انمول نعمت

134

رامین اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی جو کہ اپنے ہم عمروں کو بھی کم ہی خاطر میں لاتی، جب کہ بزرگوں کی بھی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کے گھر میں موجود دادی ہر وقت اسے سمجھاتیں اور روک ٹوک کرتیں جس پر وہ بہت ناراض ہوتی۔ لیکن یہ کسی ایک گھر کی بات نہیں ہے اکثر گھروں میں اب یہی ماحول ہوتا جارہا ہے۔

بزرگ اپنی عمر کے تجربات کی بدولت زندگی کے مختلف مراحل اور مشکلات کو دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کی اُن غلطیوں سے بچنے میں مدد کرسکتے ہیں جن کا سامنا انہیں خود کرنا پڑا۔ ان کی نصیحتیں اکثر عملی ہوتی ہیں جو نوجوانوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں۔

وہ خاندان کا مرکزی ستون ہوتے ہیں جو خاندان کے افراد کو متحد رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی ایک سوشل اسٹرکچر کو مضبوط بناتی ہے جہاں نوجوان خاندان کی روایات اور اقدار کو سیکھتے اور اپناتے ہیں۔ زندگی کے مسائل اور مشکلات میں بزرگ ہمیشہ دعاؤں اور روحانی رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کی دعائیں اور نصیحتیں نوجوانوں کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہیں۔

بزرگ اپنے خاندان اور قوم کی تہذیب و ثقافت کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات، روایات اور رسوم و رواج کو نئی نسل تک منتقل کرتے ہیں تاکہ نوجوان اپنی تہذیب اور تاریخ سے جڑے رہیں۔

لیکن اب بزرگوں کو بھی چاہیے کہ دل چسپ انداز اپنائیں۔ ہر وقت نصیحت کرنے کے بجائے پہلے نوجوانوں سے اُن کی دل چسپی کے موضوعات پر بات کریں، بچوں کو خود سے مانوس کریں اور غیر محسوس طریقے سے نصیحت اور اچھی باتیں ان کے سامنے رکھیں۔

دنیا بدل رہی ہے، اب بڑوں کو بھی اپنا انداز بدلنا ہوگا۔ بزرگوں کی موجودگی نوجوانوں کے لیے ایک انمول نعمت ہے۔ ان کی رہنمائی اور مشورے نوجوانوں کو ایک مثبت اور کامیاب زندگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کی عزت اور قدر کرنا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک معاشرتی ذمے داری بھی ہے، جو ہماری زندگیوں کو بہتر اور خوشحال بنانے میں مدد دیتی ہے۔

حصہ