’’امی! اب میں اس گھر میں واپس نہیں جائوںگی، میری ساس ہر وقت مجھے نصیحتیں کرتی رہتی ہیں… یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، یہاں نہ جائو، وہاں نہ جاؤ… میں تنگ آگئی ہوں ان پابندیوں سے۔ بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے واپس نہ جانے کا۔‘‘ شزا غصے میں بول رہی تھی۔ دادی جان کے کانوں تک بھی آواز پہنچی تو وہ کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں آگئیں۔
’’کیا بات ہے شزا بیٹا! اتنے غصے میں کیوں ہو؟‘‘
دادی کا محبت سے پوچھنا تھا کہ شزا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے روتے دیکھ کر ثروت جہاں کو بھی غصہ آگیا۔
’’بہت برے لوگ ہیں، رشتہ لیتے وقت تو بہت میٹھے ہوتے ہیں اور شادی کے بعد ان کی نظریں بدل جاتی ہیں، میری بیٹی کو نوکرانی سمجھتے ہیں! کوئی ضرورت نہیں ہے اب اُس چڑیا گھر میں جانے کی۔ آرام سے یہاں رہو، یہ تمھارے باپ کا گھر ہے۔‘‘ ثروت نے بھی خوب دل کھول کر شزا کے سسرال والوں کو برا بھلا کہا۔
دادی نے جب بہو اور پوتی کو اتنے غصے میں دیکھا تو خاموش ہوگئیں مگر دل ہی دل میں سوچ لیا کہ ضرور شزا کو سمجھائیں گی۔ دوسرے دن شام کی چائے پیتے ہوئے ثروت نے پھر کسی بات پر شزا کی ساس کو برا کہنا شروع کردیا اور داماد کے بھی لتے لیے کہ وہ بھیگی بلی بن کر خاموش رہتا ہے اور بیوی کا ساتھ نہیں دیتا۔
’’شزا! اب تمہیں وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے جب تک طلحہ تمہارے لیے الگ گھر کا انتظام نہ کرلے۔‘‘
’’طلحہ اُن کا اکلوتا بیٹا ہے، وہ کیسے ماں باپ کو چھوڑ کر الگ گھر میں رہ سکتا ہے؟‘‘ فیروزہ بیگم نے کہا۔
’’بس اماں! آپ تو رہنے ہی دیں، اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بہوئیں ساس کی ہر بات کو بے زبان جانور کی طرح سنتی اور عمل کرتی تھیں، اب زمانہ بدل گیا ہے، ہر کسی کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے۔‘‘ ثروت نے غصے سے کہا۔ فیروزہ بیگم دکھی ہوگئیں۔
دوسرے دن ثروت کسی کام سے باہر گئی ہوئی تھیں، فیروزہ بیگم نے موقع غنیمت جان کر شزا کو اپنے کمرے میں بلایا۔ ’’بیٹا! تمہیں اپنی ساس اور شوہر سے کیا شکایتیں ہیں، مجھے بتائو۔‘‘
شزا نے جو باتیں بتائیں اُن میں کوئی بات اتنی بڑی نہ تھی کہ الگ گھر میں رہا جائے یا طلاق لی جائے۔ صبح آٹھ بجے طلحہ آفس کے لیے اٹھتا تھا جب کہ شزا بارہ بجے تک سوتی رہتی تھی۔ ساس چاہتی تھیں کہ شزا شوہر کو ناشتا بناکر دے اور ہنستے ہوئے رخصت کرے، دوپہر کا کھانا وہ اور شزا ساتھ کھائیں۔ مگر شزا تو ناشتا ہی ایک بجے کرتی تھی، دو بجے ان کے ساتھ کھانا کیسے کھاتی؟ کھانا ساس بناتی تھیں، جھاڑو برتن کے لیے ماسی آتی تھی، شام کے برتن شزا دھولیتی ورنہ ساس ہی دھو لیتیں۔ شام کو چائے کے وقت بھی یہی ہوتا۔ ساس کی چائے کا وقت ہوتا اور شزا دوپہر کا کھانا کھا رہی ہوتی، ساس کسی رشتے دار کے ہاں جانے کو کہتیں تو شزا بہانہ بنادیتی، کوئی مہمان گھر آجاتا اور ساس بلاتیں تو وہ ’’چکر آرہے ہیں، بی پی کم ہورہا ہے، طبعیت ٹھیک نہیں ہے‘‘ کہہ دیتی۔ ساس سے بات کرنے کے لیے اُس کے پاس کوئی موضوع نہ ہوتا اور فون پر امی سے، سہیلیوں سے لمبی لمبی باتیں کرتی۔ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی۔ ساس گھر میں اکیلی بولائی رہتیں۔ وہ ایسی کسی بات پر آرام سے سمجھاتیں تو شزا کو لگتا مجھ پر پابندی لگا رہی ہیں۔ شزا طلحہ کو آفس سے آتے ہی کمرے میں لے جاتی اور دروازہ بند کرلیتی، وہ چاہتی بس میں اور طلحہ ہوں اور ہمارا کمرہ ہو۔کوئی تنگ نہ کرے، کوئی نہ بلائے۔
جب شزا نے یہ سب باتیں فیروزہ بیگم کو بتائیں تو سارا قصور شزا کا نظر آیا۔ انہوں نے بہت پیار سے، دل سوزی سے شزا کو سمجھایا کہ ’’ایک چھوٹے سے بچے کو پالنے میں کتنی محنت ہوتی ہے، تم اپنی آپی کو دیکھ رہی ہو نا کتنی مشکل سے، محنت سے، رات دن ایک کرکے وہ اپنے بیٹے کو پال رہی ہے! تو ہر ماں اتنی ہی محنت کرتی ہے اور اتنی ہی محبت کرتی ہے اپنی اولاد کے ساتھ، جب کہیں جاکر بچے کسی قابل ہوتے ہیں، اور اگر وہ شادی کے بعد ماں کو چھوڑ دیں، الگ گھر بسائیں تو ماں کے دل پر کیا گزرے گی؟ اگر تمہاری آپی کا ارسل بڑا ہوکر شادی کے بعد بیوی کو لے کر الگ گھر میں شفٹ ہوجائے تو کیا تمہاری آپی خوش رہ سکتی ہے؟‘‘ دادی نے مثال سے سمجھایا۔
’’نہیں، آپی تو رو رو کر مر جائیں گی‘‘ شزا نے جواب دیا۔
’’اسی طرح اگر طلحہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ الگ گھر میں رہنے لگے تو تمہاری ساس کیسے زندہ رہیں گی؟ اُن کے تو اور بچے بھی نہیں کہ اُن سے دل بہلا لیں۔‘‘
’’مگر وہ مجھ پر پابندیاں لگاتی ہیں۔‘‘
’’بیٹا ہر گھر کے طور طریقے ہوتے ہیں، سونے جاگنے کا وقت ہوتا ہے، آنے والی بہو کو چاہیے کہ سسرال کے طور طریقے سیکھے اور ان کے رنگ میں رنگ جائے۔ تمہاری ساس کی کوئی بیٹی بھی نہیں، اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ تم بیٹی کی طرح اُن کے ساتھ ہنسو بولو، آپس میں دوستانہ تعلقات رکھو، گھومنے پھرنے اور رشتے داروں سے ملاقات کے لیے جاؤ، کوئی مہمان آئے تو اُس سے سلام دعا کرو، خاطر مدارات کرو۔ اس سے ساس کی بھی عزت ہوگی اور تمہاری بھی۔ مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، اُن سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ طلحہ سے کیا شکایتیں ہیں وہ بھی بتادو۔‘‘
’’طلحہ ہر وقت امی… امی کرتے رہتے ہیں۔ امی کا خیال رکھو، امی کا کام میں ہاتھ بٹائو۔ وہ کوئی بچی ہیں کہ ان کا خیال رکھوں؟ کام میں کیا ہاتھ بٹاؤں، وہ میرے اٹھنے سے پہلے ہی کھانا بنالیتی ہیں۔‘‘
’’بس بیٹا! تم میری ایک بات مان لو، سونے جاگنے کا ٹائم ٹیبل صحیح کرلو اور ساس کو ماں سمجھو، جب تمہاری امی ڈانٹتی ہیں تو تم کو برا لگتا ہے؟ نہیں نا، پھر ساس کی بات کا بھی برا نہ مانو، وہ تمہاری بہتری کے لیے تمہیں سمجھاتی ہیں۔ دو مہینے جلدی اٹھو، طلحہ کو ناشتا بناکر دو، ساس کے ساتھ کھانا کھاؤ، چائے پیو، مل کر کھانا پکاؤ، ملنے ملانے جاؤ… ساس سے دوستی کرلو، پھر دیکھو تمہاری ساس بھی خوش ہوجائیں گی اور گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔‘‘
فیروزہ بیگم نے محبت سے اس کو مشورہ دیا، اونچ نیچ سمجھائی تو شزا کے دل پر اثر ہوا، اس کو بھی گھر اور طلحہ یاد آرہا تھا۔
اس نے طلحہ کو فون کرکے کہا ’’آفس سے جاتے ہوئے مجھے امی کے گھر سے لیتے جائیں۔‘‘ اور اپنا بیگ تیار کرنے لگی۔ ثروت آئیں تو شزا تیار تھی اور طلحہ اسے لینے آچکا تھا۔ دونوں ہنستے مسکراتے گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔ ثروت جہاں حیران تھیں اور فیروزہ بیگم مسرور، اور سوچ رہی تھیں کہ
دِل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے