آخر شب کے ہم سفر

85

(32)
کمل اور اکمل
اکتوبر۳۴ء۔ تیسرا پہر۔ ارجمند منزل کا پچھلا برآمدہ۔ جہاں آراء، روزی، یاسمین، انجم آراء اور اختر آراء بڑے تخت پر بیٹھی ہیں۔ جہاں آراء، روزی کے تین ماہ کے بچے کو گود میں لیے کھلا رہی ہے۔ روزی جہاں آراء کے ڈھائی ماہ کے بچے کی گاڑی پر جھکی ’’بے بی ٹاک‘‘ میں مشغول ہے۔ پھر وہ دونوں لڑکیوں کو مخاطب کرکے کہتی ہے: ’’کلکتے میں مَیں نے بسنت سے کہا: جہاں آراء کے بیٹے کا نام اس کے باپ اجمل حسین کے نام کے وزن پر اکمل رکھا گیا ہے۔ میں اپنے بیٹے کا نام اکمل کے وزن پر کمل رکھوں گی۔ بسنت ہنسنے لگے، بولے: سنسکرت میں کسی شبد کا مخالف شبد بنانا ہو تو اس کے شروع میں ’آ‘ لگادیتے ہیں۔ دیکھو کہیں تمہارا اکمل، کمل کا مخالف نہ ہوجائے!‘‘

جہاں آراء روزی کے بچے کو اس کے گدیلے پر لٹکا کر کہتی ہے: ’’کیوں ماسٹر کمل! تم بڑے ہوکر میرے اکمل سے لڑو گے؟‘‘

نیرالزماں کا سولہ سالہ لڑکا منورالزماں اپنے گڈولنے کو برآمدے میں دھکیلتا پھر رہا ہے۔ تینوں بچوں کی آیائیں گُٹ بنائے سامنے تالاب کی سیڑھیوں پر بیٹھی پان چبا رہی ہیں، روزی سانیال اپنے شوہر، بچے اور آیا کے ہمراہ چند روز قبل کلکتے سے ڈھاکے آئی ہے۔

’’روزی آپا اپنی مہم کا قصہ تو سنائیے۔ جب آپ کل لِلی کاٹج پہنچیں تو کیا ہوا؟‘‘ اختر آراء پوچھتی ہے۔

’’کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں کمل کو لے کر لِلی کاٹج گئی تھی۔ ماما کو کلکتے سے خط لکھ دیا تھا کہ پاپا کے ڈر کے مارے سیدھی گھر نہیں آئوں گی۔ ووڈلینڈ والے بسنت کے خاندانی دوست ہیں۔ نرملیندر رائے نے اِصرار کیا تھا کہ ڈھاکے جائو تو ہمارے ہاں ہی اُترنا۔ ڈھاکے پہنچ کر اسی شام ووڈلینڈز سے میں لِلی کاٹج گئی۔ ماما بے چاری صبح سے راہ دیکھ رہی تھیں۔ سارا مشن کمپائونڈ پھاٹک پر جمع تھا۔ میں کمل کو لے کر لیڈی رائے کی کار سے اُتری‘‘۔

’’بسنت بابو ساتھ گئے تھے؟‘‘ یاسمین مجید نے پوچھا۔

’’نہیں۔ ماما تو روتی ہوئی آکر لپٹ گئیں۔ بے چاری نے پھولوں سے سارا گھر سجایا تھا۔ دعوت کا انتظام کیا تھا۔ میں اندر گئی تو بولیں: تمہارے پاپا اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں۔ چلی جائو کچھ نہیں کہیں گے۔ میں سہمی سہمی اندر گئی۔ پاپا کھڑکی میں کھڑے کچھ پڑھ رہے تھے۔ ماما نے کہا پال…!

وہ کچھ نہ بولے۔ معلوم تھا میں دہلیز پر کھڑی ہوں۔ ماما نے پھر کہا: پال! خدا باپ کے ناشکرے نہ بنو۔ ایک سال ہوا تمہاری لڑکی اس طوفانی رات موت کے منہ میں جانے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔ خدا باپ نے اسے زندہ سلامت رکھا۔ اسے برکت دو۔ دیکھو اس کے ساتھ ایک ننھا فرشتہ تمہارے گھر مہمان آیا ہے۔ (گُڈ اولڈ ماما…! میں نے دل میں کہا) غرضیکہ پاپا شاید کیُو (CUE) کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ذرا چہرہ سخت کرکے میری طرف مڑے، عینک ماتھے پر سرکائی، ذرا جھجھک کر آگے بڑھے، اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ کمل اپنی غوں غاں کرنے لگا۔ پاپا بولے: خدا باپ لمبی عمر کرے۔ اور پُرتکلف لہجے میں مجھ سے پوچھا… کیا نام رکھا ہے؟ ’’کمل‘‘ میں نے جواب دیا‘‘۔

’’بسنت بابو کے لیے کچھ نہ پوچھا؟‘‘ جہاں آرا نے دریافت کیا۔

’’نہیں‘‘۔

’’چلو۔ خیر کچھ تو برف پگھلی‘‘۔ اختر آرا بولی۔

’’بالکل پگھل گئی۔ کچھ دیر بعد پاپا نے کمل کو گود میں لیا۔ اس سے لاڈ پیار کرنے لگے۔ اس نے اُن کا سوٹ بھی خراب کردیا۔ مگر پھر وہ اسے اپنے سے الگ ہی نہ کریں۔ جب میں چلنے لگی تو پوچھا کہاں جارہی ہو؟ میں نے کہا میں ووڈ لینڈز میں ٹھیری ہوں۔ کہنے لگے: کیوں؟ کیا یہ گھر تمہارا نہیں ہے؟ میں نے کہا: کل آجائوں گی۔ چنانچہ دوسرے روز جو میں گئی تو وہ جیسے کمل کے انتظار میں باہر ہی ٹہل رہے تھے، اسے دیکھ کر کھل اُٹھے۔ ماما نے چپکے سے پوچھا: بسنت بابو کو نہ لیتی آئیں؟ میں نے جواب دیا: کل لائوں گی آپ ذرا راستہ ہموار کر رکھیے‘‘۔

’’پھر لے کے گئیں بسنت بابو کو؟‘‘ یاسمین مجید نے دریافت کیا۔

’’نہیں، کل تو نہیں جاسکی۔ پرسوں نرسوں کسی روز لے جائوں گی‘‘۔

’’اتنی دیر کیوں لگا رہی ہو روزی آپا؟ میں تمہاری جگہ ہوں تو فوراً لے جائوں‘‘۔ یاسمین نے اپنی سابق استانی سے کہا۔

روزی چپ ہوگئی۔ اتنے میں ماسٹر اکمل حسین مرشد زادہ نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔ پانچوں لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ جہاں آرا نے روزی سے کہا: ’’بسنت بابو کو آج ہی لِلی کاٹج لے جائو روزی…‘‘

کل شام تو ہم لوگ سر پری توش سے باتوں میں لگ گئے تھے۔ میرے سسر بسنت کو دلّی بھیجنے کی فکر میں ہیں کہ وہ وہاں رہ کر قانون کی پریکٹس شروع کریں۔ نئی دلّی میں ان کی کوٹھی بھی ہے۔ اس کے کرائے دار کے جانے کا انتظار ہے۔ اسی سلسلے میں ضروری باتیں ہونے لگیں۔ اور آج شام کو سرپری توش اور لیڈی رائے نے ہم دونوں کے اعزاز میں ڈنر رکھا ہے، اس لیے آج بھی نہ جاسکیں گے‘‘۔

’’سرپری توش اور ان کے ڈنر کی وجہ سے روزی تم اپنے ماں باپ کے گھر نہیں گئیں!‘‘ جہاں آرا نے کہا۔

’’جہاں آرا…‘‘ روزی نے آہستہ سے ذرا کوفت کے ساتھ جواب دیا ’’میں بسنت کو وہ پھٹیچر لِلی کاٹج دکھلانا نہیں چاہتی‘‘۔

جہاں آرا نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا…’’روزی، تم کو اب اپنے گھر سے شرم آتی ہے، اپنے والدین کو اپنے POSH شوہر سے ملاتے بھی شرم آتی ہے، تم جھینپتی ہو کہ پادری بنرجی کی لڑکی ہو!‘‘

اسی وقت بیگم قمرالزماں اپنے کمرے سے نکلیں۔ ڈھاکے کی سرخ پاڑ والی سفید ساڑی بنگالی طرز سے باندھے، بے حد نازک اندام آکر تخت کے کنارے پر ٹک گئیں۔ کمل کو گود میں لے کر قریب آئی مالا کو ابرو سے اشارہ کیا۔ وہ اندر سے مہمندوقچہ نکال کر لائی۔ بیگم صاحبہ نے صندوقچہ کھول کر دو سو ایک روپے کے نوٹ نکالے اور کمل کے گدیلے کے نیچے چپکے سے سرکا دیے۔

’’اور سنائو روزی! ماں باپ سے صلح ہوگئی؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔

’’جی ہاں‘‘۔

’’اچھا ہوا، اللہ مبارک کرے‘‘۔ لڑکیوں سے چند منٹ باتیں کرنے کے بعد بیگم قمرالزماں اندر واپس چلی گئیں۔

روزی نے قیمتی جارجٹ کی ساڑی پہن رکھی تھی اور نونگے کا پورا سیٹ۔ مالا نزدیک آکر بڑے اشتیاق سے اس کے گہنے چھُو چھُو کر دیکھنے لگی۔ ارجمند منزل کی خواصوں کے لیے بے چارے غریب پادری صاحب کی بِٹیا کی بڑے گھرانے میں شادی نہایت اہم واقعہ تھی۔ خواصوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ پادری صاحب سے شادی سے پہلے روزی کی ماں گری بالا ارجمند منزل میں ماما گیری کرچکی تھیں۔ ان سب کو وہ قصہ معلوم تھا۔ کس طرح ایک غریب برہمن بال ودھوا سسرال والوں کے مظالم سے بچنے کے لیے فریدپور کے ایک گائوں سے بھاگ کر اپنے زمیندار آقا نواب قمرالزماں چودھری کی پناہ میں ارجمند منزل پہنچی تھی۔ یہاں برتن مانجھنے کے کام پر لگادی گئی تھی۔ کس طرح نواب صاحب نے اسے اپنے نوعمر بیٹوں کی عنایات سے بچانے کے لیے انگریز لاٹ پادری کی میم کے حوالے کردیا تھا، جس نے اسے عیسائی کرکے اس کی شادی نوجوان کالے پادری بنرجی سے کردی تھی۔ روزی کو بھی ماضی کے ان تلخ حقائق کا شدت سے احساس تھا۔

ملازمہ مالا مصاحبِ خاص کی حیثیت رکھتی تھی اور صاحبزادیوں کی گپ شپ میں حصہ لیتی تھی۔ اس نے روزی سے پوچھا: ’’یہ سب سسرال سے ملا ہے بی بی؟‘‘

’’ہاں، مالا‘‘۔

’’کیا کیا ملا؟‘‘

’’ایک سیٹ ہیرے کا ب،سات جڑائو اور سادے۔ یہ والا سیٹ ہماری شادی کی پہلی سال گرہ پر کمل کے ڈیڈی نے دیا ہے‘‘۔

’’اللہ مبارک کرے‘‘۔

مسز ایستھر گری بالا بنرجی نے اپنے گلے کی باریک طلائی زنجیر جس میں منّی سی صلیب آویزاں تھی اور کانوں کے مختصر سے پھول اور چار باریک چوڑیاں اُتار کر اس کے لیے رکھ لی تھیں جب لدھیانہ مشن کے مسٹر لوتھر بسواس سے اس کا رشتہ طے ہوا تھا۔ اور پچھلے سال جب روزی نے کلکتے سے ان کو اپنی شادی کی اطلاع بھیجی تو مسز بنرجی نے گھر کے خرچ میں سے تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر، اپنے بنائے ہوئے اچار مربے، میزپوش اور سوئیٹر بیچ بیچ کر روپیہ جمع کیا، اور ساری عمر کی گرہستی میں جو چند سو روپے انہوں نے پس انداز کیے تھے ان کو اس رقم میں ملا کر ڈھاکہ کا مخصوص کھوکھلے سونے کا ایک سیٹ خرید پائیں اور تین ریشمی ساڑیاں۔ ان کی اپنی شادی میں ان کے انگریز مربّی رایٹ ریورنڈ والفرڈ برائون اور مسز برائون نے چاندی کا ٹی سیٹ دیا تھا، انہوں نے اسے بھی روزی کے لیے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ یہ سب چیزیں جب روزی پہلے روز للی کاٹج گئی تو انہوں نے ایک سوٹ کیس میں رکھ کر اسے دیں۔ روزی سانیال نے آج ارجمند منزل میں اپنی بلند مرتبت سہیلیوٖں اور مالا سے اس کم مایہ جہیز کا ذکر نہ کیا۔)

ارجمند منزل کی ایک باندی چاء کی کشتی لے کر حاضر ہوئی۔ جہاں آرا نے اکمل کو اختر آرا کی گود میں دیا اور چاء بنانے میں مصروف ہوگئی۔

نواب قمرالزماں چودھری باہر تشریف لائے۔ پانچوں لڑکیاں تعظیماً کھڑی ہوگئیں۔ انہوں نے روزی سے بات کی۔ اس کے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’کیا نام رکھا ہے؟‘‘

’’اکمل کمار سانیال‘‘۔

’’اکمل کے وزن پر‘‘۔ اختر آرا نے خوشی سے کہا، اور بسنت کمار سانیال کی کہی ہوئی بات دہرائی کہ کسی لفظ میں ’آ‘ کی اضافت لفظ کا الٹ ظاہر کرتی ہے۔

’’کیوں بے؟ میرے اکمل سے لڑے گا؟ کان کھینچوں گا‘‘۔ نواب صاحب نے خوش دلی سے کہا۔

’’جی نہیں نواب صاحب…!‘‘ روزی نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’اکمل کمل کا مخالف ہے تو وہ اس سے… میرے کمل سے لڑے گا‘‘۔

’’دونوں کے کان کھینچوں گا۔ بدمعاش کہیں گے…!‘‘ پھر نواب صاحب ٹہلتے ہوئے برآمدے سے نیچے اُتر گئے اور پائیں باغ کی روشوں پر چہل قدمی کرنے لگے۔ کچھ دیر قبل نیرالزماں کی دلہن ایک سو ایک کے نوٹ کمل کے گدیلے کے نیچے سرکا گئی تھیں۔ جہاں آرا نے چاندی کے ننھے منے برتنوں، نقرئی جھنجھنوں، بیش قیمت انگریزی کھلونوں اور کپڑوں سے بھرا سوٹ کیس مع ایک سو ایک روپے کے دیا تھا۔ سوٹ کیس تخت کے نزدیک رکھا تھا۔

’’پوتڑوں کا رئیس!‘‘ روزی نے چائے پیتے ہوئے شگفتگی سے کہا۔ ’’دیکھو ہر طرف سو سو کے نوٹ بکھرے پڑے ہیں‘‘۔

روزی کے اس جملے سے تینوں نواب زادیاں اور یاسمین جھینپ گئیں۔ روزی بہ طور مسز سانیال اپنی نئی دولت مند حیثیت سے بے حد مسرور تھی۔ یاسمین کو بہت مایوسی ہوئی۔ شاید روزی آپا تھوڑی سی بددماغ بھی ہوگئی ہیں۔ وہی روزی جو آج سے صرف سال بھر قبل سر پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں کود پڑی تھی، پولیس کی لاٹھیاں کھائی تھیں، جیل میں معافی مانگنے سے انکار کیا تھا… دولت، مرتبہ اور آسائش انسان کی اتنی جلدی کایا پلٹ دیتے ہیں؟ اب یہ کس مربیانہ انداز میں مجھ سے باتیں کررہی ہیں کیونکہ میں محض ایک غریب مولوی کی لڑکی ہوں۔ یہ بھی بھول گئیں کہ سال بھر قبل تک پندرہ روپے ماہوار پر مجھے ٹیوشن دیتی رہی ہیں۔ یاسمین نے سوچا۔

عین اسی لمحے روزی نے اسے مخاطب کیا: ’’ارے یاسمین اب تم بھی جھٹ پٹ شادی کر ڈالو۔ دیپالی کو بھی چاہیے بیاہ کرلے، اور نکلے اپنے اس ڈیپرسنگ چندر کنج سے‘‘۔

’’وہ دیپالی دیدی کا گھر ہے روزی آپا، اور وہ ان کے لیے شاید بالکل ڈپریسنگ نہیں ہے‘‘۔ یاسمین نے نرمی سے جواب دیا۔

’’نان سنس۔ شادی سے پہلے ماں باپ کا گھر لڑکی کے لیے قید خانہ ہوتا ہے۔ آزادی تو شادی کے بعد ملتی ہے۔ خودمختاری کی زندگی۔ کیوں جہاں آرا؟‘‘

جہاں آرا مسکرا کر خاموش رہی۔

روزی نمائش پسند، چھچھوری اور بددماغ ہونے کے علاوہ ذرا سی بیوقوف بھی ہوگئی ہے۔ جہاں آرا نے افسوس کے ساتھ سوچا… اور اسے ایک نہایت کمینہ خیال آیا… آخر ہے تو ہماری پرانی نوکرانی کی اولاد… دوسرے لمحے اسے اپنے اس خیال پر ندامت ہوئی۔ اس نے جلدی سے کہا: ’’ارے دیپالی کا بیاہ ہوگا تو دیکھنا میں کیسی دھوم دھام کروں گی۔ اس کے بابا تو کچھ کرنے سے رہے۔ سادھو آدمی ٹھیرے۔ میں دو مہینے پہلے سے دیناج پور سے آجائوں گی۔ سارا انتظام خود کروں گی۔ مگر وہ روزی کی طرح چھپ کر کسی سے بیاہ نہ کرلے… سِول میرج…‘‘

(جاری ہے)

حصہ