سونی گود

66

’’خالہ حمیدہ! تُو نوری کو جھوک سرکار کے مزار پر حاضری کیوں نہیں دلا لاتی… وہ بہت پہنچی ہوئی سرکار ہے۔ نوری وہاں کے چند ہی چکر لگائے گی تو خوش خبری مل جائے گی۔‘‘ پڑوس کی صغریٰ چھاجھ مانگنے آئی تھی تو خالہ حمیدہ کو مشورہ دینا ضروری سمجھا۔

’’ہاں صغریٰ! میں تو خود اب یہی سوچ رہی ہوں۔ آخر دس سال انتظار کرلیا، اب بس ہوگئی ہے۔‘‘ حمیدہ نے بہو کو گھورتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں خبردار کیا۔

’’نوری! صبح سات بجے تیار ہوجانا، پیر سرکار کا آستانہ دوسرے پنڈ میں ہے، ہمیں وہاں جانے اور واپس آنے میں رات ہوجائے گی۔‘‘

دو دن بعد ہی خالہ حمیدہ نے بہو کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ نوری یہ سن کر پریشان ہوگئی، کیوں کہ اس نے کئی سہیلیوں سے اس پیر کے جعلی ہونے اور اس کے غلط افعال میں ملوث ہونے کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اس نے اپنے میاں کو اس بارے میں بتایا، مگر گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح فیقے نے بھی اسے ہی سمجھایا:

’’جھلی تو نہیں ہوگئی! تُو اتنی نیک اور پاک سرکار کے بارے میں اتنا غلط سوچ رہی ہے۔ توبہ کر توبہ۔‘‘

آخر مجبور ہوکر نوری صبح اپنی ساس کے ساتھ پیر سائیں کی سرکار میں حاضری کے لیے چل پڑی۔ شدید گرمی میں کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد آخر یہ لوگ جھوک سرکار کے دربار میں موجود تھے۔ باری آنے کے بعد پیر سائیں نے بتایا کہ اس کام کے لیے انہیں جو پڑھائی کرنی پڑے گی، اس کے لیے نوری کو ایک رات کے لیے آستانے پر چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ نوری یہ سن کر گھبرا گئی، کیوں کہ اسے پیر سائیں کی آنکھوں کی شیطانی چمک بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔

اس نے ساس کو بہت دہائی دی کہ اسے اکیلا چھوڑ کر نہ جائیں، مگر اس کی منتوں کا اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔

نوری کو ایک نیم اندھیرے کمرے میں بٹھا دیا گیا، جہاں عجیب سی مہک بسی ہوئی تھی۔ پھر اسے ایک شربت پینے کے لیے دیا گیا، جو کہ اس نے چھپاکر گملے میں ڈال دیا۔ وہ پوری طرح سے ہوش میں تھی اور پیر کی شیطانی خصلت کی طرف سے غافل نہ تھی۔ اس نے ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے پوری پیش بندی کی ہوئی تھی۔ گھر سے آتے ہوئے اپنے ڈھیلے لباس میں وہ ایک ہتھوڑی اور چھری چھپا لائی تھی۔ اولاد کی چاہت اپنی جگہ، مگر اسے عزت سے پیارا کچھ نہ تھا۔

کچھ رات گزری تو دروازہ کھلا، اور پیر اپنی پوری خباثت کے ساتھ نمودار ہوا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ نشہ آور شربت کے زیرِ اثر وہ نیم بے ہوش ہوگی۔ مگر جیسے ہی پیر نے اسے چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا، نوری نے اس کے سر کا نشانہ لے کر ہتھوڑی کا کاری وار کیا جس سے وہ چکرا کر گر گیا اور نوری اسے پھلانگتے ہوئے کمرے سے باہر آئی، جہاں ہُو کا عالم تھا۔ ایک طرف کچھ لوگ نشہ کرکے پڑے ہوئے تھے۔ ایک دن میں ہی نوری کو اندازہ ہوگیا کہ پیر کا آستانہ مختلف طرح کے شرکیہ اور کفریہ نظریات کی آماج گاہ کے ساتھ ساتھ عیاشی کا بھی اڈا تھا۔

نوری جیسے ہی باہر نکلی پولیس موبائل گشت پر تھی، نوری نے گھبرا کر گاڑی کو ہاتھ دیا۔ اتفاق سے نیا ایس ایچ او شہر سے آیا تھا، ورنہ علاقے کے تمام پولیس والے تو پیر کے معتقد اور اس کے پیسوں پر پل رہے تھے۔ بس جب انسان کسی اچھے مقصد کے لیے قدم بڑھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرتا ہے۔
نوری کے ایک مثبت قدم سے بات میڈیا تک پہنچی اور پولیس نے پیر کے تمام غیر قانونی دھندے کھنگال کر اسے اس کے انجام تک پہنچایا۔

حصہ