یہ عورت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا
محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا
پریس کلب کے وسیع آڈیٹوریم میں جب ہم داخل ہوئے، فضا میں یہ گونجتے الفاظ اپنی جانب متوجہ کررہے تھے۔ پروگرام میں شریک تمام خواتین کے عورت ہونے کے احساس کو گویا فخر کی چادر اوڑھائی جارہی تھی۔
اس پروگرام کا انعقاد خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے کیا گیا تھا جس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے محترمہ شفا نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ابتدا میں عالمی دن کی تاریخ پہ مختصر نگاہ دوڑائی اور بتایا کہ پندرہ سے اٹھائیس برس کی خواتین نوجوانی کی عمر سے ہی تشدد سہہ رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس تشدد کو سہنے والی 56 فیصد خواتین کہیں رپورٹ نہیں کرتیں۔ انہی معاشرتی رویوں کے اسباب اور سدباب جاننے کے لیے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے تحت عالمی دن کے موقع پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد محض گفتگو نہیں بلکہ اس کے تدارک کے لیے تجاویز بھی حاصل کرنا تھا۔
پروگرام میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مذاکرے کی نظامت مصنفہ اور شاعرہ محترمہ نیر کاشف کو سونپی گئی۔ شرکائے مذاکرہ میں ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر ذکیہ اورنگزیب، معروف صحافی غزالہ فصیح، وکیل کراچی بار طلعت یاسمین، سابق رکن بلوچستان اسمبلی و سیکرٹری میڈیا سیل جماعت اسلامی ثمینہ سعید اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ہالہ شامل تھیں۔
خواتین پر تشدد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رائج دو انتہاؤں کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ نیر کاشف نے کہا کہ کسی بھی نفسیاتی، جسمانی، ذہنی و مالی تشدد کا اعتراف یا اقرار کا نہ ہونا پہلی انتہا ہے، اور اس امکان کو یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا جاتا ہے کہ ’’خواتین کو سارے حقوق مل تو رہے ہیں۔‘‘ جب کہ دوسرا رُخ اس سے بھی زیادہ باعثِ تشویش ہے جس میں خواتین کے حقوق کے نام پر ایسے سبز باغ دکھائے گئے ہیں کہ وہ یہاں کی رہیں نہ وہاں کی، بلکہ ایک مسئلے سے نکل کر دیگر مسائل میں گھر گئیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کنویں سے نکل کر کھائی میں جا گرنا۔ اس ضمن میں حقیقی حل نکالنے کی ضرورت ہے اور اسی مقصد کے پیش نظر اس مذاکرے کا انعقاد کیا گیا ہے۔
تشدد کی اقسام اور ذہنی و جسمانی تشدد کے صحت پر اثرات کے متعلق ماہر نفسیات ڈاکٹر ہالہ کا کہنا تھا کہ عمومی طور پہ تشدد کی اقسام سبھی جانتے ہیں مگر آج کل مالی تشدد اور زچگی کے دوران کیے گئے تشدد بہت عام ہیں۔ اسی طرح پیشہ ورانہ زندگی میں ہر دوسری خاتون ہی ہراسمنٹ کا سامنا کررہی ہے۔ یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ لفظ ہراسمنٹ وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں کسی خاتون کو جاب کے دوران نازیبا اور غلط رویوں کا سامنا، یا دبے الفاظ میں ڈرانا دھمکانا وغیرہ شامل ہیں۔ سروے کے مطابق تقریباً 30 فیصد خواتین تشدد کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ہارمونز متاثر ہونے کے باعث بہت سی بیماریوں سے بھی نمٹ رہی ہیں۔ ایسی خواتین میں خوداعتمادی اور فیصلہ سازی کی کمی واضح نظر آتی ہے۔ عورت پر تشدد صرف اُس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جو عورت نفسیاتی مسائل کا شکار ہو‘ وہ بچوں کی پرورش کیسے کرے گی؟
عورتوں کی تولیدی صحت پر تشدد کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر زکیہ اورنگزیب نے بتایا کہ مارپیٹ کے نتیجے میں بچے کا ضائع ہوجانا بھی دیکھا گیا ہے۔ دوسری قسم کے تشدد جیسے مالی و جذباتی تشدد سے خواتین میں بھوک کی کمی، نتیجتاً خون کی کمی ہونے لگتی ہے جو خاص طور پر دورانِ زجگی بہت سے مسائل کا سبب بھی بنتی ہے۔
اس موقع پر قانونی نقطہ نظر جاننے کے لیے پینل میں موجود خاتون وکیل طلعت یاسمین سے سوال کیا گیا۔ جسمانی تشدد کے حوالے سے قوانین کے نفاذ اور تشدد کے خلاف خواتین کو قانونی حقوق میسر ہونے کے سوال پر انہوں نے ابتدائی طور پر رویوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارا سماج ہی تشدد کو تسلیم نہیں کرتا۔ شدید جسمانی تشدد کے باوجود ہم تھانے کچہری اور میڈیکل رپورٹ سے بھاگتے ہیں۔ اکثر اوقات غیرت کے نام پر معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک فی الوقت مالی تشدد ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ دکھائی دے رہا ہے، کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ بھوکی تو نہیں مر رہی۔ یہ بات شوہر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیوی آپ کی ذمہ داری ہے، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے اُسے دوسروں کا محتاج بنادینا بھی ذہنی تشدد کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ سروے کے مطابق خلع کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ مالی تشدد ہے، نیز ملازمت پیشہ خواتین کے معاملے میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کی ساری تنخواہ ہی شوہر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتے ہیں اور عورت پھر ضرورتوں کے لیے محتاج بن کررہ جاتی ہے۔ ذاتی تجربات کی بنا پر ان کا کہنا تھا کہ محض قوانین بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، آگاہی اہم ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا بھی چھوڑ دیا ہے کہ کورٹ کچہری کے چکر میں کہیں وہ بھی نہ دھر لیے جائیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ طلاق دینے کے بعد مردوں کا مکر جانا بھی خواتین کے لیے شدید کرب اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں عورت اور خاندان تنہا کچھ نہیں کرسکتے۔ وکلا اور اداروں کو ذمے داری نبھانی ہوگی اور تربیت کا کام کرنا ہوگا۔
سابق رکن بلوچستان اسمبلی ثمینہ سعید نے موضوع کے حوالے سے میڈیا کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر تو کررہا ہے مگر بدقسمتی سے ڈراموں کے ذریعے اسے الگ ہی رُخ دیا جارہا ہے، جو معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ذمے دار میڈیا مثبت طرزِ فکر اور زندگی کی تشہیر کرتا ہے تاکہ معاشرہ مضبوط ہوسکے، لیکن یہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ پرنٹ میڈیا کو بھی چاہیے کہ اس پر لکھیں اور عوام الناس کو تعلیم دیں تاکہ پُرتشدد معاشرہ بننے میں کچھ نہ کچھ روک تھام کی جاسکے۔
اسی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے صحافی غزالہ فصیح کو شاملِ گفتگو کیا گیا اور اُن سے پوچھا گیا کہ واقعات کی خبر سے آگے بھی کیا کوئی عملی اقدامات میڈیا کی سطح پہ کیے جا سکتے ہیں؟ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ گھریلو سطح پر بھی خواتین کی سفاکی سے قتل و غارت ہورہی ہے، ریاستی سطح پر جبری گمشدگی، ماورائے قانون مار پیٹ و ظلم… انتہائی تشدد کی یہ ساری شکلیں قابلِ مذمت ہیں اور ہمیں اس کے خلاف بولنا چاہیے۔ خواتین کو صنفی بنیاد پہ کمزور جان کر دبایا جاتا ہے۔ ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو‘ وہ ہر سطح کے تشدد کا سامنا کررہی ہے، اور المیہ یہ ہے کہ ہماری خواتین، خاص طور سے محنت کش خواتین اسے اپنی قسمت سمجھ لیتی ہیں اور خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ جہاں تک کوریج کی بات ہے میں سمجھتی ہوں کہ جب سے صحافت میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوئی ہے خواتین کے مسائل کو بہتر انداز سے نہ صرف کوریج دی جاتی ہے بلکہ مؤثر طریقے سے اجاگر بھی کیا جاتا ہے۔ کاروکاری اور تیزاب پھینکنے کے واقعات کا تناسب بہت حد تک کا کم ہوا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلسل لکھا جاتا رہا۔ میڈیا پر ان مسائل کو مستقل اٹھانے سے اثر ضرور پڑتا ہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس کے نتیجے میں قوانین بھی بنائے گئے۔ لیکن ضرورت یہی ہے کہ ان قوانین کو خواتین تک قابلِ رسائی بنایا جائے اور انہیں اس کا شعور دیا جائے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات خواتین بھی خواتین پر تشدد کا باعث یا آلۂ کار بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون خود پر تشدد کی شکایت کرتی بھی ہے تو اُسے ہی نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔
جنسی تشدد کو ہمارے معاشرے میں بالعموم متنازع بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کو خاموش کروا دیا جاتا ہے، حالانکہ اس معاملے کو خواتین کسی نہ کسی مقدار اور سطح پہ سہہ بھی رہی ہیں۔ اس حوالے سے میزبانِ مذاکرہ نے ماہر نفسیات ڈاکٹر ہالہ کی جانب گفتگو کا رخ موڑتے ہوئے اُن سے جاننا چاہا کہ ایسی خواتین کو تعاون کیسے فراہم کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے تائید کرتے ہوئے بتایا کہ ’’چپ رہو،کچھ نہ بولو…‘‘ وغیرہ جیسے کلمات خواتین کو سننے کو ملتے ہیں۔ اگر کسی خاتون کے رویّے میں تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، مثلاً وہ اچانک خاموش رہنے لگی ہے، چیخنا چلاّنا، گھبرانا شروع کردیا ہے، بے خوابی کا شکار یا ڈری سہمی نظر آرہی ہے تو یہ تمام رویّے سرخ جھنڈی کے مترادف ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ متاثرہ خاتون کو سمجھیں اور اس سے بات کریں کہ یہ کیوں ہورہا ہے۔ ماحول فراہم کریں اور ان کی آگے بڑھنے میں مدد کریں۔
اس موقع پر ڈاکٹر زکیہ نے بھی مختصراً ذاتی مشاہدہ پیش کیا کہ ہر دفعہ تشدد الگ انداز سے ہی سامنے آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے تشدد کہیں اور کسے نہ کہیں!
محترمہ طلعت یاسمین نے گفتگو کرتے ہوئے اس پہلو پہ بھی توجہ دلائی کہ خواتین کی کمائی میں اصولاً اور قانوناً مرد کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ المیہ بھی ہے کہ جب بیوی کمانے لگتی ہے تو شوہر اپنی ذمے داری اور خرچے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے بلکہ دوسری شادی کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ شوہر کا کردار ہمارے معاشرے میں ناپید ہوچکا ہے۔ دُلہا اور دلہن نکاح سے قبل نکاح نامہ ضرور پڑھیں، لڑکی نکاح کے بعد ماں، باپ کے فرائض سے نکل کر شوہر کے فرائض میں داخل ہوجاتی ہے۔ لڑکا اتنا ذمے دار ہوکہ اسے تمام رشتوں کے مابین توازن رکھنا آنا چاہیے۔ فی زمانہ مردوں کی تعلیم و تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ نکاح کے اصل اجزا رحمت و مودت کو بالکل ہی پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے، ہمیں سدباب دیکھنے ہوں گے۔
اسی حوالے سے غزالہ فصیح سے سوال کیا گیا کہ آگہی کا کام آخر کون کرے گا؟ اس پر اُن کا کہنا تھا کہ میڈیا اپنا کام کررہا ہے بلکہ بڑھا چڑھا کر ہی پُرتشدد واقعات دکھائے جاتے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کی تصاویر اور شناخت کی نشان دہی کرنے سے اکثر لوگ خود پر ہونے والے تشدد پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں اپنے رویوں اور ان میں شدت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس معاملے میں اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھائیں، مگر بدقسمتی سے ہم ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ…کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور اسلام سے صرف انہی معاملات میں رہنمائی لینا پسند کرتے ہیں جہاں ہماری اپنی دال گل رہی ہو۔
ڈاکٹر زکیہ اورنگزیب نے بھی تائیدی طور پہ میڈیا کے کردار پر سوال اٹھایا کہ میڈیا مسئلہ پیش کررہا ہے، مگر حل نہیں دے رہا۔ میڈیا کو اپنے اندازِ گفتگو پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ جارحانہ انداز کبھی کسی مسئلے کو حل کی جانب نہیں دھکیل سکتا۔ اس موقع پر محترمہ ثمینہ سعید نے پیمرا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے اس غیر ذمے دارانہ رویّے کو آخر کون روکے گا؟ میڈیا کا کوئی قبلہ نہیں، میڈیا اثرات اور حل پر بات نہیں کرتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
مذاکرے کے بعد اختتامی کلمات کے لیے صدرِ محفل اور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی حلقہ خواتین محترمہ ڈاکٹر حمیرہ طارق کو دعوتِ گفتگو دی گئی۔ دورانِ خطاب ان کا کہنا تھا کہ تقریباً تمام ادارے کام کررہے ہیں چاہے وہ وکلا، میڈیا، این جی اوز یا تعلیمی ادارے ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں درست رُخ دینے والا کوئی موجود نہیں، اور یہ کام اہلِ اقتدار ہی کرسکتے ہیں۔ وہی اسے رُخ دے سکتے ہیں۔ ان کے مطابق آج کی عورت زیادہ باشعور ہے، اس سے قبل عورت ظلم سہتے سہتے دفن ہوجاتی تھی مگر ظلم کا پتا نہیں چلتا تھا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین سے نرمی اختیار کرنے پر بھی زور دیا اور کہا کہ تمام مظالم کا حل صرف خوفِ خدا میں ہی پنہاں ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے ماں کی تربیت کے فقدان اور تعلیمی نظام میں کجی کو تشدد کے بڑھتے واقعات کی وجہ قرار دیا، اداروں سے سوشل سائنسز کی تعلیم کے خاتمے کو بھی تشدد کی ایک وجہ بتایا کہ بہت سی اخلاقیات اور ذمے داریاں اسی کے ذریعے سکھائی جا سکتی تھی۔ پورے نظام کو تربیت کی ضرورت ہے، لہٰذا ہمیں متحد ہوکر تبدیلی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
آخر میں شرکاء مذاکرہ اور حاضرین میں مختلف صحافیات کو اُن کی خدمات کی بنا پر اسناد بھی پیش کی گئیں اور ناظمہ سندھ رخشندہ منیب کی دعا کے ساتھ نشست برخواست کی گئی۔