے صاحب زادے اکثر سنا کرتے تھے کہ ان کے باپ نماز پڑھ پڑھ کر اس طرح دعائیں کررہے ہیں:

’’اے اللہ! ابوالہیثم کو بخش دے… یااللہ! ابوالہیثم پر رحم کر… یا اللہ‘‘۔

’’یہ ابوالہیثم کون بزرگ تھے اباجی؟‘‘ آخر بیٹے نے سوال کیا۔

امام صاحبؒ نے یہ سنا تو ان کے منہ سے ایک گہری ٹھنڈی آہ نکلی اور آنکھوں میں آنسو جھلملا گئے۔

’’وہ ایک چور تھے!‘‘ امام صاحب کے منہ سے نکلا۔

’’چور…!‘‘ بیٹے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

’’ہاں ایک چور!‘‘ امام صاحب نے سر جھکاتے ہوئے کہا، مگر میری ابتلائوں میں ثابت قدمی کی ساری کہانی ان کی دو باتوں کا نتیجہ تھی‘‘۔

’’یہ کیسے…؟‘‘

’’میں جس وقت گرفتار کرکے لے جایا جارہا تھا وہ مجھے راہ میں ملے اور درد بھری آواز میں کہا کہ ’’میں چور ہوں، بار بار مجھے چوری سے روکنے کے لیے کوڑوں اور قید و بند کی سزائیں ملیں۔ صرف کوڑوں ہی کی مار گنی جائے تو اٹھارہ ہزار ضربیں کمر میں کھا چکا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں اپنے ارادوں میں ٹس سے مس نہ ہوسکا۔ جب بھی جیل سے نکلا، چوری کی تاک میں نکلا۔ میری یہ ثابت قدمی دنیا جیسی ناپاک چیز کے لیے تھی۔ ہزار افسوس تم پر… اگر تم خدا کے لیے اتنی بھی ہمت نہ دکھا سکو!‘‘ اُن کی یہ بات تیر کی طرح میرے دل میں اتر گئی اور اس خیال ہی سے میں پانی پانی ہوگیا کہ راہِ خدا میں، میں ایک چور سے بھی بزدل ثابت ہوں‘‘۔

…٭٭٭…

یہ اُس عہد کی کہانی ہے جب ایمان کی آگ سینوں میں اتنی تھی کہ ایک ’’چور‘‘ کے چند سوز بھرے الفاظ تاریخ کا ایک عظیم الشان مجاہد پیدا کرسکتے تھے!

اور اب…؟

آہ…! اب…!!

اس قدر قلم وہی بات لکھ رہے ہیں کہ سب کی آوازیں جمع کردی جائیں تو ایک فلک شگاف نعرہ بن کر رہ جائیں۔ اتنی زبانیں جبہ و دستار کی مقدس چھائوں میں وہی ’’الفاظ‘‘ دہرا رہی ہیں کہ ان کی مجموعی گونج کی طاقت کا اندازہ بھی مشکل ہے۔

مگر آہ، پھر بھی ایک ایسا ’’مجاہد‘‘ پیدا نہیں ہوتا! جو پیدا ہوتے ہیں… انسان اور خدا دونوں کے چور!… ذلیل، منافق، جھوٹے اور کھوکھلے زبان دراز پیدا ہوتے ہیں۔ مومن حنیف ایک بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام احمد ابن حنبل مومن و مجاہد تھے۔ ابوالہیثم مومن تھے لیکن ہم اور آپ کیا ہیں اور کیا نہیں؟ اب کون اس کا فیصلہ کرے اورکون یہ فیصلہ سنے؟

حصہ